Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] آخر ان منافقوں کی حالت یہ ہوگئی کہ یہ حق بات سننے کے لیے بہرے، حق کہنے کے لحاظ سے گونگے ہیں اور حق سامنے موجود ہو تب بھی انہیں نظر نہیں آتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۻ ( بہرے) ” اَصَّمُ “ کی جمع ہے۔ بُكْمٌ (گونگے) ” اَبْکَمُ “ کی جمع ہے اور عُمْىٌ ( اندھے) ” اَعْمَی “ کی جمع ہے۔ ان کے بہرے، گونگے اور اندھے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے کان، زبانیں یا آنکھیں ہیں ہی نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ رکھنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً ڮ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰه) [ الأحقاف : ٢٦ ] ” اور ہم نے ان کے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تو نہ ان کے کان ان کے کسی کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ “ - ( فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) یعنی وہ اس گمراہی سے جو خرید بیٹھے اور اس ہدایت کی طرف جسے فروخت کر بیٹھے واپس نہیں لوٹتے۔ ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو زبان سے مومن اور دل میں پکے کافر تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝ ١٨ ۙ- صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- بكم - قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم .- ( ب ک م ) الابکم - ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔- وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان یہودیوں کی یہ بھی مثال بیان کی گئی ہے، جیسا کہ کسی شکست کھائے ہوئے انسان نے کوئی علم حاصل کیا اور اس کے پاس اور شکست خوردہ لوگ جمع ہوگئے پھر انہوں نے اپنے علم کو تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے ان کا فائدہ اور امن وسلامتی سب ہی برباد ہوگئے، اسی طرح سے یہود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کے اور قرآن مجید کے ذریعے سے مدد مانگا کرتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو انہوں نے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کفر و انکار کے سبب ان کے ایمان لانے کی خواہش اور ان کے ایمان کے نفع کو ختم کردیا اور انھیں یہودیت کی گمراہیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا کہ انھیں اب ہدایت کا راستہ ہی نظر نہیں آتا، یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، کہ اپنے کفر اور گمراہی سے ہرگز نہیں لوٹ سکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ ١ (صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) - اَصَمُّ بہرے کو کہتے ہیں ‘ صُمٌّ اس کی جمع ہے ‘ اَبْکَمُ گونگے کو کہا جاتا ہے ‘ بُکْمٌ اس کی جمع ہے۔ اَعْمٰی اندھے کو کہتے ہیں ‘ عُمْیٌ اس کی جمع ہے۔ فرمایا کہ یہ بہرے ہیں ‘ گونگے ہیں ‘ اندھے ہیں ‘ اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ ابوجہل ‘ ابولہب ‘ ولید بن مغیرہ اور عقبہ ابن ابی معیط سب کے سب ابھی زندہ تھے جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں۔ یہ سب تو غزوۂ بدر میں واصل جہنم ہوئے جو سن ٢ ہجری میں ہوا۔ تو یہ لوگ اس مثال کا مصداق کامل تھے۔ آگے اب دوسری مثال بیان کی جا رہی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :17 حق بات سُننے کے لیے بہرے ، حق گوئی کے لیے گونگے ، حق بینی کے لیے اندھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani