" مسئلہ رضاعت: یہاں اللہ تعالیٰ بچوں والیوں کو اشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے ۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس سے دودھ بھائی بننا ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے ۔ اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو ۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹھنے سے پہلے ہو ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے ، اس کے بعد کی نہیں ۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں ۔ حدیث میں فی الثدی کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں ، یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا کہ وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پانے والی جنت میں مقرر ہے ۔ حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی ۔ دار قطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے متعبر نہ ہونے کی ہے ۔ ابن عباس بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں ۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں ۔ خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان:14 ) دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ) 46 ۔ الاحقاف:15 ) یعنی حمل اور دودھ ( دونوں کی مدت ) تیس ماہ ہیں ۔ یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ، ان تمام حضرات کا ہے ۔ حضرت علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود ، حضرت جابر ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابن عمر ، حضرت اُم سلمہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ، حضرت سعید بن المسیب ، حضرت عطاء اور جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحق ، امام ثوری ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ گو ایک روایت میں امام مالک سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں ۔ امام ابو حنیفہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں ۔ زفر کہتے ہیں جب تک دودھ نہیں چھٹا تو تین سالوں تک کی مدت ہے ، امام اوزاعی سے بھی یہ روایت ہے ۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہوگی اس لئے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہو گیا ۔ امام اوزاعی سے ایک روایت ہی بھی ہے کہ حضرت عمر ، حضرت علی سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں ۔ اس قول کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا ۔ اس کے بعد جیسے امام مالک کا فرمان ہے ، واللہ اعلم ، ہاں صحیح بخاری ، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کہ ، بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں ۔ عطاء اور لیث کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت عائشہ جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولیٰ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں ، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں ، یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں ، ساتوں فقیہوں ، کل کے کل بڑے صحابہ کرام اور تمام امہات المومنین کا سوائے حضرت عائشہ کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں ، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو ، باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت ( وامھا تکم اللاتی ارضعنکم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ ، پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے ۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں ، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا آیت ( وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ ) 4 ۔ النسآء:23 ) یعنی کشادگی والے اپنی کشادگی کے مطابق اور تنگی والے اپنی طاقت کے مطابق دیں ، اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، عنقریب اللہ تعالیٰ سختی کے بعد آسانی کر دے گا ۔ ضحاک فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لئے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے ۔ دودھ سے جب بچہ بےنیاز ہو جائے تو بیشک بچہ کو دے دے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو ۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دُکھ میں پڑے ۔ وارث کو بھی یہی چاہئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے ، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے ۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے ۔ سمرہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے ، یا تو جسمانی یا دماغی ۔ حضرت علقمہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا ۔ پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہوگی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے ۔ خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا ، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے ۔ سورۃ طلاق میں فرمایا آیت ( فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ) 65 ۔ الطلاق:6 ) اگر عورتیں بچے کو دودھ پلایا کریں تو تم ان کی اجرت بھی دیا کرو اور آپس میں عمدگی کے ساتھ معاملہ رکھو ۔ یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو ، چنانچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دے دے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں ، اب دوسری کسی دایہ سے اُجرت چکا کر دودھ پلوا دیں ۔ لوگو اللہ تعالیٰ سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے ۔ "
233۔ 1 اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے ان الفاظ سے کم مدت دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ (رض) سے مرفوعًا روایت ہے۔ 233۔ 2 طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق عورت کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ 233۔ 3 ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلًا ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کر کے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے یا یہ کہ بغیر خرچ کے ذمہ داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔ 233۔ 4 باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ 233۔ 5 یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا معاوضہ دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔
[٣١٧] والدات کے حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کو طلاق ہوچکی ہو خواہ وہ عدت میں ہوں یا عدت بھی گزر چکی ہو، اور وہ بھی جو بدستور بچہ کے باپ کے نکاح میں ہوں۔- [٣١٨] اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ تاہم اس سے حسب ضرورت کم ہوسکتی ہے (جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے) اور یہ مدت قمری تقویم کے حساب سے شمار ہوگی (مزید تفصیل سورة لقمان کی آیت نمبر ١٤ پر حاشیہ ١٨ میں دیکھئے) - [٣١٩] یعنی منکوحہ عورت اور مطلقہ عورت جو عدت میں ہو اس کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری تو پہلے ہی بچہ کے باپ پر ہوتی ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو اس آیت کی رو سے باپ ہی اس مطلقہ عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔- [٣٢٠] یعنی والد سے اس کی حیثیت سے زیادہ کھانے اور کپڑے کے اخراجات کا مطالبہ نہ کیا جائے یہ مطالبہ خواہ عورت خود کرے یا اس کے ورثاء کریں۔- [٣٢١] یعنی ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کر دے اور باپ کو پریشان کرے۔ اسی طرح باپ بچہ کو ماں سے جدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے اور اس طرح ماں کو پریشان کرے یا اس کے کھانے اور کپڑے کے اخراجات میں کنجوسی کا مظاہرہ کرے۔ یا ماں پر دودھ پلانے کے لیے جبر کیا جائے جبکہ وہ اس بات پر آمادہ نہ ہو۔ - [٣٢٢] یہ بچہ جو دودھ پی رہا ہے۔ خود بھی اپنے باپ کا وارث ہے اور اس کے علاوہ بھی وارث ہوں گے۔ بہرحال یہ خرچہ مشترکہ طور پر میت کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا اور یہ وہ ادا کریں گے جو عصبہ (میت کے قریبی وارث مرد) ہیں۔- [٣٢٣] یعنی اگر ماں باپ دونوں باہمی مشورہ سے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانا چاہیں مثلاً یہ کہ ماں کا دودھ اچھا نہ ہو اور بچے کی صحت خراب رہتی ہو یا اگر ماں باپ کے نکاح میں ہے تو اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ ماں کو اس دوران حمل ٹھہر جائے اور بچہ کو دودھ چھڑانے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی صورتوں میں ان دونوں پر کچھ گناہ نہ ہوگا اور یہ ضروری نہ رہے گا کہ بچہ کو ضرور دو سال دودھ پلایا جائے۔- [٣٢٤] اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم دایہ سے دودھ پلوانا چاہو تو اس کا معاوضہ تو دینا ہی ہے۔ مگر اس وجہ سے ماں کو جو کچھ طے شدہ خرچہ مل رہا تھا وہ اسے ادا کردینا چاہیئے، اس میں کمی نہ کرنی چاہیے۔- [٣٢٥] ایسے بیشمار احکام ہیں جنہیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات کی دنیا میں، ایک ہی معاملہ کی بیشمار ایسی شکلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ جن کے مطابق انسان اللہ کے کسی حکم کے ظاہری الفاظ کا پابند رہ کر بھی اپنا ایسا فائدہ سوچ لیتا ہے جو منشائے الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہوجاتا یا اسے تکلیف پہنچ جاتی ہے اور ایسے پیدا ہونے والے تمام حالات کے مطابق الگ الگ حکم بیان کرنا مشکل بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف بھی۔ لہذا انسان کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید اس لیے کی جاتی ہے۔ انسان اپنی نیت درست رکھے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور رکھتے ہوئے ان احکام کو بعینہ اسی طرح بجا لائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا ہو۔
(حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ) نکاح و طلاق کے بعد اس آیت میں رضاعت (بچے کو دودھ پلانے کے مسائل) کا بیان ہے، کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک عورت کو طلاق ہوجائے، یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو۔ اس سلسلے میں ماؤں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کو دودھ پلانا ماں پر فرض ہے، خصوصاً جب بچہ اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہو۔ (دیکھیے سورة طلاق : ٦) نیز اس سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے، لہٰذا اس دو سال کی عمر کے بعد اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” صرف اسی رضاعت سے حرمت ثابت ہوگی جو پستان سے پینے کے زمانے میں انتڑیوں کو پھاڑے اور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔ “ [ ترمذی، الرضاع، باب ما جاء ما ذکر أن الرضاعۃ ۔۔ : ١١٥٢، و قال حسن صحیح ] ام المومنین عائشہ (رض) سے بھی اس کی ہم معنی حدیث ثابت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَاِنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ ) [ بخاری، الشہادات، باب الشہادۃ علی الأنساب ۔۔ : ٢٦٤٧ ] ” یقیناً رضاعت وہی معتبر ہے جو (کم سنی میں) بھوک کی بنا پر ہو۔ “ بعض لوگ دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال بتاتے ہیں، مگر وہ اس آیت اور دوسری آیت : (وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ) [ لقمان : ١٤ ] (اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) کے صریح خلاف ہے۔ مزید دیکھیے سورة احقاف (١٥) کی تفسیر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو حذیفہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سالم کو، جسے انھوں نے بیٹوں کی طرح پالا تھا، جوان ہونے پر ابوحذیفہ کی بیوی کا دودھ پی کر ان کا رضاعی بیٹا بننے کی اجازت دی تھی۔ [ مسلم : ٢٧؍١٤٥٣ ] اس لیے عائشہ (رض) رضاعت کبیر کی قائل تھیں، مگر دوسری امہات المومنین نے اسے ان سے خاص ہونے کے امکان کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ سالم (رض) کے واقعہ کی طرح شدید ضرورت میں اس کی اجازت ممکن ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ دو سال کی مدت پوری کرنا ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی بچے کا دودھ چھڑایا جاسکتا ہے۔- رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والی ماں کو، جب کہ اسے طلاق ہوچکی ہو، عام معروف طریقے کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرنا والد پر فرض ہے۔ عام حالات میں جب کہ طلاق نہ ہوئی ہو، بیوی کا کھانا اور لباس اس کے شوہر پر ویسے ہی فرض ہے۔ نیز دیکھیے سورة طلاق (٦) ۔- لَا تُضَاۗرَّ : یہ ” ضَرَرَ “ سے باب مفاعلہ کا واحد مؤنث نہی حاضر مجہول کا صیغہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ نہی حاضر معلوم بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” ماں کو تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ مثلاً اپنے بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر باپ زبردستی چھین لے، یا یہ کہ اسے دودھ پلانے پر مجبور کرے اور خرچہ نہ دے اور باپ کو تکلیف دینا یہ ہے کہ ماں بچے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دے، یا دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا بھاری اخراجات کا مطالبہ کرے جو باپ کی وسعت سے باہر ہوں۔ “ آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے : ” نہ ماں بچے کی وجہ سے ضرر پہنچا کر باپ کو تکلیف دے اور نہ باپ بچے کی وجہ سے ماں کو ضرر پہنچائے۔ “ پہلی صورت میں ” لَا تُضَاۗرَّ “ صیغہ فعل مجہول کا ہوگا۔ دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے صیغہ معروف، نتیجہ ایک ہی ہے۔ - (وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ۚ ) یعنی اگر باپ مرجائے تو جو بھی اس کا وارث ہو اس پر فرض ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے والی ماں کے یہ حقوق ادا کرے۔ - یعنی اگر تم بچے کو اس کی ماں کے سوا کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو، اس لیے کہ ماں کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہو سکے، جیسا کہ فرمایا : (ۚ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗٓ اُخْرٰى) [ الطلاق : ٦ ] ” اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو اسے کوئی اور عورت دودھ پلا دے گی “ تو اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ جو معاوضہ تم دینا چاہتے ہو وہ معروف طریقے سے پورا پورا ادا کر دو ۔
خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٣٠ رضاعت :- اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلایا کریں (یہ مدت اس کے لئے ہے) جو شیر خوارگی کی تکمیل کرنا چاہئے اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان ماؤں کا کھانا کپڑا قاعدہ کے موافق اور کسی شخص کو کوئی حکم نہیں دیا جاتا مگر اس کی برداشت کے موافق کسی ماں کو تکلیف نہیں پہونچانا چاہئے اس کے بچے کی وجہ سے اور نہ کسی کے باپ کو تکلیف دینی چاہئے اس کے بچہ کی وجہ سے اور (اگر باپ زندہ نہ ہو تو) مثل طریق مذکور کے (بچے کی پرورش کا انتظام) اس کے (محرم قرابت دار کے) ذمہ ہے جو (شرعا بچے کا) وارث (ہونے کا حق رکھتا) ہے پھر (یہ سمجھ لو کہ) اگر دونوں (ماں اور باپ دو سال سے کم میں) دودھ چھڑانا چاہیں باہمی رضامندی اور مشورے سے تو بھی ان دونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں اور اگر تو لوگ (ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی کسی مصلحت ضروریہ سے مثلا یہ کہ ماں کا دودھ اچھا نہیں بچے کو ضرر ہوگا) اپنے بچوں کو کسی اور انّا کا دودھ پلوانا چاہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ ان کے حوالے کردو جو کچھ ان کو دینا طے کیا ہے قاعدہ کے موافق، اور حق تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہے ہیں۔- معارف و مسائل : - اس آیت میں رضاعت یعنی بچوں کو دودھ پلانے کے متعلق احکام ہیں اس سے پہلی اور بعد کی آیات میں طلاق کے احکام مذکور ہیں درمیان میں دودھ پلانے کے احکام اس مناسبت سے ذکر کئے گئے ہیں کہ عموماً طلاق کے بعد بچوں کی پرورش اور دودھ پلانے یا پلوانے کے معاملات زیر نزاع آجاتے ہیں اور ان میں جھگڑے فساد ہوتے ہیں اس لئے اس آیت میں ایسے معتدل احکام بیان فرمادئیے گئے جو عورت ومرد دونوں کے لئے سہل اور مناسب ہیں خواہ دودھ پلانے یا چھڑانے کے معاملات قیام نکاح کی حالت میں پیش آئیں یا طلاق دینے کے بعد بہر دو صورت اس کا ایک ایسا نظام بتادیا گیا جس سے جھگڑے فساد یا کسی فریق پر ظلم وتعدی کا راستہ نہ رہے۔- مثلا آیۃ کے پہلے جملے میں ارشاد فرمایا : وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ یعنی مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلایا کریں دو سال کامل جبکہ کوئی عذر قوی اس سے پہلے دودھ چھڑانے کے لئے مجبور نہ کرے اس آیت سے رضاعت کے چند مسائل معلوم ہوئے،- دودھ پلانا ماں کے ذمہ واجب ہے :- اول یہ کہ دودھ پلانا دیانۃ ماں کے ذمہ واجب ہے بلاعذر کسی ضد یا ناراضگی کے سبب دودھ نہ پلائے تو گنہگار ہوگی اور دودھ پلانے پر وہ شوہر سے کوئی اجرت و معاوضہ نہیں لے سکتی جب تک وہ اس کے اپنے نکاح میں ہے کیونکہ وہ اس کا اپنا فرض ہے۔- پوری مدت رضاعت :- دوسرامسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ پوری مدت رضاعت دو سال ہے جب تک کوئی خاص عذر مانع نہ ہو بچے کا حق ہے کہ یہ مدت پوری کی جائے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دودھ پلانے کے لئے پوری مدت دو سال دی گئی ہے اس کے بعد دودھ نہ پلایا جائے البتہ بعض آیات قرآن اور احادیث کی بناء پر امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اگر تیس مہینے یعنی ڈھائی سال کے عرصہ میں بھی دودھ پلا دیا تو احکام رضاعت کے ثابت ہوجائیں گے اور اگر بچے کی کمزوری وغیرہ کے عذر سے ایسا کیا گیا تو گناہ بھی نہ ہوگا۔- ڈھائی سال پورے ہونے کے بعد بچہ کو مال کا دودھ پلانا باتفاق حرام ہے۔- اس آیت کے دوسرے جملے میں ارشاد ہے وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا یعنی باپ کے ذمہ ہے ماؤں کا کھانا اور کپڑا قاعدہ کے موافق کسی شخص کو ایسا حکم نہیں دیا جاتا جس کو یہ برداشت نہ کرسکے۔- اس میں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ ماؤں کے لئے قرآن نے لفظ والْوَالِدٰتُ استعمال کیا مگر باپ کے لئے مختصر لفظ والِدُ چھوڑ کر اختیار فرمایا حالانکہ قرآن میں دوسری جگہ لفظ والد بھی مذکور ہے لَا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ (٣٣: ٣١) مگر یہاں والد کی جگہ مَوْلُوْدِ لَهٗ کے اختیار کرنے میں ایک خاص راز ہے وہ یہ کہ پورے قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب اور طرز بیان ہے کہ وہ کسی قانون کو دنیا کی حکومتوں کی طرح بیان نہیں کرتا بلکہ مربیانہ اور مشفقانہ طرز سے بیان کرتا ہے اور ایسے انداز سے بیان کرتا ہے جس کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا انسان کے لئے آسان ہوجائے۔- یہاں بھی چونکہ بچہ کا نفقہ باپ کے ذمہ ڈالا گیا ہے حالانکہ وہ ماں اور باپ کی متاع مشترک ہے تو ممکن تھا کہ باپ کو یہ حکم کچھ بھاری معلوم ہو اس لئے بجائے وَالِدُ کے مَوْلُوْدِ لَهٗ کا لفظ اختیار کیا (وہ شخص جس کا بچہ ہے) اس میں اس طرف اشارہ کردیا کہ اگرچہ بچے کی تولید میں ماں اور باپ دونوں کی شرکت ضرور ہے مگر بچہ باپ ہی کا کہلاتا ہے نسب باپ ہی سے چلتا ہے اور جب بچہ اس کا ہوا تو ذمہ داری خرچ کی اس کو بھاری نہ معلوم ہونی چاہئے۔- بچے کو دودھ پلانا ماں کے ذمہ اور ماں کا نان ونفقہ و ضروریات باپ کے ذمہ ہیں :- تیسرا مسئلہ : شرعیہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ دودھ پلانا ماں کے ذمہ ہے لیکن ماں کا نان ونفقہ اور ضروریات زندگی باپ کے ذمہ ہیں اور یہ ذمہ داری جس وقت تک بچے کی ماں اس کے نکاح میں یا عدت میں ہے اس وقت تک ہے اور طلاق اور عدت پوری ہونے کے بعد نفقہ زوجیت تو ختم ہوجائے گا مگر بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ دینا باپ کے ذمہ پھر بھی لازم رہے گا (مظہری) - زوجہ کا نفقہ شوہر کی حیثیت کے مناسب ہونا چاہئے یا زوجہ کی :- چوتھا مسئلہ : اس پر تو اتفاق ہے کہ میاں بیوی دونوں امیر مالدار ہوں تو نفقہ امیرانہ واجب ہوگا اور دونوں غریب ہوں تو نفقہ غریبانہ واجب ہوگا، البتہ جب دونوں کے حالات مالی مختلف ہوں تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ صاحب ہدایہ نے خصاف کے اس قول پر فتویٰ دیا ہے کہ اگر عورت غریب اور مرد مال دار ہو تو اس کا نفقہ درمیانہ حیثیت کا دیا جائے گا کہ غریبوں سے زائد مال داروں سے کم اور کرخی کے نزدیک اعتبار شوہر کے حال کا ہوگا فتح القدیر میں بہت سے فقہاء کا فتویٰ اس پر نقل کیا ہے واللہ اعلم (فتح القدیر ص ٤٢٢ ج ٣) - آیت مذکورہ میں احکام کے بعد ارشاد فرمایا : لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ یعنی نہ تو کسی ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف میں ڈالنا جائز ہے اور نہ کسی باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے، مطلب یہ ہے کہ بچے کے ماں باپ آپس میں ضدا ضدی نہ کریں مثلاً ماں دودھ پلانے سے معذور ہو اور باپ اس پر یہ سمجھ کر زبردستی کرے کہ آخر اس کا بھی تو بچہ ہے یہ مجبور ہوگی اور پلادے گی یا باپ مفلس ہے اور ماں کو کوئی معذوری بھی نہیں پھر دودھ پلانے سے اس لئے انکار کرے کہ اس کا بھی تو بچہ ہے جھک مار کر کسی سے پلوالے گا۔- ماں کو دودھ پلانے پر مجبور کرنے یا نہ کرنے کی تفصیل :- لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا سے پانچواں مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ ماں اگر بچہ کو دودھ پلانے سے کسی ضرورت کے سبب انکار کرے تو باپ کو اسے مجبور کرنا جائز نہیں اور اگر بچہ کسی دوسری عورت یا جانور کا دودھ نہیں لیتا تو ماں کو مجبور کیا جائے گا یہ مسئلہ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ سے معلوم ہوا۔- عورت جب تک نکاح میں ہے تو اپنے بچے کو دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ نہیں کرسکتی طلاق وعدت کے بعد کرسکتی ہے :- چھٹامسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ اگر بچے کی ماں دودھ پلانے کی اجرت مانگتی ہے تو جب تک اس کے نکاح یا عدت کے اندر ہے اجرت کے مطالبہ کا حق نہیں یہاں اس کا نان نفقہ جو باپ کے ذمہ ہے وہی کافی ہے مزید اجرت کا مطالبہ باپ کو ضرر پہنچانا ہے اور اگر طلاق کی عدت گذر چکی اور نفقہ کی ذمہ داری ختم ہوچکی ہے اب اگر یہ مطلقہ بیوی اپنے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ باپ سے طلب کرتی ہے تو باپ کو دینا پڑے گا کیونکہ اس کے خلاف کرنے میں ماں کا نقصان ہے شرط یہ ہے کہ یہ معاوضہ اتنا ہی طلب کرے کہ جتنا کوئی دوسری عورت لیتی ہے زائد کا مطالبہ کرے گی تو باپ کو حق ہوگا کہ اس کی بجائے کسی انا کا دودھ پلوائے۔- یتیم بچے کے دودھ پلوانے کی ذمہ داری کس پر ہے ؟- آیت متذکرہ میں اس کے بعد یہ ارشاد ہے : وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ یعنی اگر باپ زندہ نہ ہو تو بچے کو دودھ پلانے یا پلوانے کا انتظام اس شخص پر ہے جو بچے کا جائز وارث اور محرم ہو یعنی اگر بچہ مرجائے تو جن کو اس کی وراثت پہچنتی ہے وہی باپ نہ ہونے کی حالت میں اس کے نفقہ کے ذمہ دار ہوں گے اگر ایسے وارث کئی ہوں تو ہر ایک پر بقدر میراث اس کی ذمہ داری عائد ہوگی۔ امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ یتیم بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری وارث پر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نابالغ بچے کا خرچہ دودھ چھڑانے کے بعد بھی وارثوں پر ہوگا کیونکہ دودھ کی کوئی خصوصیت نہیں مقصود بچے کا گذارہ ہے، مثلاً اگر یتیم بچے کی ماں اور دادا زندہ ہیں تو یہ دونوں اس بچے کے محرم بھی ہیں اور وارث بھی اس لئے اس کا نفقہ ان دونوں پر بقدر حصہ میراث عائد ہوگا یعنی ایک تہائی خرچہ ماں کے ذمہ اور دو تہائی دادا کے ذمہ ہوگا اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یتیم پوتہ کا حق دادا پر اپنے بالغ بیٹوں سے بھی زیادہ ہے کیونکہ بالغ اولاد کا نفقہ اس کے ذمہ نہیں اور یتیم پوتے کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے، ہاں میراث میں بیٹوں کے موجود ہوتے ہوئے پوتے کو حقدار بنانا اصول میراث اور انصاف کے خلاف ہے کہ قریب تر اولاد کے ہوتے ہوئے بعید کو دینا معقول بھی نہیں اور صحیح بخاری کی حدیث لاولیٰ رجل ذکر کے بھی خلاف ہے البتہ دادا کو یہ حق ہے کہ اگر ضرورت سمجھے تو یتیم پوتہ کے لئے کچھ وصیت کرجائے اور یہ وصیت بیٹوں کے حصہ سے زائد بھی ہوسکتی ہے اسی طرح یتیم پوتہ کی ضرورت کو بھی پورا کردیا گیا اور وراثت کا اصول کہ قریب کے ہوتے ہوئے بعید کو نہ دیا جائے یہ بھی محفوظ رہا۔- دودھ چھڑانے کے احکام :- اس کے بعد آیت متذکرہ میں ارشاد ہوتا ہے فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا یعنی اگر بچے کے ماں باپ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے یہ ارادہ کریں کہ شیر خوارگی کی مدت یعنی دو سال سے کم میں ہی دودھ چھڑا دیں خواہ ماں کی معذوری کے سبب یا بچے کی کسی بیماری کے سبب تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں آپس کے مشورے اور رضامندی کی شرط اس لئے لگائی کہ دودھ چھڑانے میں بچے کی مصلحت پیش نظر ہونی چاہئے آپس کے لڑائی جھگڑے کا بچے کو تختہ مشق نہ بنائیں۔- ماں کے سوا دوسری عورت کا دودھ پلوانے کے احکام :- آخر میں ارشاد فرمایا گیا : وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بالْمَعْرُوْفِ یعنی اگر تو یہ چاہو کہ اپنے بچوں کی کسی مصلحت سے ماں کی بجائے کسی انا کا دودھ پلواؤ تو اس میں بھی کچھ گناہ نہیں شرط یہ ہے کہ دودھ پلانے والی کی جو اجرت مقرر کی گئی تھی وہ پوری پوری ادا کردیں اور اگر اس کو مقررہ اجرت نہ دی گئی تو اس کا گناہ ان کے ذمہ رہے گا۔- اس سے معلوم ہوا کہ اگر ماں دودھ پلانے پر راضی ہے لیکن باپ یہ دیکھتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کے لئے مضر ہے تو ایسی حالت میں اس کو حق ہے کہ ماں کو دودھ پلانے سے روک دے اور کسی انا سے پلوائے۔- اس سے ایک باپ یہ بھی معلوم ہوئی کہ جس عورت کو دودھ پلانے پر رکھا جائے اس سے معاملہ تنخواہ یا اجرت کا پوری صفائی کے ساتھ طے کرلیا جائے کہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے اور پھر وقت مقررہ پر یہ طے شدہ اجرت اس کو سپرد بھی کردے اس میں ٹال مٹول نہ کرے۔- یہ سب احکام رضاعت بیان کرنے کے بعد پھر قرآن نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب کے ساتھ قانون پر عمل کو آسان کرنے اور ظاہر و غائب ہر حال میں اس کا پابند رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کے علم محیط کا تصور سامنے کردیا ارشاد ہوتا ہے، وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کھلے اور چھپے اور ظاہر و غائب کو پوری طرح دیکھ رہے ہیں اور وہ تمہارے دلوں کے مخفی ارادوں اور نیتوں سے باخبر ہیں اگر کسی فریق نے دودھ پلانے یا چھڑانے کے مذکورہ احکام کی خلاف ورزی کی یا بچے کی مصلحت کو نظر انداز کرکے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا تو وہ مستحق سزا ہوگا۔
وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ٠ ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ٠ ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا ٠ ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٠ ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ٠ ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا ٠ ۭ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ٢٣٣- رضع - يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم .- ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - كسا - الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً- [ المؤمنون 14] - ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔ - كلف - وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین :- محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات .- والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . - ( ک ل ف ) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے - اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے - محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - فِصالُ :- التّفریق بين الصّبيّ والرّضاع، قال : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] ، وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] ، ومنه : الفَصِيلُ ، لکن اختصّ بالحُوَارِ ، والمُفَصَّلُ من القرآن، السّبع الأخيروذلک للفصل بين القصص بالسّور القصار، والفَوَاصِلُ : أواخر الآي، وفَوَاصِلُ القلادة : شذر يفصل به بينها، وقیل : الفَصِيلُ : حائط دون سور المدینة وفي الحدیث : «من أنفق نفقة فَاصِلَةً فله من الأجر کذا» أي : نفقة تَفْصِلُ بين الکفر والإيمان .- الفصال کے معنی بچے کا دودھ چھڑانا کے ہیں قرآن پاک میں ہے : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] اور اگر دونوں ( یعنی ماں باپ ) آپس کی رضامندی ۔۔۔ سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں ۔ وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] اور ( آخر کار) دوبرس میں اس کا دودھ چھڑا نا ہوتا ہے ۔ اسی سے تفصیل ( یعنی دودھ چھڑایا ہوا بچہ ) ہے لیکن یہ خاص کر اونٹ کے بچہ پر بولا جاتا ہے المفصل قرآن کی آخر منزل کو کہاجاتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی سورتوں میں تمام قصے الگ الگ بیان کئے گئے ہیں ۔ الفواصل ( اوخر آیات : اور فواصل القلادۃ ان بڑے موتیوں کو کہاجاتا ہے جو ہار کے اندر چھوٹی موتیوں کے درمیان فاصلہ کے لئے ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ حدیث میں ہے : من اتفق نفقۃ فاصلۃ فلہ سن الاجر کذا یعنی جس نے اتنا زیادہ خرچ کیا جس سے حق و باطل کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو اس کے لئے اتنا اور اتنا اجر ہے ۔- مَشُورَةُ :- والتَّشَاوُرُ والْمُشَاوَرَةُ والْمَشُورَةُ : استخراج الرّأي بمراجعة البعض إلى البعض، من قولهم :- شِرْتُ العسل : إذا اتّخذته من موضعه، واستخرجته منه . قال اللہ تعالی: وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ- [ آل عمران 159] ، والشُّورَى: الأمر الذي يُتَشَاوَرُ فيه . قال : وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری 38] .- اور التشاور والمشاورہ والمشورۃ کے معنی ہیں ایک دوسرے کی طرف بات لوٹا کر رائے معلوم کرنا ۔ یہ بھی شرت العسل سے مشتق ہے جس کے معنی چھتہ سے شہد نکالنا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران 159] اور اپنے کا موں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ الشوری ہر وہ امر جس میں مشورہ کیا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری 38] اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں ۔- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
رضاعت کا بیان - قول باری ہے (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی) تاآخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت تو خبر یک صورت میں ہے لیکن مفہوم خطاب سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اس سے خبر کا ارادہ نہیں کیا گیا کیونکہ اگر یہ خبر ہوتی تو اس کا مخبر (جس کے متعلق خبر دی جا رہی ہے) بھی موجود ہوتا جبکہ مائوں میں ایسی بھی ہیں جو سروے سے بچے کو دودھ پلاتی ہی نہیں ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت کے الفاظ میں خبرمراد نہیں ہے۔ اب جبکہ حقیقت الفاظ مراد نہیں جو خبر ہے تو پھر یا تو یہ مراد ہے کہ ماں پر بچے کو دودھ پلانا واجب کردیا گیا ہے اور اس آیت کے ذریعے اسے اس کا حکم دے دیا گیا ہے کیونکہ صیغہ خبر کے ذریعے کبھی امر مراد ہوتا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) یا یہ مراد ہے کہ اس سے مال کے لئے رضاعت کا حق ثابت کیا گیا ہے خواہ باپ اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرے۔ یا رضاعت کی بنا پر باپ پر عائد ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں یہ فرمایا (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن اگر یہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کا معاوضہ ادا کر دو ) ۔- نیز یہ فرمایا (و ان تعامرتم فسترضع لہ اخریٰ اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو رضاعت کوئی دوسری کرے گی) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں زیر بحث آیت میں رضاعت مراد نہیں ہے۔ خواہ ماں یہ چاہے نہ چاہے بلکہ اسے اختیار ہے کہ اپنے بچے کو دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ اس لئے اب دو آخری صورتیں باقی رہ گئیں۔ وہ یہ کہ باپ اگر بچے کی ماں سے دودھ پلوانے سے انکار کر دے تو اسے اس پر مجبور کیا جائے گا اور اس پر زیادہ سے زیادہ جتنے عرصے کی رضاعت کے اخراجات لازم ہوں گے وہ دو سال ہے۔ اگر وہ اس سے زائد عرصے کی رضاعت کا خرچ دینے سے انکار کر دے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔ پھر قول باری (والوالدات یوضعن اولادھن) یا تو تمام مائوں کیلئے عام ہے خواہ طلاق یافتہ ہوں یا غیرطلاق یافتہ یا یہ کہ اس کا عطف ان طلاق یافتہ عورتوں پر ہوگا جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور آیت کے حکم کا اقتصار ان پر ہی ہوگا۔ اگر اس سے مراد تمام طلاق یافتہ اور شوہروں والیاں مراد ہوں گی تو ان میں سے خاوندوں والیوں کے لئے واجب شدہ خرچ سے مراد زوجیت کا نان و نفقہ ہوگا۔ رضاعت کا نفقہ مراد نہیں ہوگا کیونکہ ایسی عورت زوجیت کی بقا کے ساتھ رضاعت کے نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی کہ اس طرح اسے دوہرا خرچ دینا پڑے، ایک زوجیت کا اور دوسرا رضاعت کا۔ اگر دودھ پلانے والی طلاق یافتہ ہو تو اس صورت میں بھی وہ رضاعت ک نفقہ کی مستحق ہوگی۔- ظاہر آیت کا یہی مقتضی ہے کیونکہ ظاہر آیت نے رضاعت کی وجہ سے اس کا نفقہ واجب کیا ہے اور اس حالت میں نہ تو و بیوی ہے اور نہ ہی عدت گزار رہی ہے کیونکہ اس صورت میں آیت زیر بحث کا عطف قول باری (واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن) پر ہوگا اس صورت میں عورت کی عدت وضع حمل کی بناء پر گزر چکی ہوگی اور وہ رضاعت کی بنا پر نفقہ کی مستحق ہوگی اس میں یہ بھی امکان ہے کہ شوہر نے وضع حمل کے بعد اسے طلاق دے دی ہو اس صورت میں وہ حیض کے حساب سے عدت گزارے گی۔ رضاعت اور عدت دونوں کے نفقہ کے اکٹھے وجوب کے متعلق ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ایک روایت میں تو ہے کہ وہ دونوں نفقہ کی ایک ساتھ مستحق ہوگی اور دوسری روایت میں ہے کہ عدت کے نفقہ کیساتھ رضاعت کے نفقہ میں سے کوئی چیز اسے نہیں ملے گی۔ آیت کی دلالت دو معنوں پر ہو رہی ہے ایک یہ کہ ماں اپنے بچے کو دو سال کے عرصے میں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ دودھ پلانے پر رضامند ہو تو باپ کسی اور عورت سے دودھ نہیں پلوا سکتا۔ دوم یہ کہ جس مدت کی رضاعت کا خرچ باپ پر لازم ہے وہ دو سال ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ رضاعت کے اخراجات میں باپ کے ساتھ اور کوئی شریک نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر یہ لازم کردیا ہے کہ وہ یہ خرچ بچے کی ماں کو دے جبکہ ماں باپ دونوں بچے کے وارث ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ماں سے بڑھ کر باپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا حالانکہ میراث میں باپ اور ماں دونوں شریک ہوتے ہیں۔- اس طرح نفقہ کی ذمہ داری بنیادی طور پر باپ پر ڈال دی گئی کسی اور پر نہیں۔ اسی طرح باپ ہی اپنی نابالغ اولاد اور بالغ لیکن اپاہج اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار ہے اس چیز میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہوگا۔ آیت کی دلالت اسی مفہوم پر ہو رہی ہے اور قول باری (رزقھن و کسوتھن بالمعروف ان کا کھانا اور کپڑا معروف طریقے سے) حالت زوجیت میں بھی دودھ پلانے والی کے لئے کھانے اور کپڑے کے وجوب کا متقاضی ہے کیونکہ ایٓت تمام والدات کو شامل ہے خواہ وہ زوجات ہوں یا طلاق یافتہ۔ قول باری (بالمعروف) اس پر دلالت کر رہا ہے کہ کھانے اور کپڑے کا وجوب باپ کی خوشحالی اور تنگدستی کے لحاظ سے ہوگا کیونکہ یہ بات معروف میں داخل نہیں کہ تنگ دست پر اس سے زائد لازم کردیا جائے جس کی وہ قدرت رکھتا ہو اور اس کا دینا اس کے لئے ممکن ہو اور خوشحال پر معمولی مقدار واجب کردی جائے۔ کیونکہ اس حکم کے فواً بعد یہ قول باری (لا تکلف نفس الا و سعھا۔ کسی انسان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بھنایا جاتا) اس حقیقت کو پوری طرح بیان کر رہا ہے اگر عورت اکڑ جائے اور اس سے زائد کا مطالبہ کرے جو عرفاً اور عادۃً اس جیسی عورت کو معاوضہ کے طور پر دیا جاتا ہے تو اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر مرد اس سے کم دینے پر بضد و جائے تو یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا بلکہ اسے پوری مقدار ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔- آیت میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ غیر عورت کو کھانے اور کپڑے کے بدلے دودھ پلانے کے لئے رکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورت کے لئے جو چیز واجب کردی ہے وہ رضاعت کی اجرت ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن) میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ آیت میں نئے پیش آمدہ واقعات کے احکامات معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش پر بھی دلالت ہو رہی ہے کیونکہ معروف طریقے سے نفقہ کا اندازہ لگانا غالب ظن اور کثرت رائے سے ممکن ہے اس لئے کہ اس کا اعتبار عادت کی بناء پر ہوتا ہے اور ہر ایسی چیز جس کی بنیاد عادت ہو اس کے معلوم کرنے کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہے۔ کیونکہ عادت ایک ہی مقدار پر ٹھہری نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔- ایک اور جہت سے بھی اس معاملے میں اجتہاد سے کام لینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے مرد کی خوشحالی اور تنگدستی نیز کفایت کرنے والی مقدار کا اندزہ لگانا جو اس قول باری (لا تکلف نفس الا وسعھا) کے تحت ضروری ہے کیونکہ وسعت کا اعتبار عادت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سے فرقہ جبریہ کے اس عقیدے کا بھی بطلان ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی باتوں کا مکلف بناتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس بات کی نسبت کرنے میں وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ آیت میں ان کے اس جھوٹ کا پول کھول دیا گیا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ان کی ان بےوقوفانہ باتوں اور ان کی ان جھوٹی باتوں سے بہت بلند ہے۔ قول باری ہے (لا تضارو والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ۔ کسی ماں کو اس کے بچے اور کسی باپ کو اس ک بچے کی وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے) حسن بصری، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد رضاعت کے معاملے میں تکلیف میں ڈالنا ہے۔ سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اگر رضاعت کا کوئی انتظام کیا جائے تو اس میں ماں کو اختیار دیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی ماں کو اس وجہ سے تکلیف نہ دی جائے کہ بچہ اس کا ہے وہ اس طرح کہ اگر وہ اتنے پیسوں پر دودھ پلانے کے لئے راضی ہوجائے جتنے پر ایک اجنبی عورت ہوتی ہے تو اسے اس کا موقع نہ دیا جائے یا اتنے پیسے ادا نہ کئے جائیں۔- بلکہ آیت کی ابتداء میں قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ و علی مولود لہ رزقھن و وکسوتھن بالمعروف) کی رو سے ماں ہی اس کام اور اس اجرت کی زیادہ مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ماں کو اس مدت میں اپنے بچے کو دودھ پلانے کا حقدار قرار دیا ہے۔ پھر اس کی تاکید اپنے اس قول سے فرمائی (لا تضار والدۃ بولدھا) اس سے مراد… واللہ اعلم… یہ ہے کہ جب ماں اتنے ہی معاوضہ پر دودھ پلانے کے لئے راضی وہ جائے جتنے پر ایک اجنبی عورت، تو پھر باپ کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اسے نقصان پہنچائے اور کسی اور عورت کو دودھ پلانے کی ذمہ داری سونپ دے۔ یہی بات دوسری آیت میں بیان فرمائی (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن) اس میں ماں کو سب سے بڑھ کر رضاعت کا حقدار قرار دیا۔ پھر فرمایا (و ان تعاسرتم نسرضع لہ اخری) اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے ماں کا حق اسی وقت ساقط کیا جب دودھ پلانے کے معاملے میں کشمکش ہوجائے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو اگر ماں دودھ پلانے پر رضامند نہ ہو تو اسے اس طرح نقصان نہ پہنچایا جائے کہ ماں سے اس کے بچے کو چھین لیا جائے اس صورت میں باپ سے کہا جائے گا کہ وہ دودھ پلانے والی دایہ سے کہے کہ وہ ماں کے گھر میں آ کر بچے کو ماں کے پاس بیٹھ کر دودھ پلائے۔- ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے آیت میں نقصان پہنچانے اور تکلیف دینے کی دو صورتوں کا احتمال ہے یعنی ماں سے بچے کو چھین لینا اور کسی اور عورت کو دودھ پلانے کے لئے مقرر کرنا تو یہ ضروری ہے کہ اسے ان دونوں معنوں پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں شوہر کو اس سے روک دیا جائے کہ جب ماں بچے کو اتنی ہی اجرت یعنی معروف طریقے پر کھانے اور کپڑے پر دودھ پلانے کے لئے رضامند ہو تو وہ کسی اور عورت کے دودھ پلانے کی ذمہ داری سونپ دے اور اگر ماں دودھ پلانے پر رضامند نہ ہو تو شوہر کو مجبور کردیا جائے کہ وہ دودھ پلانے والی دایہ کو بچے کی ماں کے گھر میں آ کر دودھ پلانے کے لئے کہے اور اس طرح شوہر بیوی کو بچے کی بنا پر تکلیف میں نہ ڈال سکے۔ ا میں اس پر بھی دلالت ہے کہ ماں بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھنے کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ صغیر ہوگا گرچہ اسے ماں کا دودھ پینے کی ضرورت باقی نہ رہے لیکن ماں کی گود میں پرورش پانے کی ضرورت ابھی باقی رہتی ہو کیونکہ اس صورت میں اس بچے کو رضاعت کے بعد بھی ماں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی رضاعت ختم ہونے سے قبل تھی۔ اب جب ماں رضاعت کی حالت میں بچے کو اپنے پاس رکھنے کی حقدار تھی خواہ دودھ پلانے والی عورت کوئی اور ہو تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ بچے کا ماں کے پاس ہونا دراصل ماں کا حق ہے، نیز اس میں بچے کا بھی حق ہے اور وہ یہ کہ بچے کے ساتھ ماں کی شفقت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور اس کی مامتا دوسروں کے مقابلے زیادہ محبت اور پیار دیتی ہے۔- ہمارے نزدیک لڑکے کی صورت میں اس کی حد یہ ہے کہ لڑکا خود کھا پی سکے اور وضو کرسکے اور لڑکی کی صورت میں اسے حیض آ جائے۔ اس لئے کہ لڑکا اگر عمر کی اس حد کو پہنچ جائے۔ جس میں اسے ادب تمیز سکھانے اور تربیت دینے کی ضرورت پیدا ہوجائے تو اس عمر میں اس کا ماں کے پاس رہنا اس کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے کہ باپ یہ کام ماں کے مقابلے میں بطریق احسن سرانجام دے سکتا ہے۔ عمر کی یہی وہ حد ہے جس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (مردھم بالصلوۃ بسبع واضربوھم علیھا العشر و فرقوا بینھم فی المضاجع سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کے لئے کہو اور دس سال کی عمر میں اگر نہ پڑھیں تو ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو ) اس لئے کہ جس لڑکے کی عمر سات برس کی ہوجائے اسے تعلیم کے طور پر نماز پڑھنے کا حکم ہے کیونکہ وہ اس عمر میں نماز کا مفہوم سمجھتا ہے۔ اسی طرح ادب آداب کے تمام پہلو جنہیں سیکھنا اس کے لئے ضروری ہے، اس حالت میں اس کا ماں کے پاس ہونا اس کے لئے نقصان دہ ہے اور بچے پر نقصان دہ باتوں میں کسی کی ولایت نہیں ہوتی۔ اس لئے اس عمر میں بچہ ماں کے پاس نہیں رہ سکتا۔ رہ گئی بچی تو اگر حیض آنے تک وہ ماں کے پاس رہے تو اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ اس کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اسے عورتوں کے طور طریقے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ماں کے پاس رہ کر بہتر طریقے سے سیکھ سکتی ہے۔ بچی پر ماں کی یہ سرپرستی یا ولایت بالغ ہوجانے پر ہی جا کر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ولادت کی وجہ سے اس سرپرستی کی مستحق ہوئی تھی اور ماں کے پاس رہنے میں اسے کسی نقصان کا اندیشہ بھی نہ تھا اس لئے ماں بچی کے بالغ ہونے تک اس کی زیادہ حقدار تھی۔ جب بچی بالغ ہوجائے تو اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ کام ماں کے مقابلے میں باپ اچھی طرح کرسکتا ہے اس لئے بلوغت کے بعد باپ اس بچی کا زیادہ حقدار قرار پائے گا۔ جو باتیں ہم نے بیان کی ہیں ان پر قرآنی آیات کی دلالت کے ساتھ ساتھ آثار و احادیث کی بھی دلالت ہے۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) ، حضرت زید بن حارثہ (رض) اور حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کا حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کے متعلق جھگڑا پڑگیا۔ لڑکی کی خالہ حضرت جعفر (رض) کے عقد میں تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ لڑکی کو اس کی خالہ کے حوالے کیا جائے کیونکہ خالہ بھی ماں ہی ہے۔ اس حدیث میں خالہ کو تمام عصبات کے مقابلے میں زیادہ حق دار قرار دیا گیا جس طرح کہ آیت میں یہ حکم دیا گیا کہ بچے کو اپنے پاس رکھنے میں ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے۔ یہ بات اس مسئلے کی بنیاد ہے کہ مرد رشتہ دار کے مقابل میں ایسی عورت بچے کو اپنے پاس رکھنے اور اس کی پرورش کرنے کی زیادہ حقدار ہے جو اس بچے کی محرم رشتہ دار ہو، پھر اس لحاظ سے جو زیادہ قریب ہوگی وہ زیادہ حقدار ہوگی۔ اس حدیث میں کئی اور مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ خالہ کو پرورش کا حق پہنچتا ہے اور وہ عصبات سے بڑھ کر اس کی حقدار ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالہ کو ماں کا نام دیا۔ حدیث کی اس پر بھی دلالت ہو ری ہے کہ بچے کے ہر محرم رشتے دار عورت کو یہ حق حاصل ہے اس لحاظ سے جو زیادہ قریب ہوگی وہ زیادہ حقدار ہوگی کیونکہ اس حق کو صرف ولادت تک محدود نہیں کیا گیا۔- بڑے ہو کر بیٹے کو اختیار ہے چاہے ماں کے ساتھ رہے یا باپ کے ساتھ - عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک عورت اپنا ایک بیٹا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئی اور کہنے لگی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا پیٹ جب کہ اس کے لئے برتن، میرے پستان اس کے لئے پانی کی گھاٹ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ اس کا باپ اسے چھین لینا چاہتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا : ” تو اس بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک شادی نہیں کرلیتی۔ “ اسی طرح کی روایت صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ہے جس میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) شامل ہیں نیز دوسرے صحابہ اور تابعین بھی ان میں شامل ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ لڑکا جب خود کھانے پینے لگے تو اسے اختیار دیا جائے گا اگر وہ باپ کے پاس رہنا پسند کرے تو باپ اسے رکھنے کا زیادہ حقدار ہوگا اور اگر ماں کو پسند کرے تو ماں کے پاس رہے گا۔ اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لڑکے کو اختیار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ماں ا اور باپ میں سے جسے چاہو پسند کرلو۔ عبدالرحمن بن غنم (رض) نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک لڑکے کو اختیار دیا تھا کہ وہ ماں باپ میں سے جسے چاہے پسند کرلے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت ہے اس میں یہ مکن ہے کہ وہ لڑکا بالغ ہو کیونکہ یہ جائز ہے کہ بالغ ہونے کے بعد بھی ایک لڑکے کو غلام یعنی لڑکے کے نام سے پکارا جائے۔- حضرت علی (رض) سے ایک روایت ہے کہ آپ نے ایک لڑکے کو اختیار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ بالغ ہوچکا ہوتا… یعنی میرا خیال ہے کہ یہ ابھی نابالغ ہے… تو میں اسے اختیار دے دیتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں لڑکا بڑا اور بالغ تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت مں منقول ہے کہ ایک عورت شوہر کے ساتھ اپنا جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئی اور کہنے لگی کہ شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب وہ مجھ سے میرا بیٹا چھین لینا چاہتا ہے۔ میرے بیٹے نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور ابو عنبہ کے کنویں سے مجھے پانی بھی پلاتا رہا ہے۔- یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دونوں قرعہ اندازی کرلو، یہ سن کر مرد نے کہا۔ ” میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے کون ھگڑ سکتا ہے ؟ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لڑکے یہ تمہاری ماں اور یہ تمہارا باپ ہے، ان میں سے جسے چاہو منتخب کرلو۔ “ یہ سن کر لڑکے نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس روایت میں ماں کا یہ کہنا کہ یہ مجھے ابو عنببہ کے کنویں سے پانی پلاتا رہا ہے، اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ لڑکا بڑا تھا۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نابالغ کو اس کے تمام حقوق میں کوئی اختیار نہیں ہوتا اسی طرح ماں باپ کے متعلق بھی اسے اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ امام محمد بن المحسن کا قول ہے کہ لڑکے کو اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں وہ بدترین چیز کا انتخاب کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ صورت حال بھی یہی ہے اس لئے کہ لڑکا کھیل کود اور ادب و علم سیکھنے سے روگردانی اختیار کرے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (قولو انفسکم و اھلیکم نارا، اپنے آپ کو اور اپنے اہل خاندان کو جہنم کی آگ سے بچائو) اور یہ بات تو واضح ہے کہ باپ لڑکے کی تادیب اور تعلیم کا کام بہتر طریقے پر سرانجام دے سکتا ہے۔ ماں کے پاس اس کا رہنا اس کے لئے نقصان کا باعث ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس کے اندر عورتوں والے اخلاق و عادات پیدا ہوں گے۔- قول باری (ولا مولود لہ بولدہ اور باپ کو اس وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے کہ اس کا بیٹا ہے) کا مرجع بھی مضارۃ یعنی ایک دوسرے کو تکلیف میں ڈالنا اور نقصان پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو نہی کردی کہ وہ عورت کو اس کے بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ڈالے اور عورت کو بھی نہی کردی کہ وہ مرد کو اس کے بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ڈال دے۔ عورت کی طرف سے تکلیف میں ڈالنے کی ایک صورت نفقہ یا غیر نفقہ کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ نفقہ کے سلسلے میں تو یہ ہے کہ وہ زیادتی پر اتر آئے اور اپنے حق سے زیادہ نفقہ کا مطالبہ کرے۔ غیرنفقہ کی صورت یہ ہے کہ باپ کو بیٹے سے ملنے نہ دے یا یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اسے لے کر شوہر کے شہر سے باہر چلی جائے اور مسافرت اختیار کرلے۔ اس طرح وہ مرد کو اس کے بیٹے کے سلسلے میں پریشانی اور تکلیف میں ڈال دے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ بچے کے باپ کی بات نہ مانے اور اسے باپ کے پاس چھوڑنے سے انکار کر دے، یہ تمام صورتیں آیت (ولا مولود لہ بولدہ) میں محتمل ہیں۔ اس لئے آیت کو ان تمام صورتوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ قول باری ہے (وعلی الوارث مثل ذلک اور وارث پر بھی باپ کی طرح دودھ پلانے والی کا حق ہے) اس کا عطف ماقبل میں ذکر کردہ تمام امور پر ہے جن کی ابتدا قول باری (وعلی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف) سے ہوئی ہے۔ اس لئے کہ سارا کلام اس طرح ہے کہ اس کے بعض حصوں کا بعض پر عطف ہے، عطف کے لئے حرف دائو لایا گیا ہے اور یہ حرف جمع ہے اس لئے مفہوم یہ ہوگا کہ یہ تمام باتیں ایک حال کے اندر مذکور ہیں یعنی روٹی اور کپڑا اور ایک دوسرے کو تکلیف میں ڈالنے اور پہنچانے کی ممانعت جیسا کہ ہم پہلے یہ باتیں ذکر کر آئے ہیں۔ پھر اس کے بعد فرمایا (وعلی الوارث مثل ذلک) یعنی کھانا کپڑا اور اس چیز کی ممانعت کہ وارث نہ تو بچے کی ماں کو نقصان پہنچائے اور نہ ہی بچے کی ماں وارث کو تکلیف میں ڈالے کیونکہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کچا عمل کبھی نفقہ کے اندر ہوتا ہے اور کبھی غیرنفقہ میں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس پر عطف کرتے ہوئے فرمایا (و علی الوارث مثل ذلک) تو یہ قول وارث پر ان تمام باتوں کو واجب کر گیا جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) ، حسن بصری، قبیصہ بن دئویب، عطاء اور قتادہ سے قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) کے متعلق مروی ہے کہ اس سے مراد نفقہ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور شعبی سے مروی ہے کہ وارث پر یہ لازم ہے کہ وہ تکلیف میں نہ ڈالے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور شعبی کا یہ قول کہ وارث پر لازم ہے کہ وہ تکلیف میں نہ ڈالے اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ان دووں کے نزدیک واثر پر نفقہ واجب نہیں ہوتا اس لئے کہ مضارت کا عمل کبھی نفقہ میں ہوتا ہے اور کبھی غیر نفقہ میں ہوسکتا ہے۔ اس لئے آیت کا مضارت کی طرف راجع ہونا وارث پر نفقہ کے لزوم کی نفی نہیں کرتا۔ اگر وارث پر نفقہ لازم نہ ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ اسے مضارت سے روکنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس کی حیثیت اجنبی کی سی ہوتی۔ اس بات پر کہ اس سے مراد نفقہ اور غیرنفقہ میں مضارت ہے یہ آیت دلالت کرتی ہے جس کا ذکر اس کے بعد کیا گیا ہے (و ان اردتم ان تشترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں) آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا رضاعت اور نفقہ دونوں میں ہوسکتا ہے۔ سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ نابالغ کا نفقہ کس پر لازم ہوتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے ک اگر باپ نہ ہو تو اس کا نفقہ عصبات یعنی مرد رشتہ داروں پر لازم ہوتا ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر نفقہ واجب کیا ماں پر نہیں کیا کیونکہ وہ عصبہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نفقہ کی ذمہ داری عصبات پر ہو جیسا کہ دیت وغیرہ کی ادائیگی مجرم کے عاقلہ یعنی مرد رشتہ داروں پر ہوتی ہے۔- حضرت زید بن ثابت کا قول ہے کہ نابالغ کا نفقہ مردوں اور عورتوں دونوں پر میراث میں ان کے حصول کے مطابق لازم ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ حضتر ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وارث کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ پلانے والی کو نقصان نہ پہنچائے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک وارث پر نفقہ لازم ہے کیونکہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا نفقہ کے اندر ہی ہوسکتا ہے۔- امام مالک کا قول ہے نفقہ صرف باپ پر لازم ہے۔ دادا پر لازم نہیں ہوتا اور نہ ہی پوتے پردادا کا نفقہ واجب ہوتا ہے البتہ باپ کا نفقہ بیٹے پر لازم ہوتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نابالغ کا نفقہ اس کے کسی قرابت دار پر واجب نہیں ہوتا صرف باپ پر، باپ کے ولد پر، دادا پر اور ولدالولد پر لازم ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت (و علی الوارث مثل ذلک) اور ایجاب نفقہ پر سلف کا اتفاق، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، امام مالک اور امام شافعی کے قول کے غلط وہنے پر دلالت کرتے ہیں، اس لئے کہ قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) ان تمام کی طرف راجع ہے جن کا نفقہ اور مضارت کے سلسلے میں پہلے ذکر ہوچکا ہے اور یہ بات کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ دلالت کے بغیر اس میں تخصیص کر دے۔- ہم نے اس کے متعلق سلف کے اختلاف کا ذکر کردیا کہ نابالغ کا نفقہ کس پر واجب ہے لیکن سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ بھائی اور چچا پر نفقہ واجب نہیں ہوتا اس بنا پر امام مالک اور امام شافعی کا قول سلف کے تمام اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ اب جبکہ نفقہ باپ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس کا محرم رشتہ دار ہے تو یہ ہر اس رشتہ دار پر بھی وجب ہوگا جس کے اندر یہ صفت پائی جائے گی۔- البتہ الاقرب فالاقرب کے قاعدے کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وجوب کے حکم کی جو علت باپ کے اندر تھی اسی علت کی بنا پر دوسرے رشتہ داروں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا۔ اس پر قول باری (ولا علی انفسکم ان تاکلو من بیوتکم) تا قول باری (اوما ملکتم مفاتحہ او صدیقکم اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھر سے یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے) دلالت کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے محرم رشتہ داروں کا ذکر کیا اور ان کے گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ رشتہ داری کی بناء پر اس کے مستحق ٹھہرے ہیں اگر رشتہ داری نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ چیز مباح نہ کرتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں (او ما ملکتم مفاتحہ او صدیقکم) کا بھی ذکر ہے جبکہ یہ نفقہ کے مستحق نہیں ہیں اس کے جواب میں کا جائے گا کہ یہ حکم ان سے بالاتفاق منسوخ ہے لیکن محرم رشتہ داروں سے اس حکم کی منسوخی ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھر چچا کے بیٹے پر بھی نفقہ واجب کیا جانا چاہیے جبکہ وہ وارث ہو رہا ہو اس کے جواب میں کہا جائے گا ک ظاہر آیت تو اسی کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہم نے دلالت کی بنا پر اس کی تخصیص کردی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) ہر وارث پر نفقہ واجب کردیتا ہے اس لئے ماں اور باپ دونوں پر ان کی میراث ک ینسبت سے نفقہ واجب ہونا ضروری ہے۔ جبکہ باپ کی موجودگی میں صرف باپ پر ہی نفقہ کا وجوب ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہاں وارث سے مراد باپ کے سوا دوسرے ورثاء ہیں۔ یہ اس لئے کہ اول خطاب میں باپ کا ذکر اس ضمن میں آچکا ہے کہ سارا نفقہ اس پر واجب ہے ماں پر نہیں پھر اس پر صو علی الوارث مثل ذلک) کو عطف کیا گیا۔ اب یہ بات درست نہیں ہے کہ اس میں دوسرے ورثاء کے ساتھ باپ بھی مراد ہو اس لئے کہ اس سے ما قبل کے حکم کا نسخ لازم آتا ہے اور جائز یہ نہیں کہ ایک ہی خطاب کے ضمن میں ایک چیز ک متعلق ناسخ اور منسوخ دونوں حکم موجد ہوں اس لئے کسی حکم کا نسخ اس وقت درست ہوتا ہے جب اس حکم کا استقرار عمل میں آ جائے اور اس پر عمل کا موقع اور قدرت حاصل ہوجائے۔ اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو اور باپ پیدائش سے پہلے فوت ہوچکا ہو تو ماں پر اس کی رضاعت ضروری ہوجاتی ہے کیونکہ قول باری ہے (والوالدات یوضعن اولادھن) اس لئے باپ پر عائد ہونے والی ذمہ داری کے سقوط کی بنا پر ماں سے وہ ذمہ داری ساقط نہیں ہوگی۔- البتہ اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ نہ اترے تو اس پر رضاعت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اگر اس کے لئے دودھ پلانے کی غرض سے کوئی دایہ رکھنا ممکن ہو لیکن وہ نہ رکھے اور بچے کی موت کا خطرہ پیدا ہوجائے تو اس پر ایسی صورت میں دایہ رکھنا واجب ہوجائے گا۔ اس وجہ سے نہیں کہ باپ پر جچو ذمہ داری تھی وہی اس پر بھی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ عمومی قاعدہ ہے کہ جس کی جان کا خطرہ ہو اس کی جان بچانا ممکن حد تک ہر شخص پر لازم ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن اسحاق کا یہ طویل کلام جھول اور اختلال سے پر ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے (والوالدات یرضعن اولادھن) کی بنا پر ماں پر رضاعت واجب کردی لیکن اس کے متصل قول باری سے چشم پوشی کرلی جس میں فرمایا گیا ہے (و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ماں پر نفقہ اور کسوہ یعنی کھانے اور کپڑے کے مقابلے میں رضاعت واجب کی ہے۔ اب بدل کے بغیر ماں پر رضاعت کس طرح لازم کی جاسکتی ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ باپ پر رضاعت کے بدلے میں نفقہ کا لزوم اس بات کو واجب کردیتا ہے کہ اس حکم میں مذکورہ منافع رضاعت یعنی روٹی کپڑا بدل کے استحقاق کی بنا پر ملکیت کے طور پر باپ کو حاصل ہوں اس لئے ماں پر ان کا ایجاب محال ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر انہیں اس لئے واجب کردیا کہ ماں پر ان کا بدل یعنی دودھ پلانا لازم کردیا۔ دوسری وجہ یہ کہ قول باری (یرضعن اولادھن) میں ماں پر رضاعت کے ایجاب کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس قول باری سے صرف یہ ہوا ہے کہ رضاعت ماں کا حق قرار پایا ہے اس لئے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ماں رضاعت سے انکار کر دے اور باپ زندہ ہو تو اسے رضاعت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات نصاً اپنے قول (وان تعاسرتم فسترضع لہ اخریٰ ) میں بیان کردی ہے۔ اس بنا پر اس آیت سے ماں پر باپ کی وفات کی صورت میں رضاعت کے ایجاب کے سلسلے میں ابتدلال صحیح نہیں ہے جبکہ آیت باپ کی زندگی میں رضاعت کی ایجاب کا اقتضا نہیں کرتی اور یہی بات منصوص طریقے سے آیت میں بیان بھی کردی گئی۔- پھر اسماعیل بن اسحاق نے یہ کہا ہے کہ اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ نہ اترے تو اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے خواہ اس کے لئے دودھ پلانے والی دایہ رکھنا ممکن ہو۔ لیکن اس کا یہ قول بھی قائم نہیں رہتا ہے۔ اس لئے کہ اگر باپ نہ ہونے کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے کے منافع یعنی روٹی کپڑے کی ذمہ داری ماں پر ہوگی تو یہ ضروری ہوگا کہ خود دودھ نہ پلا سکنے کی صورت میں ان منافع کا تعلق اس کے مال سے ہوجائے یعنی یہ چیزیں ماں کے مال سے ادا کی جائیں۔ جس طرح کہ باپ پر بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر رضاعت کے منافع کا وجوب اس کے مال سے نہ ہو تو پھر اس پر رضاعت کی ذمہ داری لازم کردینا جائز نہیں ہے حالانکہ رضاعت کے منافع کا خود ماں کو لازم ہونا یا دودھ نہ پلا سکنے کی صورت میں اس کے مال میں لازم ہونا ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے اس قول کا تناقض ظاہر ہوگیا۔ ایک اور وجہ سے بھی اس میں تنقاض ہے۔ وہ یہ کہ رضاعت کے اختتام پر بچے کا نفقہ ماں پر لازم نہیں ہے یعنی وہ رضاعت اور رضاعت کے بعد نفقہ کے درمیان فرق کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں چیزیں نابالغ کے نفقہ میں داخل ہیں۔ اب انہوں نے کس دلیل کی بنیاد پر اس فرق کو لازم کردیا۔ اگر اس طرح یہ فرق درست ہوتا تو یہی بات باپ کے حق میں بھی لازم ہوتی اور یوں کہا جاتا کہ باپ پر صرف رضاعت کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور جب رضاعت کی مدت ختم ہوجائے تو اس پر نابالغ کا کوئی نفقہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر دودھ پلانے والی کا روٹی کپڑا صرف رضاعت کی وجہ سے لازم کیا ہے (اور ظاہر ہے کہ اس قول کا یہ نتیجہ اس کے تناقض کو ظاہر کرتا ہے) ۔