Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آئین طلاق کی وضاحت: مردوں کو حکم ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں جن حالتوں میں لوٹا لینے کا حق انہیں حاصل ہے اور عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے یا عمدگی کے ساتھ لوٹائے یعنی رجعت پر گواہ مقرر کرے اور اچھائی سے بسانے کی نیت رکھے یا اسے عمدگی سے چھوڑ دے اور عدت ختم ہونے کے بعد اپنے ہاں بغیر اختلاف جھگڑے دشمنی اور بد زبانی کے نکال دے ، جاہلیت کے اس دستور کو اسلام نے ختم کر دیا کہ طلاق دے دی ، عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا ، یونہی اس دُکھیا عورت کی عمر برباد کر دیتے تھے کہ نہ وہ سہاگن ہی رہے نہ بیوہ ، تو اس سے اللہ نے روکا اور فرمایا کہ ایسا کرنے والا ظالم ہے ۔ پھر فرمایا اللہ کی آیتوں کو ہنسی نہ بناؤ ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشعری قبیلہ پر ناراض ہوئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حاضرِ خدمت ہو کر ( ان اصلاحات طلاق کے بارے میں ) سبب دریافت کیا ، آپ نے فرمایا کیونکہ یہ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں نے طلاق دی ، میں نے رجوع کیا ۔ یاد رکھو مسلمانوں کی یہ طلاقیں نہیں ۔ عورتوں کی عدت کے مطابق طلاقیں دو ۔ اس حکم کا یہ بھی مطلب لیا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو بلاوجہ طلاق دیتا ہے اور عورت کو ضرر پہنچانے کیلئے اور اس کی عدت لمبی کرنے کیلئے رجوع ہی کرتا چلا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو طلاق دے یا آزاد کرے یا نکاح کرے پھر کہہ دے کہ میں نے تو ہنسی ہنسی میں یہ کیا ۔ ایسی صورتوں میں یہ تینوں کام فی الحقیقت واضح ہو جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طلاق ہو گئی ( ابن مردویہ ) حسن بصری فرماتے ہیں کہ لوگ طلاق دے دیتے ، آزاد کر دیتے ، نکاح کر لیتے اور پھر کہہ دیتے کہ ہم نے بطور دِل لگی کے یہ کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو طلاق یا غلام آزاد کرے یا نکاح کرا دے خواہ پختگی کے ساتھ خواہ ہنسی مذاق میں وہ سب ہو گیا ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث مرسل اور موقوف کئی سندوں سے مروی ہے ۔ ابو داؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ پکے ارادے سے ہوں ، دِل لگی سے ہوں تو تینوں پر اطلاق ہو جائے گا ۔ نکاح ، طلاق اور رجعت ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ اللہ کی نعمت یاد کرو کہ اس نے رسول بھیجے ہدایت اور دلیلیں نازل فرمائیں ، کتاب اور سنت سکھائی حکم بھی کئے ، منع بھی کئے وغیرہ وغیرہ ۔ جو کام کرو اور جو کام نہ کرو ہر ایک میں اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر کو بخوبی جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231۔ 1 (الطلاق مرتن) میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہوسکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بظاہر ہے۔ 132۔ 2 بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کرلیتے یا آزاد کردیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں میں نے تو مذاق کیا تھا اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزاء قرار دیا جس سے مقصود اس سے روکنا ہے اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١٣] یہاں اس معاشرتی برائی کا بیان ہے۔ جس کا ذکر پہلے آیت نمبر ٢٢٩ کے حاشیہ نمبر ١ میں کردیا گیا ہے۔ یعنی جب تم ایک یا دو طلاقیں دے چکو پھر ان کی عدت پوری ہونے کو آئے تو اس وقت تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ خلوص نیت سے ان سے رجوع کرو اس ارادہ سے کہ آئندہ اسے درست طور پر بسانا ہے یا پھر انہیں کچھ دے دلا کر شریفانہ طور پر رخصت کرو۔ اور اگر تم نے رجوع کر کے انہیں تنگ کرنے، ستانے اور ان پر زیادتی کرنے کی روش اختیار کی تو یاد رکھو اس ظلم و زیادتی کا وبال تمہیں اللہ کے ہاں بھگتنا پڑے گا۔- [٣١٤] مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا ایسا مطلب نکالا جائے جو اس کے واضح مفہوم اور اس کی روح کے منافی ہو اور ایسا مذاق اڑانے کی واضح مثال نکاح حلالہ ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک شخص نے اپنی عورت کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری زندگی میں اللہ کے احکام سے یوں کھیلا جانے لگا ہے۔ جب کہ ابھی میں تم میں موجود ہوں۔ (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ) - اس طرح تو اپنی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم سے اس کی اصل روح کو فنا کر کے اسے الفاظ کی قید میں مقید کر کے اور فقہی موشگافیاں پیدا کر کے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے اور اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ اللہ نے ان احکام میں جو حکمتیں اور مصلحتیں رکھی ہیں۔ ان احکام کا مذاق اڑا کر ان کا ستیاناس ہی نہ کردینا اور اس سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ اس کا مطلب عدت ختم ہونا نہیں، بلکہ عدت ختم ہونے کے قریب ہونا ہے۔ اس کی دلیل پیچھے گزرا ہوا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ ) [ البقرۃ : ٢٢٨ ]” اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ “- وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو تو ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے، مگر یہ رجوع محض انھیں ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو، کیونکہ ایسا کرنا ظلم و زیادتی اور احکام الٰہی سے مذاق کرنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین چیزیں ایسی ہیں کہ جنھیں کوئی سنجیدگی سے کہے تو وہ سنجیدہ ہیں اور ہنسی مذاق میں کہے تب بھی وہ سنجیدہ ہیں، نکاح، طلاق اور رجوع۔ “ [ أبو داوٗد، الطلاق، باب فی الطلاق علی الھزل : ٢١٩٤۔ ابن ماجہ : ٢٠٣٩۔ ترمذی، ابن حجر، سیوطی اور البانی (رح) نے اسے حسن کہا ہے ] - مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ : یہاں ” وَالْحِكْمَةِ “ سے مراد سنت ہے، یعنی کتاب و سنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھولو۔ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ لہٰذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے، مطلب یہ کہ ان آیات میں بیان کردہ گھریلو مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٢٨ عورتوں کو معلق رکھنے کی ممانعت :- اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی ہو پھر وہ اپنی عدت گزرنے کے قریب پہنچ جائیں تو تم ان کو قاعدہ کے موافق (رجعت کرکے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدے کے موافق ان کو رہائی دو اور ان کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے مت روکو اس ارادہ سے کہ ان پر ظلم کیا جائے اور جو شخص ایسا برتاؤ کرے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور حق تعالیٰ کے احکام کو کھیل نہ بناؤ اور حق تعالیٰ کی جو تم پر نعمتیں ہیں ان کو یاد کرو اور خصوصاً کتاب و حکمت کی باتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر (اس حیثیت سے) نازل فرمائی کہ ان کے ذریعے تم کو نصیحت فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کا اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں۔- حکم نمبر ٢٩ عورتوں کو نکاح ثانی سے منع کرنے کی ممانعت :- اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور عورتیں اپنی میعاد عدت پوری کرچکیں تو تم ان کو اس امر سے مت روکو کہ وہ اپنے (تجویز کئے ہوئے) شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ باہم سب رضامند ہوجائیں قاعدہ کے موافق اس مضمون سے نصیحت کی جاتی ہے اس شخص کو جو تم میں سے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو اس نصیحت کا قبول کرنا تمہارے لئے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ (تمہاری مصلحتوں کو) جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔- معارف و مسائل :- ان سے پہلے بھی دو آیتوں میں قانون طلاق کی اہم دفعات اور اسلام میں طلاق کا عادلانہ اور معتدلانہ نظام قرآن کریم کے حکیمانہ اسلوب کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اب مذکور الصدر دو آیتوں میں چند احکام و مسائل مذکور ہیں۔- احکام طلاق کے بعد رجعت یا انقطاع نکاح دونوں کے لئے خاص ہدایات :- پہلی آیت میں پہلا مسئلہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ جب مطلقہ رجعی عورتوں کی عدت گذرنے کے قریب آئے تو شوہر کو دو اختیار حاصل ہیں، ایک یہ کہ رجعت کرکے اس کو اپنے نکاح میں رہنے دے دوسرے یہ کہ رجعت نہ کرے اور تعلق نکاح ختم کرکے اس کو بالکل آزاد کردے۔- لیکن دونوں اختیاروں کے ساتھ قرآن کریم نے یہ قید لگائی کہ رکھنا ہو تو قاعدہ کے مطابق رکھا جائے اور چھوڑنا ہو تب بھی شرعی قاعدے کے مطابق چھوڑا جائے اس میں بالْمَعْرُوْفِ کا لفظ دونوں جگہ علیٰحدہ علیٰحدہ لاکر اس کی طرف اشارہ فرمادیا ہے کہ رجعت کے بھی کچھ شرائط اور قواعد ہیں اور آزاد کرنے کے لئے بھی دونوں حالتوں میں سے جس کو بھی اختیار کرے شرعی قاعدے کے موافق کرے محض وقتی غصے یا جذبات کے ماتحت نہ کرے دونوں صورتوں کے شرعی قواعد کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں بیان کردیا گیا ہے باقی تفصیلات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہیں۔