مخیر حضرات کی تعریف اور ہدایات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدح و تعریف کرتا ہے جو خیرات و صدقات کرتے ہیں اور پھر جسے دیتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اور نہ اپنی زبان سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں ، ان سے ایسے جزائے خیر کا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کا اجر و ثواب رب دو عالم کے ذمہ ہے ۔ ان پر قیامت کے دن کوئی ہول اور خوف و خطر نہ ہوگا اور نہ دنیا اور بال بچے چھوٹ جانے کا انہیں کوئی غم و رنج ہوگا ، اس لئے کہ وہاں پہنچ کر اس سے بہتر چیزیں انہیں مل چکی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کلمہ خیر زبان سے نکالنا ، کسی مسلمان بھائی کیلئے دعا کرنا ، درگزر کرنا ، خطاوار کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کی تہہ میں ایذاء دہی ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی صدقہ نیک کام سے افضل نہیں ۔ کیا تم نے فرمان باری ( قول معروف الخ ) نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، وہ حلیم اور بردبار ہے ، گناہوں کو دیکھتا ہے اور حلم و کرم کرتا ہے بلکہ معاف فرما دیتا ہے ، تجاوز کر لیتا ہے اور بخش دیتا ہے صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہیں ، ایک تو دے کر احسان جتانے والا ، دوسرا ٹخنوں سے نیچے پاجامہ اور تہبند لٹکانے والا ، تیسرا اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان خیرات صدقہ کرکے احسان جتانے والا شرابی اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا ، نسائی میں ہے تین شخوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں ، ماں باپ کا نافرمان ، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا ، نسائی کی اور حدیث میں ہے یہ تینوں شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے ، اسی لئے اس آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات کو منت سماجت و احسان رکھ کر اور تکلیف پہنچا کر برباد نہ کرو ، اس احسان کے جتانے اور تکلیف کے پہنچانے کا گناہ صدقہ اور خیرات کا ثواب باقی نہیں رکھا ۔ پھر مثال دی کہ احسان اور تکلیف دہی کے صدقے کے غارت ہو جانے کی مثال اس صدقہ جیسی ہے جو ریاکاری کے طور پر لوگوں کو دکھاوے کیلئے دیا جائے ۔ اپنی سخاوت اور فیاضی اور نیکی کی شہرت مدنظر ہو ، لوگوں میں تعریف و ستائش کی چاہت ہو صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب نہ ہو نہ اس کے ثواب پر نظر ہو ، اسی لئے اس جملے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو تو اس ریاکارانہ صدقے کی اور اس احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے صدقہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی صاف چٹیل پتھر کی چٹان ہو جس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو ، پھر سخت شدت کی بارش ہو تو جس طرح اس پتھر کی تمام مٹی دُھل جاتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتی ، اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگوں کے خرچ کی کیفیت ہے کہ گو لوگ سمجھتے ہوں کہ اس کے صدقہ کی نیکی اس کے پاس ہے جس طرح بظاہر پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن جیسے کہ بارش سے وہ مٹی جاتی رہی اسی طرح اس کے احسان جتانے یا تکلیف پہچانے یا ریاکاری کرنے سے وہ ثواب بھی جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گا تو کچھ بھی جزا نہ پائے گا ، اپنے اعمال میں سے کسی چیز پر قدرت نہ رکھے گا ، اللہ تعالیٰ کافر گروہ کی راہِ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا ۔
262۔ 1 انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن بالعطیۃ)
[٣٧٨] آپ نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔ ایک منان (احسان جتلانے والا) دوسرا تہبند نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم اسبال الازار والمن بالعطیہ٫ تنقیق السلعہ بالحلف الخ) اور فقہاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جن افعال و اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا یا نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، یا پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے افعال کبیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ گویا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے والے کا صرف صدقہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا بوجھ بھی اپنے سر پر لاد لیتا ہے۔
الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ ۔۔ : یعنی یہ ثواب صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ کسی پر احسان جتلاتے ہیں اور نہ زبان و عمل سے کوئی تکلیف دیتے ہیں، کسی کو کچھ دے کر احسان جتلانا کبیرہ گناہ ہے۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ یہ فرمایا۔ ابوذر (رض) نے عرض کیا : ” وہ تو ناکام و نامراد ہوگئے، یا رسول اللہ وہ کون ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” کپڑا لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا مال فروخت کرنے والا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال ۔۔ : ١٠٦ ]
دوسری آیت میں صدقہ کرنے کے صحیح اور مسنون طریقہ کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ جن کو دیا گیا ہے ان کو کوئی ایذاء پہنچاتے ہیں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس محفوظ ہے نہ ان پر آئندہ کے لئے کوئی خطرہ ہے اور نہ گذشتہ پر کوئی رنج وغم۔- قبولیت صدقہ کی منفی شرائط :- اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی دو منفی شرطیں بیان فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ دے کر احسان نہ جتائیں دوسرے یہ کہ جس کو دیں اس کو عملاً ذلیل و خوار نہ سمجھیں اور کوئی ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے وہ اپنی حقارت وذلت محسوس کرے یا اس کو ایذاء پہنچے۔
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى ٠ ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ٠ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٦٢- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
صدقہ دے کر احسان جتلانا - قول باری ہے (الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لایتبعون ما انفقوا منا ولا اذی لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون، ( ) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر احسان نہیں جتاتے نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں) ۔- اسی طرح قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ کالذی ینفق مالہ رئا الناس ولایومن باللہ والیوم الاٰخر، ( ) اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر) ۔- اسی طرح قول باری ہے (قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی، ( ) ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو) ایک جگہ ارشاد ہے (وما اتیتم من ربا لیربو فی اموال الناس فلا یربو عند اللہ وما اٰتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اللہ فائولئک ھم المضعفون ( ) اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اسی کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں) ۔- اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بتلادیا ہے کہ صدقات اگر خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوں گے نیز احسان جتلانے اور اذیت پہنچانے سے مبرا نہ ہوں گے تو وہ درحقیقت صدقات ہی نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے اجر اور ثواب کے حبط ہوجانے کی وجہ سے یہ باطل ہوجائیں گے اور صدقہ دینے والے کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے صدقہ دیا ہی نہیں ہے۔- اسی طرح وہ تمام کی تمام عبادات ہیں جو تقرب الیٰ اللہ کی خاطر کی جاتی ہیں۔ ان میں ریاکاری یا اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کسی اور عنصر کا شامل ہوجانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ چیز اس عبادت کو باطل کردیتی ہے۔ قول باری ہے (ولا تبطلوا اعمالکم، ( ) اور تم اپنے اعمال باطل نہ کرو) ۔ نیز ارشاد ہے (وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفآء، ( ) انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ اطاعت اور فرمانبرداری کو اسی کے لئے خالص کرکے اور تمام باطل طریقوں سے منہ موڑ کر) ۔- اس لئے جس عبادت میں اللہ کے لئے خالص فرمانبرداری نہیں پائی جائے گی اس پر اس کے فاعل کو کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (من کان یرید حوث الاٰخرۃ نخلہ فی حرثہ ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاٰخرۃ من نصیب، ( ) جو شخص آخرت کی کھیتی طلب کرے گا ہم اس کی کھیتی میں اور اضافہ کردیں گے اور جو شخص دنیا کی کھیتی چاہے گا ہم اسے دنیا میں سے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا) ۔- یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حج کرنے، نماز ادا کرنے ، قرآن کی تعلیم دینے اور ایسے تمام افعال میں کسی کو کرایہ پر رکھنا جائز نہیں ہے جو تقرب الٰہی اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرانجام دیئے جائیں کیونکہ ان پر اجرت لینا انہیں قربت یعنی تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے کے دائرے سے خارج کردیتا ہے۔- درج بالا آیات اس استدلال کی بنیاد ہیں۔ نیز ان آیات کے نظائر سے بھی اس دعوے کی تائید ہوتی ہے۔ عمرو نے حسن بصری سے آیت (لاتبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ ) ( ) کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد ایسا صدقہ ہے جس پر انسان جتایا جائے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا۔ حسن بصری نے مزید کہا کہ صدقہ کرنے والے کو اللہ کی حمدو ثناء کرنی چاہیے کہ اس نے اسے صدقہ کرنے کی راہ دکھلائی اور توفیق عطاء کی۔- قول باری (مثلو الذین ینفقون اموالھم ابتغاء موضات اللہ وتثبیتاً من انفسھم، ( ) ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔۔۔ ) کی تفسیر میں حسن بصری سے مروی ہے کہ یہ لوگ تحقیق و جستجو کرتے ہیں کہ صدقات کہاں دیئے جائیں۔- شعبی سے مروی ہے کہ دل کے ثبات اور یقین کے ساتھ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ، صدقہ میں احسان جتلانے کی صورت یہ ہے کہ صدقہ کرنے والا یوں کہے کہ ” میں نے فلاں کے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ یا ” میں نے اسے خوش حال کردیا ہے “۔ یا ” میں نے فلاں کو مال دار بنادیا ہے۔ “ وغیرہ وغیرہ۔- ظاہر ہے ان باتوں سے صدقہ لینے والے کو اذیت ہوگی اور اسے بڑی ناگواری ہوگی۔ صدقہ میں اذی یعنی دکھ پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے کہے کہ ” تو تو ہمیشہ فقیر ہی رہتا ہے۔ “ یا ” میں تو تیری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا ہوں “۔ یا ” اللہ تعالیٰ تجھ سے میری جان چھڑا دے۔ “ وغیرہ۔ ایسے اقوال جن میں صدقہ لینے والے کی فقیری اور تنگ دستی کا ذکر بطور طنز و استحقار کیا جائے۔- قول باری ہے (قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی) ( ) یعنی واللہ اعلم۔۔۔ اچھے الفاظ سے اسے ٹال دینا۔ لفظ (مغفرۃ) ( ) کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ سائل کے سامنے اپنی ضرورت مندی کی پردہ پوشی کرنا، ایک قول ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی معافی دے دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ پہنچانا ہو۔ کیونکہ صدقہ کرنے والا احسان جتاکر اور دکھ پہنچا کر گناہ کا مستحق ٹھہرتا ہے اور سائل کو بھلے الفاظ کے ذریعے ٹال دینے میں اللہ کی نافرمانی میں بچائو ہے۔- اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اچھے الفاظ کو ٹال کر صدقہ نہ دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد احسان جتانا اور دکھ پہنچانا آجائے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃ من ربک ترجوھا فقل لھم قولاً میسوراً ۔ ( ) اگر ان سے یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے تمہیں کترانا ہو اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کررہے ہو تو انہیں نرم جواب دے دو ) ۔ واللہ تعالیٰ الموفق۔
(٢٦٢) اگلی آیت میں حضرت عثمان بن عفان (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لوگ خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ جس کو دیا ہے اسے کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچا تے ہیں ،- ان کو اس کا جنت میں ثواب ملے گا جہاں نہ آئندہ کسی قسم کے عذاب کا خوف ہوگا اور اپنے بعد جو چھوڑگئے ہیں نہ ہی اس کا غم ہوگا۔
آیت ٢٦٢ (اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لا) - ان کا طرز عمل یہ نہیں ہوتا کہ دیکھئے جی ‘ میں نے اس وقت اتنا چندہ دیا تھا ‘ معلوم ہوا کہ میرا حق زیادہ ہے ‘ ہم چندے زیادہ دیتے ہیں تو پھر بات بھی تو ہماری مانی جانی چاہیے یا اگر کوئی شخص اللہ کے دین کے کام میں لگا ہوا ہے اور آپ اس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر اپنا پورا وقت دین کی خدمت میں لگائے ‘ لیکن اگر کہیں آپ نے اس کو جتا بھی دیا ‘ اس پر احسان بھی رکھ دیا ‘ کوئی تکلیف دہ کلمہ کہہ دیا ‘ کوئی دلآزاری کی بات کہہ دی تو آپ کا جو اجر وثواب تھا وہ صفر ہوجائے گا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :301 یعنی نہ تو ان کے لیے اس بات کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کا اجر ضائع ہو جائے گا اور نہ کبھی یہ نوبت آئے گی کہ وہ اپنے اس خرچ پر پشیمان ہوں ۔