- پھر اسماعیل بن اسحاق نے یہ کہا ہے کہ اگر ماں کے لئے کسی اور عورت سے دودھ پلوانا ممکن ہو اور اسے بچے کی موت کا خطرہ ہو تو اس پر اس وجہ سے اسے دودھ پلوانا لازم ہوگا کہ موت کے خوف کی صورت میں اس پر ایسا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اگر بات یہی ہے تو پھر دودھ پلانے کا لزوم ماں کے ساتھ کیوں خاص ہو پڑوسیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ یہ پورا استدلال ایک بات کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرنے نیز سند اور دلیل کے بغیر ایک چیز کو دوسرے کے مشابہ قرار دینے کا شاہکار ہے۔ امام مالک سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے کہ وہ بیٹے کا نفقہ صرف باپ پر اور باپ کا نفقہ صرف بیٹے پر لازم کرتے ہیں اور داد کا نفقہ پوتے پر واجب نہیں کرتے۔ یہ قول سلف اور خلف دونوں کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے اور ہمیں اس قول کے کسی موافقت کرنے والے کے متعلق علم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ ظاہر کتاب اس قول کو رد کر رہا ہے۔ قول باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں وصیت کی۔ ماں نے کمزوری در کمزوری کی حالت میں اس کا بوجھ اٹھائے رکھا) تا قول باری (و ان جاھداک عقلی ان تشوک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا) اور اگر ماں باپ تمہیں اس پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے خود علم نہیں تو تو ان کی بات ہرگز نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقے سے گزارا کر) اس میں داد بھی داخل ہے کیونکہ وہ باپ ہے قول باری ہے (ملۃ ابیکم ابراہیم تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ) اب اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ معروف طریقے سے اس کے ساتھ گزارہ کرو۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اب معروف طریقے سے گزارہ کرنے میں یہ بات ہرگز داخل نہیں ہے کہ اس کی بھوک دور کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اسے فاقے کاٹنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم او بیوت اباء کم اللہ تعالیٰ نے ان اقرباء کے گھروں کا ذکر فرمایا اور بیٹے یا پوتے کے گھر کا ذکر نہیں کیا اس لئے قول باری (من بیوتکم) خود اس کا متقاضی ہے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (انت و مالک لا بیک تو اور تیرا سارا مال تیرے باپ کا ہے) آپ نے باپ کی طرف بیٹے کی ملکیت کی نسبت کی جس طرح اس کی طرف بیٹے کے گھر کی نسبت کی۔ اسی طرح آیت میں بیوت کی نسبت باپ کی طرف کرنے پر اقتصار کیا۔ اس بات کی دلیل کہ آیت میں بیٹے اور پوتے کے بیوت بھی مراد ہیں یہ ہے کہ آیت کے نزول سے پہلے یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انسان پر اس کے اپنے مال میں تصرف کی ممانعت نہیں ہے تو اس صورت میں یہ فقرہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ تمہیں اپنا مال کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے “۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہق ول باری (ان تاکلوا من بیوتکم) سے بیٹوں اور پوتوں کے بیوت مراد ہیں کیونکہ ان کے بیوت کا ذکر نہیں ہوا جس طرح دوسرے اقربا کے بیوت کا ذکر ہوا۔ وارثوں پر ان کی میراث کی نسبت سے نفقہ واجب کرنے والوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بچے کی میراث کے وارثوں میں سے ہر ایک پر میراث کی نسبت سے بچے کا نفقہ واجب وہ گا بشرطیکہ یہ وارث بچے کا محترم رشتہ دار ہو۔ اگر وارث بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہوگا تو اس پر بچے کا نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ اسی لئے ہمارے اصحاب نے بچے کے ماموں پر نفقہ واجب کردیا اور میراث چچا کے بیٹے کے لئے واجب کردی اس لئے کہ چچا کا بیٹا بچے کا محرم رشتہ دار نہیں ہے اور ماموں اگرچہ چچا کے بیٹے کی موجودگی میں واثر نہیں ہوتا لیکن وہ بچے کا محرم وارث ہے۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ بچے کی زندگی میں کوئی وارث مراد نہیں ہوتا کیونکہ زندگی کی حالت میں میراث کا کوئی سوال نہیں ہوتا اور موت کے بعد کون اس کا وارث ہوگا اس کا پتہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہوتا ہے اس وقت جس وارث پر بچے کا نفقہ واجب ہے اس کی موت کی وجہ سے بچہ خود اس کا وارث ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس وارث پر ہم نے نفقہ واجب کردیا ہے کسی اور وارث کی وجہ سے وہ بچے کی وراثت سے محجوب یعنی محروم ہوجائے۔ ان باتوں کی رشنی میں ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ مراد حصول میراث نہیں ہے بلکہ مراد وہ محرم رشتہ دار ہے جو بچے کی میراث میں وارث ہونے کا حق دار ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ بچے کا نفقہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس کا وارث ہو خواہ وہ اس کا محرم رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ اس بناء پر ان کے نزدیک ماموں پر نفقہ واجب نہیں ہوگا بلکہ چچا کے بیٹے پر واجب ہوگا۔ جو بات ہم نے کہی ہے اس یک صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مولی العتاقہ (اپنے غلام کو ازاد کردینے والا) پر نفقہ واجب نہیں ہے اگرچہ وہ وارث ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت پر اپنے نابالغ شوہر کا نفقہ واجب نہیں ہوتا جبکہ عورت اپنے شوہر کی وارث ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نفقہ کے وجوب کے لئے ایسے وارث کی شرط ہے جو محرم بھی ہو۔- مدت رضاعت - قول باری ہے (حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ پورے دو سال اس کے لئے جو رضاعت کی مدت پوری کرنے کا ارادہ کرے) یہاں دو سالوں کی توقیت دو میں سے ایک معنی پر محمول ہے یا تو یہ اس رضاعت کی مدت کی مقدار ہے جو موجب تحریم ہے یا اس مدت کا بیان ہے جس کی رضاعت کا نفقہ باپ پر لازم ہوتا ہے۔ لیکن جب اسی سیاق میں یہ بیان فرما دیا کہ (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور فلاجناح علیھما۔ اگر دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے) تو اس سے اس حقیقت پر دلالت ہوگئی کہ دو سال کا عرصہ اس رضاعت کی مدت کی مقدار نہیں جو موجب تحریم ہے کیونکہ حرف فاء تعقیب کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے یہ واجب ہے کہ فصال یعنی دودھ چھڑانا جسے ان دونوں کے ارادے کیس تھ معلق کردیا گیا ہے وہ دو سالوں کے بعد ہو اور جب یہ فصال دو سالوں کے بعد ان کی باہمی رضامندی اور مشورے کیس اتھ معلق کردیا گیا ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حولین کا ذکر اس رضاعت کی انتہا کے لئے توقیت کے طور پر نہیں ہوا جو نکاح کی تحریم کی موجب ہے بلکہ یہ جائز ہے کہ رضاعت دو سالوں کے بعد بھی ہو۔ معاویہ بن صالح نے ابن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) اور اس کے بعد آیت (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور فلا جناح علیھما) کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں پر کوئی حرج نہیں اگر وہ دو سال سے قبل یا دو سال کے بعد بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں۔ اس طرح حضرت ابن عباس (رض) نے اپنے قول میں بتادیا کہ آیت (فان ارادا فصالا) دو سال قبل سے قبل اور بعد دونوں پر محمول ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (وان اردتم ان تسرضعوا و اولادکم فلا جناح علیکم اور اگر تم اپنی اولاد کو کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں)- اب ظاہراً تو اس سے مراد دو سالوں کے بعد دودھ پلوانا ہے اس لئے کہ یہ اس فصال کے ذکر پر معطوف ہے جو ان دونوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ متعلق ہے۔ پھر اللہ نے دونوں کے لئے فصال کو مباح کردیا اور اس کے بعد باپ کے لئے استرضاع یعنی کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کو مباح کردیا جس طرح کہ دونوں کے لئے فصال کو مباح کردیا تھا بشرطیکہ اس میں بچے کی بھلائی مقصود ہو۔ ہمارے اس بیان سے یہ ظاہر ہوگی کہ حولین کا ذکر دراصل اس مدت کی توقیت کے لئے ہے جس کے اندر باپ پر رضاعت کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور نفقہ نہ دینے کی صورت میں حاکم اسے اس پر مجبور کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم - رضاعت کے وقت کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا ذکر - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بالغ کی رضاعت کے متعلق سلف میں اختلاف رہا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے ہ آپ کے نزدیک نابالغ کی رضاعت کی طرح بالغ کی رضاعت بھی موجب تحریم ہے۔ حضرت عائشہ (رض) اس سلسلے میں حضرت ابوحذیفہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سالم کی بیان کردہ روایت کا ذکر کرتی تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ (رض) کی بیوی سہلو (رض) بنت سہیل سے فرمایا تھا کہ (ارضعیۃ خمس رضعات ثم یدخل علیک، اسے یعنی سالم کو پانچ مرتبہ دودھ پلائو پھر یہ تمہارے پاس آ جاسکے گا۔ حضرت عائشہ (رض) جب کسی مرد کو اپنے گھر آنے جانے کی اجازت دینا چاہتیں تو اپنی بہن ام کلثوم (رض) سے کہتیں کہ اسے پانچ دفعہ دودھ پلا دیں۔ پھر وہ شخص حضرت عائشہ (رض) کے گھر آتا جاتا لیکن باقی ماندہ تمام ازواج مطہرات نے حضرت عائشہ (رض) کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید خصوصی طور سے یہ رخصت سالم کو عطا کی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ سہلہ (رض) بنت سہیل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا کہ سالم کے آنے جانیسے میں ابوحذیفہ (رض) کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات دیکھتی ہوں۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ (ارضعیہ یذہب ما فی وجہ ابی حذیفہ) اسے اپنا دودھ پلا دو ابو حذیفہ کے چہرے پر پیدا ہونے والا غصہ دور ہوجائے گا) اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ رخصت صرف سالم کے کے لئے خاص تھی جیسا کہ ازواج مطہرات نے اس سے یہی مفہوم لیا تھا جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوزیاد بن دینار (رض) کو چھوٹی عمر کے جانور کی قربانی کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ابوزیاد کے بعد کسی کے لئے اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت کی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ بانع کو اپنا دودھ پلا دینا موجب تحریم نہیں ہے۔ ہمیں اس کی روایت محم دبن بکر نے کی ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں سفیان نے اشعث بن سلیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے مسروق سے اور انوہں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کیپ سا تشریف لائے تو اس وقت وہاں ایک شخص بھی موجود تھا۔- حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انظون من اخوانکن فانما الرضاعۃ من المجاعۃ دیکھ لیا کرو کہ کون سے لوگ تمہارے رضاعی بھائی بن سکتے ہیں اس لئے کہ رضاعت اس وقت ہوتی ہے جب دودھ کی بھوک ہوتی ہے) آپ کا یہ قول اس بات کو واجب کردیتا ہے کہ رضاعت کا حکم بچپن کی حالت تک محدوعد ہے کیونکہ اس حالت میں دودھ ہی بچے کی بھوک کو دور کرتا ہے اور اس کی غذائیت کے لئے کافی ہوتا ہے۔- حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے کہ آپ بانع کی رضاعت کے قائل تھے۔ لیکن آپ سے ایسی روایت بھی ہے جو اس قول سے رجوع پر دلالت کرتی ہے۔ ابو حصین نے ابو طعیہ سے روایت کی ہے ہ مدینہ منورہ سے ایک شخص اپنی بیوی کو لے کر آیا۔ اس نے ایک بچے کو جنم دیا اس کے بعد دودھ جمع ہوجانے کی وجہ سے اس کے پستان متورم ہوگئے۔ وہ شخص اس کے پستان سے دودھ چوس کر کلی کردیتا لیکن اسی دوران دودھ کا ایک گھونٹ ان کے پیٹ میں چلا گیا۔ اس نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مسئلہ پوچھا تو انوہں نے جواب دیا کہ یہ عورت تم پر حرام ہوگئی۔ وہ شخص حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور تفصیل سے ساری بات بتائی۔ حضرت ابن مسعود (رض) اسے لے کر حضرت ابوموسیٰ (رض) کے پاس گئے اور فرمایا : ” کیا تمہارے خیال میں یہ کھچڑی بالوں والا شخص رضیع یعنی رضاعت کا دودھپینے والا بن سکتا ہے تحریم کی موجب وہ رضاعت ہے جو گوشت اور ہڈی بنائے۔ “ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا : ” جب تک یہ جبر یعنی عالم (حضرت ابن مسعود (رض) ) تمہارے درمیان مجود ہے اس وقت تک مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھو “۔ - یہ قوت اس پر دلالت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نے پہلے قول سے رجوع کر کے حضرت ابن مسعود (رض) کا قول اختیار کرلیا تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) حضرت ابن مسعود (رض) کے متعلق یہ فقرہ نہ کہتے۔ بلکہ ان سے اس مسئلے کے متعلق اپنا اختلاف برقرار رکھتے اور اپنے فتوے کو برحق سمجھتے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت عبداللہ، حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ بالغ کو اپنا دودھ پلا دینا موجب تحریم نہیں ہے۔ فقہاء میں سے کسی کے متعلق ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ بالغ کی رضاعت کے قائل ہوں البتہ لیث بن سعد سے ابو صالح نے روایت کی ہے کہ بالغ کو اپنا دودھ پلانا موجب تحریم ہے لیکن یہ قول شاد ہے کیونکہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت موجود ہے جو عدم تحریم پر دلالت کرتی ہے۔- یہ روایت حجاج نے حکم سے، انہوں نے ابوالشعثاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کی ہے آپ نے فرمایا کہ وہی رضاعت موجب تحریم ہے جو گوشت اور خون پیدا کرے۔ حرام بن عثمان نے حضرت جابر (رض) کے دو بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یتم بعد حلم ولا رضاع بعد فصال، بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں اور دودھ چھوٹ جانے کے بعد کوئی رضاعت نہیں) ۔ حضرت عائشہ (رض) کی جس روایت کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ یہ ہیں (انما الرضاعۃ من المجاعۃ) دوسری روایت میں ہے (ما انبت اللحم وانشزالعظم، جس سے گوشت بنے اور ہڈی ابھرے) یہ روایتیں بالغ کی رضاعت کی نفی کرتی ہیں۔ بالغ کی رضاعت کے متعلق حضرت عائشہ (رض) کی بیان کردہ روایت ایک اور طرح سے بھی مروی ہے۔- اسے عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی بیٹی سے کہتیں کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ پلا دیا کریں تاکہ بڑے ہو کر وہ ان کے پاس اس رضاعت کی بنا پر آ جاسکیں۔ جب بالغ کی رضاعت کے قائلین کے قول کا شاذ ہونا ثابت ہوگیا تو گویا متفقہ طور پر معلوم ہوگیا کہ بالغ جکو اپنا دودھ پلانا موجب تحریم نہیں ہے۔ فقاء امصار کا رضاعت کی مدت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ دو سال اور اس کے بعد چھ مہینوں کے دوران جو رضاعت ہوگی وہ موجب تحریم ہے خواہ بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا ہو یا نہ چھوڑا ہو۔ اس کے بعد کی رضاعت موجب تحریم نہیں ہے خواہ بچہ دوعدھ پیتا وہ یا نہ پیتا ہو۔- امام زفر بن الہذیل کا قول ہے کہ جب بچہ دودھ پر گزارہ کرے اور دودھ پینا نہ چھوڑے اس وقت تک رضاحت کی مدت ہوتی ہے خواہ یہ سلسلہ تین سال تک کیوں نہ جاری رہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، سفیان ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ دو سال کے دوران رضاعت موجب تحریم ہے اس کے بعد کی نہیں، نیز دودھ چھوڑنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ وقت کا اعتبار کیا جائے گا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ دو سال کے اندر تھوڑی اور زیادہ رضاعت موجب تحریم ہے اور اس کے بعد کی تھوڑی یا زیادہ رضاعت موجب تحریم نہیں۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ روایت کی ہے کہ رضاعت دو سالوں یا اس کے ایک ماہ یا دو ماہ تک ہوتی ہے اس سللے میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہے بلکہ دو سال اور ایک یا دو ماہ کی مدت کو دیکھا جائے گا۔- امام مالک نے فرمایا : کہ اگر ماں نے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑا دیا اور پھر دو سال گزرنے سے قبل اسے دودھ پلایا تو وہ بچہ فطیم یعنی دودھ چھوڑ دینے والا قرار دیا جائے گا۔ دو سال سے قبل اگر بچہ ماں کے دودھ سے مستغنی ہوجائے تو اس کے بعد اگر ماں اسے دودھ پلا بھی دے تو یہ رضاعت شمار نہیں ہوگی۔ امام اوزاعی کچا قول ہے کہ جب بچہ ایک سال کے بعد دودھ چھوڑ دے اور اس کی یہ حالت اسی طرح جاری رہے تو اس کے بعد دودھ پلانا رضاعت میں شمار نہیں ہوگا۔ اگر بچہ تین سال تک ماں کا دودھھ پیتا رہے اور دودھ نہ چھوڑے تو دوس ال کے بعد کا عرصہ رضاعت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ دودھ چھڑانے کے بعد کوئی رضاعت نہیں ہوتی۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے منقول ہے کہ رضاعت وہی ہوتی ہے جو صغر یعنی چھوٹی عمر میں ہو۔ یہ دونوں اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات نے دو سال کی مدت کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ حضرت علی (رض) نے رضاعت کے حکم کو دودھ چھوڑنے کے ساتھ متعلق کردیا اور حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) نے صغریغی کم سنی کے ساتھ اور اس کے لئے کسی توقیت یعنی وقت کی مقدار کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے منقول ہے کہ وہی دودھ موجب تحریم ہے جو دودھ چھوڑنے سے قبل پستان میں موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے کہ رضاعت کا وہی دودھ تحریم کو واجب کردیتا ہے جو بچے کی آنتوں کو پھاڑے یعنی آنتوں میں پہنچ جائے اور فطام سے پہلے پستان میں موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے رضاعت کے حکم کو اس دودھ کے ساتھ متعلق کردیا جو فطام سے قبل ہو اور بچے کی آنتوں اور معدے میں پہنچ جائے۔ یہ قول حضرت عائشہ (رض) سے مروی قول سے ملتا جلتا ہے کہ وہ رضاعت موجب تحریم ہوتی ہے جو گوشت پوست اور خون بنا سکتی ہو۔ یہ اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات کا مسلک یہ ہے کہ دو سال کی مدت کا اعتبار نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت عبداللہ عباس (رض) سے مروی ہے کہ دو سال کے بعد کوئی رضاعت نہیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو یہ الفاظ منقول ہیں کہ (الرضاعۃ من المجاعہ) یہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کا تعلق دو سال کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ اگر دو سال کا عرصہ رضاعت کی مدت کی مقدار ہوتا تو یہ ہرگز یہ نہ فرماتے کہ (الرضاعۃ من المجاعۃ) بلکہ یہ فرماتے کہ رضاعت دو سالوں میں ہوتی ہے۔ جب آپ نے حولین کا ذکر نہیں کیا بلکہ ” مجاعت “ کا ذکر کیا جس کے معنی ہیں کہ دودھ جب بچے کی بھوک کو رفع کر دے اور اس کے جسم کو قوت بخشے تو یہ رضاعت ہے۔ یہ صورت حال دو سال کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے۔ اس لئے اس کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ دو سال کے بعد بھی پائی جانے والی رضاعت تحریم کو واجب کرنے والی ہوتی ہے۔ حضرت جابر (رض) کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا رضاع بعد فصال) یہ اس بات کو ضروری قرار دیتی ہے کہ جب دو سال کے بعد دودھ چھڑا دیا جائے تو اس کے بعد رضاعت کا حکم منقطع ہوجاتا ہے۔- اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے صالرضاعۃ ما انبت اللحم وانشزالعظام۔ رضاعت وہ ہے جو گوشت پیدا کر دے اور ہڈیاں ابھار دے) یہ بھی مدت رضاعت کی توقیت کی نفی پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ مذکورہ بالا روایات کی بھی اسی معنی پر دلالت ہو رہی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا ایک قول منقول ہے جس کی روایت کی صحت پر مجھے یقین نہیں ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابن عباس (رض) رضاعت کا اعتبار اس قول باری (و حملہ و فصالہ ثلثون شھوا اور اس کے حمل یک تکمیل اور اس کا ودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے) سے کرتے ہیں۔ اگر ایک عورت چھ ماہ میں بچے کو جنم دے تو اس کی رضاعت پورے دو سالوں میں ہوگی۔ اگر نو ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوا تو رضاعت کی مدت اکیس ماہ ہوگی۔ اسی طرح اگر بچہ سات ماہ میں پیدا ہوا تو رضاعت کی مدت تئیس مناہ ہوگی۔- حضرت ابن عباس (رض) حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ یک تکمیل کا اعتبار کرتے ہیں لیکن ہمیں سلف اور ان کے بعد آنے والے فقاء میں سے کسی کا علم نہیں جنہوں نے تیس ماہ کا اعتبار کیا ہو۔ چونکہ رضاعت کے لحاظ سے بچوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔- بعض بچے تو دو سال سے پہلے ہی اس سے مستغنی ہوجاتے ہیں اور بعض دو سال گزرنے کے بعد بھی ماں کا دودھ پیتے رہتے ہیں، پھر جیسا کہ ہم نے سلف سے روایات کا ذکر کیا ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بالغ کی رضاعت نہیں ہوتی اور نابالغ یعنی صغیر کی رضاعت ہوتی ہے اور صغیر کے لئے دو سال کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیونکہ ایک بچے پر دو سال گزر جانے کے بعد بھی اسے بچہ کہنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی اس لئے ان تمام باتوں کی روشنی میں ہمیں دو سال کی مدت، رضاعت کی مدت کی توقیت نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ فرمایا تھا کہ (الرضاعۃ من ملجاعۃ) نیز (الرضاعۃ ما انبت اللحم و انشزالعظم) تو آپ نے ایسے معنی کا اعتبار کیا تھا جس کے لحاظ سے بچوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں اگرچہ اغلباً بچے دو سال گزرنے پر اس سے مستغنی ہو ہی جاتے ہیں اس لئے اس سلسلے میں حولین کا اعتبار ساقط ہوگیا۔- پھر اس سے زائد مقدار کے اندازے کا طریقہ اجتہاد اور رائے کا اعتبار ہے۔ اس لئے کہ یہ اس حالت کے درمیان جس میں بچے کو غذا کے لئے صرف دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا گوشت پوست بنتا ہے اور اس حالت کی طرف انتقال کے درمیان حد بندی ہوتی ہے جس میں وہ دودھ سے مستغنی ہو کر ٹھوس غذا پر اکتفا کرلیتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی مدت دو سالوں کے بعد چھ ماہ ہوتی ہے۔ یہ بات مقدار کے تعین میں اجتہاد سے تعلق رکھتی ہے اور ایسے مقادیر جن میں اجتہاد کیا جاتا ہے ان کے متعلق قائل پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً استعمال میں آنے والی ایسی چیزوں کی قیمتوں کا تعین اور ایسے جرائم میں جرمانوں کی تحدید کا عمل جن کے متعلق شریعت کی طرف سے توقیف یعنی رہنمائی موجود نہ ہو اسی طرح طلاق کے بعد مطلقہ کو سامان وغیرہ دینے کی بات اور اسی طرح اور دوسری چیزیں۔ ان میں اگر کسی نے غالب ظن کی بناء پر کسی مقدار کا تعین کردیا، ہو تو اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس تعین کے لئے دلیل بھی پیش کرے۔- اس باب میں یہ ایک صحیح اصول ہے جس کی بنیاد پر اس سے متعلقہ مسائل ایک ہی طریقے س حل کئے جاتے ہیں۔ اس کی نظیر حد بلوغت کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ اٹھارہ سال ہے نیز یہ قول کہ جس شخص کے اندر بلوغت کے بعد سمجھ بوجھ پیدا نہیں ہوئی ہو اسے اس کا مال پچیس سال کے بعد ہی حوالے کیا جائے گا اور اسی طرح کے مسائل جن میں مقادیر کا تعین اجتہاد کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب مقادیر کا اجتہاد کے ذریعے کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے جس کی بنا پر ایک خاص مقدار کے تعین کے لئے ظن غالب پیدا ہوجائے اور کسی دوسری مقدار کے اعتبار کی گنجائش نہ رہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے دو سال گزرنے کے بعد ازروئے اجتہاد مزید چھ ماہ کا اعتبار کیا، اس سال کا اعتبار کیوں نہیں کیا جیسا کہ امام زفر نے کیا ہے۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ اس سلسلے میں ایک بات ہے جو کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ (وحملہ و فصالہ یلثون شھرا) پھر فرمایا (وفصالہ فی عامین اور اس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں ہوگا)- تو ان دونوں آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ حمل کی مدت چھ ماہ ہے پھر اس میں دو سال تک زیادتی کی گنجائش پیدا ہوئی کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حم بع دفعہ دو سال تک رہتا ہے اور ہمارے نزدیک اس کی مدت دو سال سے زائد نہیں ہوتی اس بناء پر اس آیت میں مذکورہ حمل بھی دو سال کی ممکنہ مدت سے فارج نہیں اسی طرح دودھ چھڑانے کی مدت بھی تیس ماہ کی مدت سے باہر نہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک ہی جملہ کیت حت اس قول باری میں مذکور ہوئی ہیں (و حملہ و فصالہ ثلاثون شھرا) ۔ ابو الحسن اس کے متعلق کہا کرتے تھے کہ جب دو سال کی مدت دودھ چھوڑنے معتاد مدت ہے اور اس مدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ دو سال کے بعد دودھ سے ٹھوس غذا کی طرف انتقال کی مدت چھ ماہ جس طرح کہ ماں کے پیٹ میں قدرتی غذا سے بچے کو پیدائش کے بعد دودھ کی غذا کی طرف منتقل ہونے میں چھ ماہ لگتے ہیں جو حمل کی کم سے کم موت ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ قول باری (والوالدات یوضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) اس پر نص ہے کہ دو سال کی مدت رضاعت کی پوری مدت ہے اس لئے اس کے بعد رضاعت کا ہونا جائز نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں لفظ اتمام (انیتم الرضاعۃ) کا اطلاق اس پر اضافے سے مانع نہیں ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے حمل کی مدت چھ ماہ رکھی چناچہ ارشاد ہے (وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا) نیز ارشاد ہے (و فصالہ فی عامین) ان دونوں آیتوں میں مجمویع طور پر حمل کی مدت چھ ماہ رکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس مدت میں اضافے کے اندر کوئی امتناع نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح رضاعت کے لئے دو سال کا ذکر اس پر اضافے کے لئے مانع نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارش ہے کہ (من ادرک عرفۃ فقدتم حجہ جس شخص نے وقوف عرفات کو پا لیا اس کا حج مکمل ہوگیا) اس ارشاد کی وجہ سے وقوف عرفات پر اور فرائض مثلاً طواف زیارت کا اضافہ ناجائز نہیں ہوا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دو سال کا ذکر ان اخراجات کی مدت کے تعین کے لئے ہے جو رضاعت کے سلسلے میں باپ پر لازم ہوتے ہیں اور باپ اس مدت کے بعد اخراجات کی کفالت پر مجبور نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد رضاعت کا اثبات میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور مشورے سے ہوتا ہے۔- کیونکہ قول باری ہے (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشش اور فلا جناح علیھما) اس یطرح قول باری ہے (و ان اردتم ان تسترضعوا اولادم فلا جناح علیکم) جب دو سالوں کے بعد بھی رضاعت کا ثبوت ہوگیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ رضاعت کی وجہ سے ہونے والی تحریم بھی ان دو سالوں تک محدود نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے دو سالوں کے دوران ٹھوس غذا کھانے کی وجہ سے بچے کے دودھ سے مستغنی ہونے کو قطام (بچے کا دودھ چھوڑ دینا) کیوں شمار نہیں کیا جیسا کہ امام مالک نے اس صورت کو فطام شمار کیا ہے۔ ان کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (لا رضاع بعد فصال) اسی طرح صحابہ کرام سے منقول روایات جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے جو سلب کی سب فطام کے اعتبار پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر فطام ہی کا اعتبار واجب ہے تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ دو سال گزرنے کے بعد یہ دیکھا جائے کہ اب بچے کو دودھ کی ضرورت باقی ہے یا نہیں اور پھر اس کا اعتبار کرلیا جائے کیونکہ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دو سال کے بعد بھی رضاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ - اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ دو سال کے بعد رضاعت کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ دو سال کے دوران بھی رضاعت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور اس سے یہ واجب ہوگیا کہ تحریم کا حکم وقت کے ساتھ متعلق ہے کسی اور چیز کے ساتھ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت جابر (رض) کی حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا رضاع بعد الحولین) تو اس کی کیا تاویل ہوگی ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے مشہور الفاظ یہ ہیں (لا رضاع بعد فصال) اس لئے یہ ممکن ہے کہ حدیث کے اصل الفاظ تو یہی ہوں اور جس رای نے حولین کا ذکر کیا ہے اس نے حدیث کو اس معنی پر محمول کیا ہے۔ نیز اگر حولین کا ذکر ثابت ہوجائے تو اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ ” لا رضاع علی الاب بعد الحولین “ (دو سال کے بعد باپ پر رضاعت کی ذمہ داری نہیں) جس طرح کہ قول باری (حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) کی تاویل کی گئی ہے۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے نیز اگر حولین رضاعت کی مدت ہوتی اور اس کے گزرنے پر فصال یعنی دودھ چھڑانا واقع ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ (فان اراد فصالا)- اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دو طرح سے اس پر دلالت کرتا ہے کہ حولین فصال کے لئے توقیت نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ فصال کا ذکر اسم نکرہ کی شکل میں ہوا ہے۔ اگر حولین ہی فصال ہوتا تو پھر فصال اسم معرفہ کی شکل میں مذکور ہوتا تاکہ اس کا ذکر حولین کی طرف راع ہوتا کیونکہ اس صورت میں فصال معہود ہوتا اور اس سے حولین یک طرف اشارہ ہوتا ۔ لیکن جب اس کا ذکر نکرہ کی صورت میں کر کے اسے مطلق رکھا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ فصال سے دو سال مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فصال کو ماں باپ کے ارادے پر معلق کردیا جبکہ ہر ایسا حکم جو کسی محدود وقت کے اندر منحصر ہوتا ہے اس کی تعلیق ارادے اور باہمی رضا مندی اور مشورت پر نہیں ہوتی۔ اس تشریح میں ہماری ذکر کردہ بات کی دلیل موجود ہے۔ قول باری (فان ارادا فصالا عن تراض منھما و تشاور) نئے پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صغیر کی فلاح و بہبود کے معاملے میں والدین کے لئے باہمی مشاورت کو مباح کردیا ہے اور یہ بات والدین کے غالب ظن پر موقوف ہے یقین اور حقیقت کی جہت پر موقوف نہیں ہے اس آیت میں اس پر بھی دلالت ہے کہ رضاعت کی مدت میں فطام کا معاملہ والدین کی باہمی رضامندی پر موقوف ہے اور یہ کہ دونوں میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے سے مشورہ کئے بغیر اور اس کی رضامندی حاصل کئے بغیر بچے کا دودھ چھڑا دے کیونکہ قول باری ہے (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور) اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت ان دونوں کی باہمی رضامندی اور مشاورت کی بنا پر دی ہے۔ مجاہد سے اسی طرح کی روایت منقول ہے۔ سلف میں سے بعض حضرات سے اس آیت میں نسخ بھی منقول ہے۔ شیبان نے قطادہ سے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین) کے متعلق روایت کی ہے کہ پہلے یہ حکم تھا پھر اس کے بعد تخفیف نازل ہوئی اور فرمایا (لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گویا قتادہ کے نزدیک دو سال کی رضاعت واجب تھی پھر تخفیف ہوگئی اور مدت رضاعت سے کم کی اباحت کردی گئی۔ ابو جعفر رازی نے ربیع بن انس سے قتادہ جیسے قول کی روایت کی ہے۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) نیز قول باری (فان ارادا فصال عن تراض منھما و تشاور فلا جناح علیھما) کی تاویل میں روایت کی ہے کہ اگر دونوں دو سال کے اندر یا دو سال کے بعد دودھ چھڑانے پر رضامند ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔
(٢٣٣) اور (مائیں اپنے بچوں کو خواہ وہ) طلاق دی ہوئی ہوں، دو سال تک دودھ پلالیں، اور یہ اس عورت کے لیے ہے جو شیر خوارگی کو مکمل کرے اور باپ پر ان عورتوں کا خرچہ دودھ پلانے کے زمانہ میں بھی اور ایسا ہی کپڑا قاعدہ کے موافق واجب ہے، جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو، دودھ پلانے وغیرہ کے خرچہ میں اتنا ہی انسان کو اللہ کی طرف سے پابند کیا گیا ہے، جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا ہے، کسی ماں سے اس کا بچہ نہیں لینا چاہیے جب کہ وہ اتنے پیسوں پر دودھ پلانے کے لیے راضی ہوگئی جتنے پیسے وہ دوسروں سے لیتی ہے اور نہ باپ کے ذمہ بچہ کو ڈالا جائے جب کہ اپنی ماں کو پہچان لے اور کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پئے اور باپ یا بچہ کے وارث پر جب کہ بچہ کا باپ نہ ہو تو اسی طرح بچے کا خرچہ اور تکلیف نہ پہنچانا واجب ہے جیسا کہ باپ پر تھا۔- اور جب میاں بیوی دو سال سے پہلے آپس کی رضا مندی اور مشورہ سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو اگر وہ اپنی اولاد کو پورے دو سال تک دودھ نہ پلائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور جب ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو اور ماں کا (عدت پوری ہونے کی وجہ سے) شادی کا ارادہ ہوتب بھی ماں باپ پر کوئی گناہ نہیں جب کہ قاعدہ کے مطابق جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے بغیر کسی مخالفت کے تم اس کودے دو اور تکلیف پہنچانے اور مخالفت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ موافقت اور تکلیف پہنچانے کی غرض سے مخالفت کرنے کو دیکھ رہا ہے۔
آیت ٢٣٣ (وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ ) (لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط) - اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ مطلقہّ عورت اس کے بچے کو دودھ پلائے اور رضاعت کی مدت پوری کرے تو دو سال تک وہ عورت اس ذمہّ داری سے انکار نہیں کرسکتی۔ - (وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ط) - اس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہّ کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری ہے ‘ جسے ہم نان نفقہ کہتے ہیں ‘ اس لیے کہ قانوناً اولاد شوہر کی ہے۔ اس سلسلے میں دستور کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ یعنی مرد کی حیثیت اور عورت کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ مرد کروڑ پتی ہو لیکن وہ مطلقہ بیوی کو اپنی خادماؤں کی طرح کا نان نفقہ دینا چاہے۔ - (لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ الاَّ وُسْعَہَا ج) (لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌم بِوَلَدِہَا) (وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖق) - یعنی دونوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے ‘ جیسا کہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے : (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ) (٣٠) یعنی نہ تو نقصان پہنچانا ہے اور نہ ہی نقصان اٹھانا ہے۔ - (وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج) - اگر بچے کا باپ فوت ہوجائے تو بچے کو دودھ پلانے والی مطلقہ عورت کا نان نفقہ مرحوم کے وارثوں کے ذمے ّ رہے گا۔ - (فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ ) (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا ط) (وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ ) (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ) - اگر بچے کا باپ یا اس کے ورثاء بچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے بچے کو دودھ پلوانا چاہتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں ‘ انہیں اس کی اجازت ہے ‘ بشرطیکہ ۔۔- (اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بالْمَعْرُوْفِ ط) ۔ - یہ نہ ہو کہ نان نفقہ بچانے کے لیے اب تم مدت رضاعت کے درمیان بچے کی ماں کے بجائے کسی اور عورت سے اس لیے دودھ پلوانے لگو کہ اسے معاوضہ کم دینا پڑے گا۔ اگر تم کسی دایہ وغیرہ سے دودھ پلوانا چاہتے ہو تو پہلے بچے کی ماں کو بھلے طریقے پر وہ سب کچھ ادا کر دو جو تم نے طے کیا تھا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :257 یہ اس صورت کا حکم ہے ، جبکہ زوجین ایک دوسرے سے علیحدہ ہو چکے ہوں ، خواہ طلاق کے ذریعے یا خلع یا فسخ اور تفریق کے ذریعے سے ، اور عورت کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :258 یعنی اگر باپ مر جائے ، تو جو اس کی جگہ بچہ کا ولی ہو ، اسے یہ حق ادا کرنا ہوگا ۔
154: طلاق کے احکام کے درمیان بچے کو دودھ پلانے کا ذکر اس مناسبت سے آیا ہے کہ بعض اوقات یہ مسئلہ ماں باپ کے درمیان جھگڑے کاسبب بن جاتا ہے، لیکن جو احکام یہاں بیان کئے گئے ہیں، وہ طلاق کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، بلکہ تمام حالات کے لئے ہیں۔ پہلی بات تو اس میں یہ واضح کی گئی ہے کہ دودھ زیادہ سے زیادہ دوسال تک پلایا جاسکتا ہے، اس کے بعد ماں کا دودھ چھڑانا ہوگا۔ دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اگر ماں باپ بچے کی مصلحت سمجھیں توپہلے بھی دودھ چھڑاسکتے ہیں، دوسال پورے کرنا شرعا واجب نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ دودھ پلانے والی ماں کا خرچ اس کے شوہر یعنی بچے کے باپ پر واجب ہے۔ اگر نکاح قائم ہو تب تو یہ خرچ نکاح کی وجہ سے واجب ہے، اور اگر طلاق ہوگئی ہو تو عدت کے دوران دودھ پلانا مطلقہ ماں پر واجب ہے اور اس دوران اس کا نفقہ طلاق دینے والے شوہر پر ہے۔ عدت کے بعد نفقہ تو ختم ہوجائے گا، لیکن مطلقہ عدت کے بعد دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ 155: یعنی ماں اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے دودھ نہ پلائے، تو اسے مجبور نہ کیا جائے، دوسری طرف اگر بچہ ماں کے سوا کسی اور کا دودھ نہ لیتا ہو تو ماں کے لئے انکار جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں یہ انکار باپ کو بلا وجہ ستانے کے مرادف ہے۔ 156: یعنی اگر کسی بچہ کا باپ زندہ نہ ہو تو دودھ پلانے کے سلسلے میں جو ذمہ داری باپ کی ہے، وہ بچے کے وارثوں پر عائد ہوگی۔ یعنی جو لوگ بچے کے مرنے کی صورت میں اس کے ترکے کے حق دار ہوں گے، انہی پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اس بچے کو دودھ پلانے اور اس کا خرچ برداشت کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