- مثلا اگر واقعہ طلاق کے بعد مفارقت کے ناگوار عواقب کا خیال کرکے رائے یہ ہوجائے کہ رجعت کرکے نکاح قائم رکھنا ہے تو اس کے لئے شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ پچھلے غصہ وناراضی کو دل سے نکال کر حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گذارنا اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنا پیش نظر ہو عورت کو اپنی قید میں رکھ کر ستانا اور تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو اسی کے لئے آیت متذکرہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے، وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا یعنی عورتوں کو اپنے نکاح میں اس لئے نہ روکو کہ ان پر ظلم کرو۔ - دوسرا قاعدہ رجعت کا یہ ہے جو سورة طلاق میں ذکر کیا گیا ہے، وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ (٢: ٦٥) اور آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ کرلو پھر اگر گواہی کی حاجت پڑے تو ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے بلا رو رعایت گواہی دو ۔ - مطلب یہ ہے جب رجعت کا ارادہ کرو تو اس پر دو معتبر مسلمانوں کو گواہ بنالو اس میں کئی فائدے ہیں ایک یہ کہ اگر عورت کی طرف سے رجعت کے خلاف کوئی دعویٰ ہو تو اس گواہی سے کام لیا جاسکے۔- دوسرے خود انسان کو اپنے نفس پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے اگر رجعت پر شہادت کا قاعدہ نہ جاری کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص عدت پوری گزر جانے کے بعد بھی اپنی غرض یا شیطانی اغواء سے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میں نے عدت گذرنے سے پہلے رجعت کرلی تھی۔ ان مفاسد کے انسداد کے لئے قرآن نے یہ قاعدہ مقرر فرمادیا کہ رجعت کرو تو اس پر دو معتبر گواہ بنالو۔ - معاملہ کا دوسرا رخ یہ تھا کہ عدت کی مہلت اور غور وفکر کا وقت ملنے کے باوجود دلوں کا انقباض اور ناراضی ختم نہ ہوئی اور قطع تعلق ہی برقرار رکھنا ہے تو اس صورت میں بہت اندیشہ ہوتا ہے کہ دشمنی اور انتقامی جذبے بھڑک اٹھیں جن کا اثر دو شخصوں سے متعدی ہو کردو خاندانوں تک پہنچ سکتا ہے اور طرفین کی دنیا وآخرت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اس کے انسداد کے لئے مختصر طور پر تو یہی ارشاد فرمایا گیا کہ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ یعنی چھوڑنا اور قطع کرنا ہی ہو تو وہ بھی قاعدے کے موافق کریں اس قاعدے کی کچھ تفصیلات خود قرآن کریم میں مذکور ہیں باقی تفصیلات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قولی اور عملی بیان سے ثابت ہیں۔- مثلاً اس سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا یعنی بلا کسی عذر شرعی کے ایسا نہ کرو کہ عورت سے طلاق کے معاوضہ میں اپنا دیا ہوا سامان یا مہر واپس لے لو یا کچھ اور معاوضہ طلب کرو۔ - اور اس کے بعد کی ایک آیت میں ارشاد فرمایا، وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (٢٤١: ٢) سب طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے کچھ فائدہ پہنچانا قاعدہ کے موافق مقرر ہوا ہے، ان پر جو اللہ سے ڈرتے ہیں " فائدہ پہنچانے کی تفسیر، رخصت کے وقت مطلقہ عورت کو کچھ تحفہ نقد یا کم از کم ایک ایک جوڑا کپڑے کا دینا ہے اس میں طلاق دینے والے شوہر پر مطلقہ بی بی کے کچھ حقوق واجب و لازم کرکے اور کچھ بطور احسان و سلوک کے عائد کردیئے گئے ہیں جو بلند اخلاق اور حسن معاشرت کی پاکیزہ تعلیم اور جس میں اس طرف ہدایت ہے کہ جس طرح نکاح ایک معاملہ اور باہمی معاہدہ تھا اسی طرح طلاق بھی ایک معاملہ کا ختم کرنا ہے اس فسخ معاملہ کو دشمنی اور جنگ وجدل کا سامان بنانے کی کوئی وجہ نہیں، معاملہ کا انقطاع بھی خوب صورتی اور حسن سلوک کے ساتھ ہونا چاہئے کہ طلاق کے بعد مطلقہ بی بی کو فائدہ پہنچایا جائے۔- اس فائدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایام عدت میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دے اس کا پورا خرچ برداشت کرے اگر مہر اب تک نہیں دیا ہے اور خلوت ہوچکی تو پورا مہر ادا کرے اور خلوت سے پہلے ہی طلاق کا واقعہ پیش آگیا ہے تو آدھا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرے، یہ تو سب حقوق واجبہ ہیں جو طلاق دینے والے کو لازمی طور ادا کرنا ہیں اور مستحب اور افضل یہ بھی ہے کہ مطلقہ بی بی کو رخصت کرنے کے وقت کچھ نقد یا کم ازکم ایک جوڑا دے کر رخصت کیا جائے، سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے کہ جو چیزیں عرفا جنگ وجدال اور لڑائی جھگڑے کے اسباب اور خاندانوں کی تباہی تک پہنچانے والی ہیں ان کو دائمی محبت ومسرت میں تبدیل کردیا گیا۔- ان سب احکام کے بعد ارشاد فرمایا : وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ یعنی جو شخص ان حدود خداوندی کے خلاف کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا آخرت میں تو ظاہر ہے کہ وہاں ہر ظلم وجور کا انتقام بارگاہ خداوندی میں لیا جائے گا اور جب تک مظلوم کا بدلہ ظالم سے نہ لے لیا جائے گا آگے نہ بڑھے گا۔- اور دنیا میں بھی اگر بصیرت اور تجربہ کے ساتھ غور کیا جائے تو نظر آئے گا کوئی ظالم بظاہر تو مظلوم پر ظلم کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرلیتا ہے، لیکن اس کے نتائج بد اس دنیا میں بھی اس کو اکثر ذلیل و خوار کرتے ہیں، اور وہ سمجھے یا نہ سمجھے اکثر ایسی آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے کہ ظلم کا نتیجہ اس کو دنیا میں بھی کچھ نہ کچھ چکھنا پڑتا ہے، اسی کو شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے فرمایا :- پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد - بر گردن وے بماند وبرما بگذشت - قرآن کریم کا اسلوب حکیم اور خاص انداز بیان ہے کہ وہ قانون کو دنیا کے قوانین تعزیرات کی طرح بیان نہیں کرتا بلکہ مربیانہ انداز میں قانون کا بیان اس کی حکمت و مصلحت کی وضاحت اس کے خلاف کرنے میں انسان کی مضرت و نقصان کا ایسا سلسلہ بیان کرتا ہے جس کو دیکھ کر کوئی انسان جو انسانیت کے جامے سے باہر نہ ہو ان جرائم پر اقدام کر ہی نہیں سکتا ہر قانون کے پیچھے خدا کا خوف وآخرت کا حساب دلایا جاتا ہے۔- نکاح و طلاق کو کھیل نہ بناؤ :- دوسرامسئلہ : اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا کھیل بنانے کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ نکاح و طلاق کے لئے اللہ تعالیٰ نے حدود وشروط مقرر کردیئے ہیں ان کی خلاف ورزی کرنا اور دوسری تفسیر حضرت ابوالدرداء سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ طلاق دے کر یا غلام آزاد کرکے مکر جاتے اور کہتے تھے کہ میں نے تو ہنسی مذاق میں کہہ دیا تھا طلاق یا عتاق کی نیت نہیں تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے یہ فیصلہ کردیا کہ طلاق ونکاح کو اگر کسی نے کھیل یا مذاق میں بھی پورا کردیا تو وہ نافذ ہوجائیں گے نیت نہ کرنے کا عذر مسموع نہ ہوگا۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں ہنسی کے طور پر کرنا اور واقعی طور پر کرنا دونوں برابر ہیں۔ ایک طلاق دوسرے عتاق، تیسرے نکاح (اخرجہ ابن مردویہ عن ابن عباس وابن المنذر عن عبادۃ بن الصامت) - اور حضرت ابوہریرہ سے اس حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں :- ثلاث جدہن جد وھز لھن جد النکاح والطلاق والرجعۃ۔ " یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جن کو قصد و ارادہ سے کہنا اور ہنسی مذاق کے طور پر کہنا برابر ہے ایک نکاح دوسرے طلاق تیسری رجعت (مظہری) - ان تینوں چیزوں میں حکم شرعی یہ ہے کہ دو مرد و عورت اگر بلاقصد نکاح ہنسی ہنسی میں گواہوں کے سامنے نکاح کا ایجاب و قبول کرلیں تو بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے اسی طرح اگر بلاقصد ہنسی ہنسی میں صریح طور پر طلاق دیدے تو طلاق ہوجاتی ہے یا رجعت کرے تو رجعت ہوجاتی ہے ایسے ہی کسی غلام کو ہنسی میں آزاد کرنے کو کہہ دے تو غلام باندی آزاد ہوجاتے ہیں ہنسی مذاق کوئی عذر نہیں مانا جاتا۔- اس حکم کے بیان کے بعد پھر قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو حق تعالیٰ کی اطاعت اور آخرت کے خوف کا سبق دیا ارشاد فرمایا : وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ یعنی یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جو تم پر نازل فرمائی اور یاد کرو اس خاص نعمت کو جو کتاب و حکمت کی صورت میں تمہیں دی گئی اور اللہ سے ڈرو اور یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں تمہاری نیتوں اور ارادوں اور دلوں میں چھپے ہوئے بھیدوں سے باخبر ہیں اس لئے اگر بیوی کو طلاق دے کر آزاد ہی کرنا ہو تو باہمی نزاع اور ایک دوسرے کی حق تلفی اور ظلم سے بچنے بچانے کی نیت سے کرو غصہ کے انتقام یا بیوی کو ذلیل و رسوا کرنے یا تکلیف پہنچانے کی نیت سے نہ کرو۔ - طلاق میں اصل یہی ہے کہ صریح اور رجعی طلاق دی جائے :- تیسرا مسئلہ : جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ شریعت وسنت کی نظر میں اصل یہی ہے کہ کوئی آدمی اگر طلاق دینے پر مجبور ہی ہوجائے تو صاف وصریح لفظوں میں ایک طلاق رجعی دیدے تاکہ عدت تک رجعت کا حق باقی رہے ایسے الفاظ نہ بولے جن سے فوری طور پر تعلق زوجیت منقطع ہوجائے جس کو طلاق بائن کہتے ہیں اور نہ تین طلاق تک پہنچے جس کے بعد آپس میں نکاح جدید بھی حرام ہوجائے۔- یہ اشارہ لفظ، طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ کو مطلق بلاقید کے ذکر کرنے سے حاصل ہوا کیونکہ جو حکم اس آیت میں بتلایا ہے وہ اگرچہ صرف طلاق رجعی ایک دو تک کے لئے ہے طلاق بائن یا تین طلاق کا یہ حکم نہیں مگر قرآن کریم نے کوئی قید اس کی ذکر نہ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل طلاق مشروع رجعی طلاق ہی ہے دوسری صورتیں کراہت یا ناپسندیدگی سے خالی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۝ ٠ ۠ وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا۝ ٠ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝ ٠ ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللہِ ھُزُوًا۝ ٠ ۡ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٢٣١ ۧ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، - ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے - سرح - السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ- [ النحل 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا - [ الأحزاب 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك .- ( س ر ح) السرح - ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مطلقہ بیوی سے رجوع کرنے میں نقصان کا ارادہ نہ ہونا - قول باری ہے (و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف، اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے انہیں رخصت کر دو )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (بلغن اجلھن) سے مراد حقیقت اجل نہیں جو عدت ہے بلکہ اس سے مراد اس کے خاتمے کے قریب پہنچ جانا ہے کیونکہ حقیقی معنی لینے کی صورت میں اجل کو پہنچ جانے کا مطلب عدت کا گزر جانا ہوگا جبکہ عدت کے گزر جانے کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ عدت کو لفظ اجل سے متعدد مقامات پر تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے یہ قول باری (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف) اس کا معنی بھی وہی ہے جو درج بالا آیت کا ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (وا ولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن اور جب عورتوں کو طلاق دے دو تو انہیں نہ روکو…) نیز فرمایا (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ اور نکاح کی گرہ کو پختہ نہ کر وجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ان تمام آیات میں جہاں جہاں لفظ اجل ذکر ہوا ہے اس سے مراد عدت ہے جب اللہ تعالیٰ نے اجل کا ذکر اپنے قول (فاذا بلغن اجلھن) میں بھی کیا ہے تو اس سے مراد اجل کا ختم ہوجانا نہیں بلکہ اس کا قرب الاختتام ہونا ہے۔ قرآن مجید اور محاورات میں اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں چناچہ ارشاد باری ہے (اذا طلقتم النساء فطلقوھن بعدتھن) اس کا معنی ہے جب تم طلاق کا ارادہ کرو اور طلاق دینے کے قریب پہچ جائو تو عدت پر طلاق دو ۔- اسی طرح ارشاد باری ہے (فاذا اقرات القرآن فاستعذ باللہ جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو استفادہ کرلو) اس کا معنی ہے کہ جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا قلتم فاعدلوا۔ جب تم بات کرو تو انصاف کی بات کرو) اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ بات کرنے کے بعد عدل کرو بلکہ بات کرنے سے پہلے یہ عزم کرو کہ انصاف پر مبنی بات کے سوا اور کوئی بات نہیں کریں گے۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں بلوغ اجل کا ذکر کر کے اس سے عدت کا قریب الاختتام ہونا مراد لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنے کا حکم دیتے وقت عدت کے قریب الاختتام ونے کا ذکر کیا ہے حالانکہ معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنا نکاح کے بقاء کے تمام احوال میں شوہر پر لازم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ معروف طریقے سے امساک کے ذکر کے ساتھ تسریح یعنی بھلے طریقے سے رخصل کردینے کا بھی ذکر کیا ہے جس کا مفہوم عدت کا اختتام ہے۔ اور پھر دونوں کو امر کے تحت جمع کردیا ہے اور چونکہ تسریح کی صرف ایک حالت ہوتی ہے جو زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہتی اس لئے بلوغ اجل یعنی عدت کے قریب الاختتام ہونے والی حالت کو اس کے ساتھ خاص کردیا تاکہ معروف یعنی بھلے طریقے کا تعلق دونوں معاملوں (امساک اور تسریح) کے ساتھ ہوجائے۔- قول باری (فامسکوھن بمعروف) سے مراد عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلینا ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے۔ اب رہا قول باری (او سرحومن بمعروف) تو اس کا معنی یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے امساک بالمعروف کو مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اس کے ضروری حقوق ادا کرے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا، نیز بھلے طریقے سے تسریح کو بھی مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تر کر کے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے (او سرحوھن) کے ذکر کے فوراً بعد (ولا تمسکوھن ضرارا) کے ذکر سے بیان فرمائی ہے۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ معروف طریقے سے رخصل کردینے کی شکل یہ ہو تو اسے متاع یعنی سامان وغیرہ دے کر رخصت کرے۔- اس آیت سے نیز قول باری (ذامساک بمعروف او تسریح باحسان) سے کسی نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شوہر اتنا مفلوک الحال ہو کہ بیوی کو نان و نفقہ دینے سے بھی عاجز ہو تو ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی واج بہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا ہے یا تو معروف طریقے سے اسے اپنی بیوی بنائے رکھے یا پھر بھلے طریقے سے اسے رخصت کر دے اور ظاہر ہے کہ نان و نفقہ مہیا نہ کر سکنا معروف میں داخ ل نہیں ہے اس لئے جب شوہر اس سے عاجز ہوجائے گا تو دوسر یبات یعنی تسریح اس پر لازم آ جائے گی اور حاکم دونوں کو علیحدہ کر دے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس کسی نے یہ بات کہی اور آیت سے اس پر استدل کیا ہے یہ اس کی جہالت ہے۔ اس لئے کہ ایسا شوہر جو اپنی بیوی کو نان و نفقہ دینے سے عاجز ہو وہ بھی اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ اس حالت میں انفاق کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔- قول باری ہے (ومن قدر علیہ رزقہ فلیتفق مما اتاہ اللہ لا یکلف اللہ تفسا الا ما اتاھا سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔ جسے اللہ تعالیٰ رزق میں تنگی دے دے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں بناتا مگر صرف اسی چیز کا جو اس نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنگدستی کے بعد فراخی دینے والا ہے ) اس بناء پر کہنا درست نہیں کہ تنگدست شوہر اپنی بیوی کو معروف طریقے سے نہیں سنبھالے ہوئے ہے کیونکہ دراصل معروف طریقے سے نہ رکھنا قابل مذمت ہے اور جو شخص تنگدست ہو اس کا انفاق نہ کرنا قابل مذمت نہیں ہے۔ اگر یہ صورت ہوتی تو پھر اصحاب صفہ اور فقراء صحابہ جو تنگدستی کی بناء پر اپنے اوپر خرچ کرنے سے عاجز تھے چہ جائیکہ اپنی بیویوں پر خرچ کریں سب کے سب معروف طریقے سے اپنی بیویوں کو نہ بسانے والے شمار ہوتے۔ نیز ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسا شوہر جو انفاق کی قدرت رکھتے ہوئے بھی انفاق کے لئے تیار نہ ہو، وہ معروف طریقے سے نہ بسانے والا شمار نہیں ہوتا اور یہ بھی متفقہ مسئلہ ہے کہ ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے علیحدہ کردیئے جانے کا مستحق نہیں ہوتا تو یہ کیسے جائز ہوسکتا کہ انفاق سے عاجز شوہر کی تفریق کے وجوب پر آیت سے استدلال کیا جائے، اور نفاق پر قادر کی تفریق پر استدلال نہ کیا جائے جبکہ عاجز حقیقت میں معروف طریقے سے بیوی کو بسانے والا ہوتا ہے اور قادر بسانے والا نہیں ہوتا۔ اس قول سے استدلال کرنے والے کے استدلال میں تخلف لازم آگیا جس کی وجہ سے اس کا استدلال ہی باطل ہوگا۔ قول باری ہے (ولا تمکوھن ضرارا لتعتدوا اور تم ان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ روکو کہ پھر ان پر زیادتی کے مرتکب ہو جائو) اس آیت کی تاویل میں مسروق، سن بصری مجاہد، قتادہ اور ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ اس سے مراد رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تو کردینا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب اس کی عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کر کے پھر طلاق دے دے تاکہ وہ بےچاری نئے سرے سے عدت شروع کرے اور پھر جب عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ بیو کو معروف طریقے سے عقد زوجیت میں رکھے اور عدت کی مدت کو طویل تر بنا کے اسے نقصان نہ پہنچائے۔- قول باری ہے (ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ، اور جو شخص ایسا کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا) یہ فقرہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ خواہ وہ نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع کرے اس کا رجوع درست ہوجائے گا کیونکہ اگر یہ مفہوم نہ ہوتا تو وہ ظالم قرار نہ دیا جاتا کیونکہ اس صورت میں رجوع کا حکم ثابت نہ ہوتا اور اس کا یہ فعل بیکار جاتا۔ قول باری ہے (ولا تتخذوا آیات اللہ ھزوا اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو) حضرت عمر (رض) اور حضرت ابوالدرداء سے بروایت حسن بصری یہ منقول ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر رجوع کرلیتا اور کہتا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان فرما دیا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا غلام آزاد کردیا یا کسی سے نکاح کرلیا اور پھر یہ کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا تو اس کے اس عمل کو مذاق پر نہیں بلکہ سنجیدگی اور قصد پر محمول کیا جائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں (من طلق او حررا و نکح فقال کنت لا عما فھو جاد) ۔- حضرت ابوالدرداء (رض) نے یہ خبر دی کہ آیت کی تاویل یہ ہے اور آیت اس بارے میں نازل ہوئی۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ مذاق اور سنجیدگی دونوں صورتوں میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہی حکم رجوع کرنے کا بھی ہے کیونکہ اس کا ذکر امساک یا تسریح کے ذکر کے بعد ہوا ہے اس لئے یہ ان دونوں کی طرف راجع ہوگا نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول سے اس کی تاکید بھی کردی ہے۔ عبدالرحمن بن حبیب نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاث جدھن جدوھلن جد الطلاق والنکاح والرجعۃ۔ طلاق، نکاح اور رجعت ایسی تین باتیں ہیں کہ اگر یہ سنجیدگی سے کی جائیں تو ان کا وہی حکم ہے جو اگر مذاق کے طور پر کی جائیں، یعنی دونوں صورتوں میں یہ واقع ہوجاتی ہیں۔- سعید بن المسیب نے حضرت عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ چار باتیں ایسی ہیں جو اگر کوئی شخص اپنی زبان سے کہہ بیٹھے تو وہ اس پر لازم ہوجاتی ہیں۔ غلام آزاد کرنا، طلاق دینا، نکاح کرنا اور نذر مان لینا۔ جابر نے عبداللہ بن لحی سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ’ دتین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں مذاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نکاح، طلاق اور صدقہ۔ “ قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جب تم کسی سے نکاح کرنے کی بات اپنے منہ سے نکال دو تو پھر خواہ تم نے مذاق سے یہ بات کہی ہے یا سنجیدگی سے دونوں کا حکم یکساں ہوگا یعنی دونوں صورتوں میں اس کا نفاذ ہوجائے گا۔ یہی بات تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے اور ہمیں اس بارے میں فقاء امصار کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔- زبردستی کی طلاق - یہ بات مکرہ (وہ شخص جسے مجبور کیا جائے) کی دی ہوئی طلاق کے واقع ہوجانے میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ طلاق کے معاملے میں سنجیدہ اور مذاق کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہے۔ باوجودیکہ دونوں قصد اور ارادے سے یہ بات زبان پر لاتے ہیں دونوں میں صرف اس لحاظ سے فرق ہے کہ ایک کا ارادہ زبان پر لائے ہوئے لفظ کے حکم کو وقاع کرنے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا یہ ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس حکم کو دور کرنے میں نیت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اب مکرہ ایک طرف تو ارادے اور قصد سے طلاق کا لفظ زبان پر لاتا ہے لیکن اس کے حکم کا اسے ارادہ نہیں ہوتا تو اس کی نیت کا فقدان طلاق کے حکم کو دور کرنے میں کوئی اثر نہیں دکھائے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طلاق واقع ہونے کی شرط یہ کہ مکلف ایسے الفاظ اپنی زبان پر لائے جن سے طلاق واقع ہوجائے۔ واللہ اعلم

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣١) اور جب تم عورتوں کو طلاق رجعی دے دو اور وہ عدت کے قریب پہنچیں تو تیسرے حیض میں غسل سے قبل تو خواہ حسن صحبت اور معاشرت کے معاشرت کے ساتھ ان اسے رجوع کرلو یا ان کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے ان کو چھوڑ دو تاکہ وہ غسل کرلیں اور ان کی عدت پوری ہوجائے اور ان کو تکلیف پہنچانے اور ظلم کرنے کے ارادہ سے نہ رکھو کہ ان پر عدت کو دراز کردو اور جو اس عمل سے تکلیف پہنچانے کا کام کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، احکام الہی کو مذاق مت بناؤ کہ تم اس کو جانتے ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت عطا کر کے جو تم پر احسان کیا ہے اور جو کچھ کتاب اللہ میں اوامرو نواہی اور حلال و حرام کو بیان کیا گیا ہے ان سب باتوں کو یاد کرو اور کسی کو بےجا تکلیف پہنچانے کے متعلق اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور کسی کو تکلیف پہنچانے پر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” واذا طلقتم النساء “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عوفی (رح) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا تھا پھر عدت پوری ہونے سے پہلے اس سے رجوع کرلیتا تھا اس کے بعد پھر اسے طلاق دے دیتا تھا، اس طرح اس کو نقصان پہنچاتا اور لٹکائے رکھتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ثابت بن یسار نامی انصار میں ایک شخص تھا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جب اس کی عدت پوری ہونے میں دو یا تین دن رہ گئے تو اس سے رجوع کرلیا پھر اسے تکلیف پہنچانے کی خاطر طلاق دے دی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تمسکوھن (الخ)- شان نزول : (آیت) ” ولا تتخذوا ایات اللہ “۔ (الخ)- ابن ابی عمر (رض) نے اپنی مسند میں اور ابن مردویہ (رح) نے ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی طلاق دیتا تھا پھر اس کے بعد کہتا کہ میں تو کھیل کر رہا ہوں اور غلام کو آزاد کرتا اور کہتا کہ میں تو مذاق کررہا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اتاری فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مذاق نہ سمجھو اور ابن منذر (رح) نے عبادہ بن صامت (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے اور ابن جریر (رح) سے حسن (رح) سے مرسل ایسے ہی روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣١ (وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ ) - (فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍص) تو یا تو معروف طریقے سے انہیں روک لو یا اچھے انداز سے انہیں رخصت کر دو ۔ - (وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ج) ۔ - دیکھو ایسا مت کرو کہ تم انہیں تنگ کرنے کے لیے روک لو کہ میں اس کی ذرا اور خبر لے لوں ‘ اگر طلاق ہوجائے گی تو یہ آزاد ہوجائے گی۔ غصہ اتنا چڑھا ہوا ہے کہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا اور وہ اس لیے رجوع کر رہا ہے تاکہ عورت کو مزید پریشان کرے ‘ اسے اور تکلیفیں پہنچائے۔ اس طرح تو اس نے قانون کا مذاق اڑایا اور اللہ کی دی ہوئی اس اجازت کا ناجائز استعمال کیا۔ - (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط) (وَلاَ تَتَّخِذُوْْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًاز) ۔ - ضروری ہے کہ احکام شریعت پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں خاص طور پر ازدواجی زندگی کے ضمن میں بار بار اللہ کے خوف اور تقویٰ کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر تمہارے دل اس سے خالی ہوں گے تو تم اللہ کی شریعت کو کھیل تماشا بنا دو گے ‘ ٹھٹھا اور مذاق بنا دو گے۔- (وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ) (وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ ) (یَعِظُکُمْ بِہٖ ط) ۔ - اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمتیں پانے کے بعد بھی اگر تم نے اس کی حدود کو توڑا اور اس کی شریعت کو مذاق بنایا تو پھر تمہیں اس کی گرفت سے ڈرنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :254 “یعنی ایسا کرنا درست نہیں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رجوع کر لے کہ اسے پھر ستانے اور دق کرنے کا موقع ہاتھ آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے کہ رجوع کرتے ہو تو اس نیت سے کرو کہ اب حُسنِ سلوک سے رہنا ہے ۔ ورنہ بہتر ہے کہ شریفانہ طریقے سے رخصت کر دو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۵۰ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :255 یعنی اس حقیقت کو فراموش نہ کر دو کہ اللہ نے تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے کر دنیا کی رہنمائی کے عظیم الشان منصب پر مامور کیا ہے ۔ تم”اُمّتِ وَسَط“ بنائے گئے ہو ۔ تمہیں نیکی اور راستی کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا ہے ۔ تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ حیلہ بازیوں سے آیات الہٰی کا کھیل بناؤ ، قانون کے الفاظ سے روح قانون کے خلاف ناجائز فائدے اٹھاؤ اور دنیا کو راہ راست دکھانے کے بجائے خود اپنے گھروں میں ظالم اور بد راہ بن کر رہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

152: جاہلیت میں ایک ظالمانہ طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے اور جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتے، تاکہ وہ دوسرا نکاح نہ کرسکے، پھر اس کے حقوق ادا کرنے کے بجائے کچھ عرصے کے بعد پھر طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتے اور اس طرح وہ غریب بیچ میں لٹکی رہتی نہ کسی اور سے نکاح کرسکتی اور نہ شوہر سے اپنے حقوق حاصل کرسکتی یہ آیت اس ظالمانہ طریقے کو حرام قرار دے رہی ہے۔