ذِکر مدارج الانبیاء یہاں یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ رسولوں میں بھی مراتب ہیں ، جیسا اور جگہ فرمایا ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض و اتینا داؤد زبورا ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور حضرت داؤد کو ہم نے زبور دی ، یہاں بھی اسی کا ذِکر کرکے فرماتا ہے ان میں سے بعض کو شرف ہمکلامی بھی نصیب ہوا جیسا حضرت موسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آدم ۔ صحیح ابن حبان میں حدیث ہے جس میں معراج کے بیان کے ساتھ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ کسی نبی کو آپ نے الگ الگ کس آسمان میں پایا جو ان کے مرتبوں کے کم و بیش ہونے کی دلیل ہے ، ہاں ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی کچھ بات چیت ہو گئی تو یہودیوں نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے موسیٰ کی تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو مسلمان سے ضبط نہ ہو سکا ، اس نے اٹھا کر ایک تھپڑ مارا اور کہا خبیث کیا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ افضل ہیں؟ یہودی نے سرکارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر اس کی شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، قیامت کے دن سب بیہوش ہونگے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوئے تھے؟ اور طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں کی بیہوشی سے بچا لئے گئے ، پس مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبروں کے درمیان فضیلت نہ دو ، پس یہ حدیث بظاہر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل کوئی تعارض نہیں ، ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس سے پہلے ہو کہ آپ کو فضیلت کا علم نہ ہوا ہو ، لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر ، تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک کو ایک پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اس لئے آپ نے منع فرما دیا ، چوتھا جواب یہ ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی صرف اپنی رائے ، اپنے خیال اور اپنے ذہنی تعصب سے اپنے نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت نہ دو ، پانچواں جواب یہ ہے کہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تمہارے بس کا نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو ، تمہارا کام تسلیم کرنا اور ایمان لانا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو واضح دلیلیں اور پھر ایسی حجتیں عطا فرمائی تھیں جن سے بنی اسرائیل پر صاف واضح ہو گیا کہ آپ کی رسالت بالکل سچی ہے اور ساتھ ہی آپ کی یہ حیثیت بھی واضح ہو گئی کہ مثل اور بندوں کے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور بےکس غلام ہیں ، اور روح القدس یعنی حضرت جبرائیل سے ہم نے ان کی تائید کی ۔ پھر فرمایا کہ بعد والوں کے اختلاف بھی ہمارے قضا و قدر کا نمونہ کا نمونہ ہیں ، ہماری شان یہ ہے کہ جو چاہیں کریں ، ہمارے کسی ارادے سے مراد جدا نہیں ۔
253۔ 1 قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے ( وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ ) 017:055 " ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (لا تخیرونی من بین الأنبیآء (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الاعراف، باب 135۔ مسلم کتاب الفضائل موسی) تم مجھے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دو تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیاء (علیہ السلام) کی بابت ادب اور احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پوار علم نہیں ہے اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا اس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں پر فضیلت اور اور تمام پیغمبروں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت و اشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) 253۔ 2 مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے مثلاً احیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ جس کی تفصیل سورة آل عمران میں آئے گی۔ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ 253۔ 3 اس مضموں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا۔ مطلب اس کا یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے یا اللہ کو ناپسند ہے اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اس لئے اس نے کتابیں اتاریں انبیاء (علیہ السلام) کا سلسلہ قائم کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفاء اور علماء دعوت کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت و تاکید بیان فرمائی گئی کس لیے اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے اس لیے کوئی اس اختیار کا صحیح استعمال کر کے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار و آزادی کا غلط استعمال کر کے کافر یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔
[٣٥٦] انبیاء و رسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت و رسالت عطا فرمائی۔ اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو ۔ نیز فرمایا کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو ۔ حتیٰ کہ یونس بن متی پر بھی (بخاری، کتاب التفسیر) رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیئے اور یہاں فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہ راست کلام کیا جو اور کسی نبی سے نہیں کیا۔ اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بناکر ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے۔- [٣٥٧] اختلاف اور باہمی لڑائی جھگڑے کی اصل بنیاد انسان میں قوت ارادہ و اختیار ہے۔ اگر انسان اس قوت و اختیار کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے تو یہ ایمان ہے اور یہی اسلام ہے اور اگر اس کا آزادانہ استعمال کرنا شروع کر دے اور اللہ کے احکام کی پروا نہ کرے تو یہی کفر ہے۔ - [٣٥٨] یعنی اللہ کی مشیت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادہ دی جائے، پھر دیکھا جائے کہ کون اس کو درست استعمال کرتا ہے اور کون غلط ؟ اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہی آپس میں اختلاف کرتے اور لڑائی جھگڑے کرتے رہتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو یہ قوت ہی نہ دیتا، پھر نہ کوئی اختلاف ہوتا اور نہ لڑائی جھگڑا۔ بس سب کے سب مومن ہوتے۔ لیکن ایسا ایمان اضطراری ہوتا اختیاری نہ رہتا۔ جب کہ مشیت الٰہی یہ ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں یا کفر کریں۔
تِلْكَ الرُّسُلُ ۔۔ : اس سے وہ رسول مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور فضیلت میں ایک دوسرے سے زیادہ ہیں، چناچہ فرمایا : (وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ ) [ بنی إسرائیل : ٥٥ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی۔ “ - مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے : (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) [ النساء : ١٦٤ ] ” اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ “ - وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ : یہ بات اسی آیت میں پہلے بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی، اب پھر فرمایا : ” ان میں سے بعض کو درجات میں بلند کیا “ اس سے ایک خاص شخصیت کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے، جسے سب جانتے ہیں، اس لیے نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، جیسا کہ یہ آیت ہے : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بنی إسرائیل : ١ ] اس میں بھی اس بندے کا نام بتانے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ فضیلت دو طرح کی ہے، ایک مجموعی اور کلی فضیلت اور دوسری جزوی فضیلت، یعنی کسی ایک چیز میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا، مثلاً یوسف (علیہ السلام) کہ وہ خود، ان کے والد، دادا اور پردادا نبی تھے، یہ فضیلت کسی اور رسول کو حاصل نہیں، چناچہ اس لحاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ” أَکْرَمُ النَّاسِ “ یعنی سب لوگوں سے زیادہ معزز فرمایا۔ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واتخذ اللہ ۔۔ ) : ٣٣٥٣ ] آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ (٦٠) ہاتھ قد عطا کیا اور انھیں اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، یہ آدم (علیہ السلام) کی جزوی فضیلت ہے، کلی اور مجموعی طور پر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل ہیں، یہی صحیح عقیدہ ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلاَ فَخْرَ )” میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا قیامت کے دن سردار ہوں گا اور کوئی فخر نہیں۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة بنی إسرائیل : ٣١٤٨، و صححہ الألبانی ] - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی افضلیت کے لیے قرآن مجید ہی کافی ہے۔ دوسرے تمام انبیاء کے معجزات ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئے جبکہ قرآن قیامت تک باقی ہے۔ مفسرین بالخصوص رازی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی افضلیت کو دلائل سے ثابت کیا ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جواب دیے ہیں، لیکن ابوہریرہ (رض) سے مروی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بظاہر اس کے خلاف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے موسیٰ ( (علیہ السلام) ) سے بہتر نہ کہو۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسٰی۔۔ : ٣٤٠٨ ] اور ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُفَضِّلُوْا بَیْنَ أَنْبِیَاء اللّٰہِ )” اللہ کے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دو ۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ ۔۔ : ٣٤١٤ ] علماء نے اس کے متعدد جواب دیے ہیں، جن میں سے واضح ترین جواب دو ہیں، ایک یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان کا پہلو نکلتا ہو، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ الفاظ مسلمان اور یہودی کے جھگڑے کے موقع پر فرمائے تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ کسی نبی کو ایک ایک چیز میں دوسرے انبیاء سے افضل نہ بتاؤ، کیونکہ جزوی فضیلت کسی بھی نبی کی ہوسکتی ہے۔ امام شوکانی (رض) لکھتے ہیں : ” اس آیت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، لیکن حدیث میں فضیلت دینے سے جو منع فرمایا ہے اس سے مراد مقابلہ کی صورت میں ہے، یا جزوی فضیلت مراد ہے، لہٰذا کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں۔ “ ( ابن کثیر، فتح القدیر )- وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ ۔۔ : یہاں ” الْبَيِّنٰتِ “ سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں، دیکھیے سورة آل عمران (٤٩) اور روح القدس سے جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٨٧) ۔ - یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ سب دلائل دیکھنے کے بعد ضد و عناد کی وجہ سے اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر آپس کی لڑائی اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت سے ہے۔ یہاں ” ایسا کیوں ہوا “ نہیں کہا سکتا کیونکہ اس کا جواب ہمارے فہم سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دیا ہے، پھر اسے بھی اپنے اختیار کے تحت رکھا ہے، اس کی حکمت وہی جانتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کا ایک بھید ہے جو ہم سے مخفی رکھا گیا ہے، لہٰذا اسے معلوم کرنے کی کوشش کا کچھ فائدہ نہیں، بلکہ مان لینا چاہیے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٢٣) ۔- اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے ہی سے چلا آ رہا ہے، کوئی نبی ایسا نہیں کہ جس کی ساری امت ایمان لے آئی ہو، لہٰذا آپ ان کے انکار سے رنجیدہ نہ ہوں۔
خلاصہ تفسیر :- بعض انبیاء (علیہم السلام) اور امتوں کے کچھ احوال :- یہ حضرات مرسلین (جن کا ذکر ابھی اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ میں آیا ہے) ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے (مثلا) بعضے ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ (بلاواسطہ فرشتہ کے) ہم کلام ہوئے ہیں (مراد موسیٰ (علیہ السلام) اور بعضوں کو ان میں بہت سے درجوں میں (اعلیٰ مقام سے) سرفراز کیا اور ہم نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو کھلے کھلے دلائل (یعنی معجزات) عطا فرمائے اور ہم نے ان کی تائید روح القدس (یعنی جبرئیل (علیہ السلام) سے فرمائی (ہر وقت یہود سے انکی حفاظت کرنے کے لئے ساتھ رہتے تھے) اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو (امت کے) جو لوگ ان (پیغمبروں) کے بعد ہوئے ہیں (کبھی دین میں اختلاف کرکے) باہم قتل و قتال نہ کرتے بعد اس کے ان کے پاس (امر حق کے) دلائل (پیغمبروں کی معرفت) پہنچ چکے تھے (جن کا مقتضا تھا دین حق کے قبول پر متفق رہنا) لیکن (چونکہ اللہ تعالیٰ کو بعض حکمتیں منظور تھیں اس لئے ان میں اتفاق مذہبی نہیں پیدا کیا) یہ لوگ باہم (دین میں) مختلف ہوئے سو ان میں کوئی تو ایمان لایا اور کوئی کافر رہا (پھر اس اختلاف میں نوبت قتل و قتال بھی پہنچ گئی) اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو وہ لوگ باہم قتل و قتال نہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ (اپنی حکمت سے) جو چاہتے ہیں (اپنی قدرت سے) وہی کرتے ہیں۔- معارف و مسائل :- (١) تِلْكَ الرُّسُلُ الآیہ اس مضمون میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک گونہ تسلی دینا ہے کیونکہ جب آپ کی رسالت دلیل سے ثابت تھی جس کو ابھی اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ میں بھی فرمایا ہے اور پھر بھی منکرین نہ مانتے تھے تو یہ آپ کے رنج و افسوس کا محل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ بات سنادی کہ اور بھی پیغمبر مختلف درجوں کے گزرے ہیں لیکن ایمان عام کسی کی امت میں نہیں ہوا کسی نے موافقت کی کسی نے مخالفت اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہوتی ہیں گو ہر شخص پر منکشف نہ ہوں مگر اجمالاً اتنا عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ کوئی حکمت ضرور ہے۔- (٢) تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ یہاں یہ اشکال پیش آسکتا ہے کہ یہ آیت صراحۃ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ بعض انبیاء (علیہم السلام) بعض سے افضل ہیں حالانکہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- لا تفضلوا بین انبیاء اللہ۔ انبیاء کے درمیان تفضیل نہ کیا کرو۔ - نیز فرمایا :- لا تخیرونی علیٰ موسیٰ ٰ ۔ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو ،- اور فرمایا :- لا اقول ان احداً افضل من یونس بن متٰی۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی یونس بن متیٰ سے افضل ہے۔- ان احادیث میں بعض انبیاء (علیہم السلام) کی بعض پر فضیلت دینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ؟- جواب : یہ ہے کہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ دلیل کے بغیر اپنی رائے سے بعض کو بعض پر فضیلت نہ دو اس لئے کہ کسی نبی کے افضل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کا مرتبہ بہت زیادہ ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا علم رائے اور قیاس سے حاصل نہیں ہوسکتا لیکن قرآن وسنت کی کسی دلیل سے اگر بعض انبیاء (علیہم السلام) کی بعض پر فضیلت معلوم ہوگئی تو اس کے مطابق اعتقاد رکھا جائے گا۔- رہا آپ کا یہ ارشاد کہ لا اقول ان احداً افضل من یونس بن متٰی تو یہ اس وقت سے متعلق ہے جب کہ آپ کو یہ علم نہیں دیا گیا تھا کہ آپ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے افضل ہیں بعد میں بذریعہ وحی آپ کو یہ بات بتلا دی گئی اور صحابہ کرام سے آپ نے اس کا اظہار بھی فرما دیا (مظہری) - (٣) مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہم کلامی گو بلاواسطہ فرشتہ کے ہو مگر بےحجاب نہ تھی پس سورة شوریٰ کی آیت مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ (٥١: ٤٢) جس میں بےحجاب کلام کی نفی کی گئی اس سے کچھ تعارض نہ رہا البتہ بعد موت کے بےحجاب کلام ہونا بھی شرعاً ممکن ہے، پس وہ شوریٰ کی آیت دنیا کے اعتبار سے ہے۔
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ٠ ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ٠ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا ٠ ۣ وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ ٢٥٣ ۧ- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے - الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔- (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔- (2) بنی آدم فی انفسہم۔- (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ - (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔- (5) القران - (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان)- ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔- ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔- ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ - مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ - قدس - التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ- [ البقرة 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس .- وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة .- وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة .- ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] تو بھائیو تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔
(٢٥٣) ہم نے ان میں سے کچھ کو کچھ پر بزرگی عطا کی ہے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا دوست بنایا اور ادریس (علیہ السلام) ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند درجات عطا فرمائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں کہ ان کو ہم نے اوامرو نواہی اور عجائبات عطا کیے اور جبرائیل امین (علیہ السلام) سے ان کی تائید فرمائی ،- اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد باوجود یہ کہ ان کی کتابوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف آچکی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا یہ لوگ باہم اختلاف نہ کرتے مگر انہوں نے اختلاف کیا کچھ لوگ تو تمام کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائے اور کچھ نے تمام کتابوں اور رسولوں کا انکار کردیا، اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو دین میں یہ لوگ اختلاف نہ کرتے مگر جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
آیت ٢٥٣ (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ٧ ) - یہ ایک بہت اہم اصول بیان ہو رہا ہے۔ یہ بات قبل ازیں بیان کی جا چکی ہے کہ تفریق بین الرسل کفر ہے ‘ جبکہ تفضیل قرآن سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اس اعتبار سے وہ دوسروں پر ممتاز ہے۔ چناچہ جزوی فضیلتیں مختلف رسولوں کی ہوسکتی ہیں ‘ البتہ کلیّ فضیلت تمام انبیاء و رسل ( علیہ السلام) پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے۔- (مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ ) - یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔- (وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ ط) (وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ ) (وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط) (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْم بَعْدِہِمْ ) - یعنی نہ تو یہودیوں کی آپس میں جنگیں ہوتیں ‘ نہ یہودیوں اور نصرانیوں کی لڑائیاں ہوتیں ‘ اور نہ ہی نصرانیوں کے فرقے ایک دوسرے سے لڑتے۔- (مِّنْم بَعْدِ مَا جَآءَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ ) (وَلٰکِنِ اخْتَلَفُوْا) - (فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ ط) (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْاقف) - یعنی اگر اللہ تعالیٰ جبراً تکوینی طور پر ان پر لازم کردیتا تو وہ اختلاف نہ کرتے اور آپس میں جنگ وجدال سے باز رہتے۔- (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ) - اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس حکمت پر بنایا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائش ہے۔ چناچہ آزمائش کے لیے اس نے انسان کو آزادی دی ہے۔ تو جو شخص غلط راستے پر جانا چاہتا ہے اسے بھی آزادی ہے اور جو صحیح راستے پر آنا چاہے اسے بھی آزادی ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :275 مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں ، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا ۔ نہیں ، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا ۔ مگر اس کی مشیت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انہیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبور کر دے ۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں انتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انہیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں ، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بینات سے لوگوں کو راستی کی طرف بلانے کی کوشش کریں ۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے ، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی ، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں ، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا ، مگر معاذ اللہ اسے کامیابی نہ ہوئی ۔
170: مطلب یہ ہے کہ تھوڑی بہت فضیلت تو مختلف انبیائے کرام علیہ السلام کو ایک دوسرے پر دی گئی ہے، لیکن بعض انبیائے کرام علیہ السلام کو دوسروں پر بدرجہا زیادہ فضیلت حاصل ہے، اور یہ نبی کریمﷺ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔ 171: مضمون پیچھے آیت نمبر 87 میں آچکا ہے۔ تشریح کے لئے اس آیت کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ 172: قرآنِ کریم نے بہت سے مقامات پر یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں یہ تھا کہ وہ تمام انسانوں کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کردیتا اور اس صورت میں سب کا دِین ایک ہی ہوجاتا اور کوئی اختلاف پیدا نہ ہوتا، لیکن اس سے وہ سارا نظام تلپٹ ہوجاتا جس کے لئے یہ دُنیا بنائی گئی ہے اور انسان کو اس میں بھیجا گیا ہے۔ انسان کو یہاں بھیجنے کا مقصد اس کا یہ امتحان لینا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں سے ہدایت کا راستہ معلوم کرنے کے بعد کون ہے جو اس ہدایت پر اپنی مرضی سے چلتا ہے، اور کون ہے جو اس کو نظر انداز کرکے اپنی من گھڑت خواہشات کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ اس لئے اللہ نے زبردستی لوگوں کو ایمان پر مجبور نہیں کیا ۔ چنانچہ آگے آیت نمبر : ۶۵۲ میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، حق کے دلائل واضح کردیئے گئے ہیں، اس کے بعد جو کوئی حق کو اختیار کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ایسا کرے گا، اور جو شخص اسے نظر اندازکرکے شیطان کے سکھائے ہوئے راستے پر چلے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