ایمان کا ایک پہلو اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ، انہوں نے پھر سوال کیا حضور نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے ( ابن ابی حاتم ) لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے ، مجاہد حضرت ابو ذر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حلانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی ۔ ایک شخص نے حضرت ابو ذر سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرما دی اس نے کہا حضرت میں آپ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے تو آپ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور سے کیا آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ نے فرمایا مومن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہو جاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمیگین ہو جاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے ( ابن مردویہ ) یہ روایت بھی منقطع ہے اب اس آیت کی تفسیر سنئے ۔ مومنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کر لو ، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو ، اگر کوئی مشرق کیطرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے ، قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا ہے آیت ( لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ ) 22 ۔ الحج:37 ) یعنی تمہاری قربانیوں کے گوشت اور لہو اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں ۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا ، مشرق و مغرب کو اس کے لئے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے ، پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہو جائے ، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں ، تمام بھلائیوں کا عامل ہو ، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کر لیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی ، اس کا ذات باری پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے ، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین و دنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے ، اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے ، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے ، صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو ( بخاری ومسلم ) مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) پڑھ کر فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے صدقہ کرو ، لیکن اس روایت کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے ، اصل میں یہ فرمان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے ، قرآن کریم میں سورۃ دھر میں فرمایا آیت ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ) 76 ۔ الانسان:8 ) مسلمان باوجود کھانے کی چاہت کے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ اور جگہ فرمایا آیت ( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:92 ) جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ) 59 ۔ الحشر:9 ) یعنی باوجود اپنی حاجت اور ضرورت کے بھی وہ دوسروں کو اپنے نفس پر مقدم کرتے ہیں پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا ۔ ذوی القربی انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں ۔ حدیث میں ہے مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے ، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا ۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں ، قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے ۔ یتیم سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مر گئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت وطاقت ہو ، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی مساکین وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے ، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں ، بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہو جائے اور انہیں کوئی کچھ دے دے ۔ ابن السبیل مسافر کو کہتے ہیں ، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا ، مہمان بھی اسی حکم میں ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مہمان کو بھی ابن السبیل میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی ۔ سائلین وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں ، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے ( ابوداؤد ) آیت ( فی الرقاب ) سے مراد غلاموں کو آزادی دلانا ہے خواہ یہ وہ غلام ہوں جنہوں نے اپنے مالکوں کو مقررہ قیمت کی ادائیگی کا لکھ دیا ہو کہ اتنی رقم ہم تمہیں ادا کر دیں گے تو ہم آزاد ہیں لیکن اب ان بیچاروں سے ادا نہیں ہو سکی تو ان کی امداد کر کے انہیں آزاد کرانا ، ان تمام قسموں کی اور دوسرے اسی قسم کے لوگوں کی پوری تفسیر سورۃ برات میں آیت ( انما الصدقات ) کی تفسیر میں بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال میں زکوٰۃ کے سوا کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ، اس حدیث کا ایک راوی ابو حمزہ میمون اعور ضعیف ہے ۔ پھر فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بےمعنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے فرمایا آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ) 91 ۔ الشمس:9 ) یعنی اپنے نفس کو پاک کرنے والا فلاح پا گیا اور اسے گندگی میں لتھیڑنے ( لت پت کرنے والا ) تباہ ہو گیا موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے ہی فرمایا تھا کہ آیت ( ھل لک الی ان تزکی ) الخ اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ Čۙ الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ Ċۙ ) 41 ۔ فصلت:6 ) یعنی ان مشرکوں کو ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے یا یہ کہ جو اپنے آپ کو شرک سے پاک نہیں کرتے ، پس یہاں مندرجہ بالا آیت زکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ نفس یعنی اپنے آپ کو گندگیوں اور شرک وکفر سے پاک کرنا ہے ، اور ممکن ہے مال کی زکوٰۃ مراد ہو تو اور احکام نفلی صدقہ سے متعلق سمجھے جائیں گے جیسے اوپر حدیث بیان ہوئی کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور حق بھی ہیں ۔ پھر فرمایا وعدے پورے کرنے والے جیسے اور جگہ ہے آیت ( يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ ) 13 ۔ الرعد:20 ) یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے ، وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے ، جیسے حدیث میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں ، بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، ایک اور حدیث میں ہے جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا ۔ پھرفر یایا فقر و فقہ میں مال کی کمی کے وقت بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر دشمنان دین کے سامنے میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہنے والے اور فولادی چٹان کی طرح جم جانے والے ۔ صابرین کا نصب بطور مدح کے ہے ان سختیوں اور مصیبتوں کے وقت صبر کی تعلیم اور تلقین ہو رہی ہے ، اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ہمارا بھروسہ اسی پر ہے ۔ پھر فرمایا ان اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں ۔
177۔ 1 یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاری اپنے قبلے کو ( جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمان تحویل قبلہ پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے جس سے بعض دفعہ رنجیدہ دل ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات وصفات میں یکتا اور تمام عیوب سے پاک قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الباساء سے تنگ دستی اور شدت فقر۔ الضراء سے نقصان یا بیماری اَلْبَاس سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہی سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔
[٢٢١] جب یہود مدینہ نے تحویل قبلہ کے مسئلہ کو مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے کا ایک مستقل موضوع بنا لیا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمائی کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس پر نجات اخروی کا مدار ہو بلکہ نیکی کے اصل اور بڑے بڑے کام تو اور ہیں اور وہ کام ایسے تھے جن میں سے اکثر کی ادائیگی میں یہود قاصر تھے یا کوتاہی کر جاتے تھے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کی انواع بیان فرمائیں۔ یہود جبریل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ حالانکہ اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتا رہا۔ پھر وہ انجیل اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنی کتاب پر بھی ٹھیک طرح سے ایمان نہیں لاتے تھے اور بیشمار غلط عقائد آخرت کے بارے میں اپنے معتقدات میں شامل کرلیے تھے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات اور اس کے مستحقین کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں وہ قاصر یوں تھے کہ وہ سود خور تھے اور سود خور کی فطرت میں بخل اور شقاوت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر اللہ نے وعدہ پورا کرنے کا ذکر فرمایا۔ جبکہ یہود کی تاریخ عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے اور بزدل ایسے کہ ان کا کوئی قبیلہ بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلے میدان میں لڑنے کی جرات نہ کرسکا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے راست باز اور متقی لوگوں کی جو جو صفات بیان فرمائی ہیں یہودیوں کی اکثریت ان سے عاری تھی۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سیرت و کردار سے متعلق صرف دو باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک ایفائے عہد کا اور دوسرے صبر کا۔ عہد خواہ ایک شخص کا دوسرے شخص سے ہو یا قوم سے ہو یا ایک قوم کا دوسری قوم سے ہو یا کسی کا اللہ تعالیٰ سے ہو۔ نیز خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا معاملات سے یا مناکحات سے، اس عہد کا پورا کرنا ہر حال میں لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عہد دراصل ایفائے حقوق کا عہد ہوتا ہے جو انسان کی ساری زندگی ہی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے، اور ایفائے عہد کے سلسلہ میں کئی قسم کی مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔ لہذا ساتھ ہی صبر و ثبات کا حکم فرما دیا اور صبر کے تین مواقع کا بالخصوص ذکر فرمایا۔ ایک باساءُ جس کے معنی تنگی ترشی اور فقر و فاقہ کا دور ہے۔ دوسرے ضراء جس کے معنی جسمانی تکالیف اور بیماری کا دور ہے اور تیسرے حین الباس یعنی جنگ کے دوران بھی اور اس وقت بھی جب جنگ کے حالات پیدا ہوچکے ہوں اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں بسا اوقات انسان کے پائے ثبات میں لغزش آجاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بالخصوص ان مواقع کا ذکر فرما دیا۔- پھر جو لوگ ایفائے عہد یا بالفاظ دیگر ایفائے حقوق میں پورے اترتے ہیں اور کسی بھی مشکل سے مشکل وقت میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی تو ایسے ہی لوگ دراصل راست باز اور متقی کہلائے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت نازک حالات میں عہد کو پورا کر کے تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ثبت کردی ہیں۔ ہم یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کرسکتے صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔- ١۔ حضرت حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل (رض) (یہ حضرت یمان کی کنیت ہے) دونوں جنگ بدر میں شمولیت کے لیے جا رہے تھے کہ راستہ میں قریش مکہ کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے ان سے عہد لے کر چھوڑا کہ وہ غزوہ بدر میں حصہ نہیں لیں گے۔ چناچہ یہ دونوں صحابی قریش سے چھٹکارا حاصل کر کے میدان بدر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو واپس چلے جانے کا حکم دیا اور فرمایا تم اپنا عہد پورا کرو، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفا بالعہد) - ٢۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابو جندل پابہ زنجیر قریش مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے ابو جندل نے اپنے زخم دکھلا دکھلا کر اور اپنا دکھڑا سنا کر التجا کی کہ اب اسے کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ اس وقت تمام مسلمانوں کے جذبات یہ تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو ابو جندل کو اب کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو کافروں کے سفیر سہیل بن عمرو (جو ابو جندل کا باپ، تھا) کے حوالہ کیا۔ ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی اور راہ نکال دے گا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اھل الحرب) - ٣۔ عمرہ قضاء کے دوران قریش مکہ نے یہ گوارا نہ کیا کہ مسلمان ان کی آنکھوں کے سامنے آزادی سے عمرہ کے مناسک ادا کریں۔ چناچہ تین دن کے لیے شہر کو خالی کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے اگر کوئی دنیا دار جرنیل ہوتا تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتا تھا۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ خیال تک نہ آیا کہ اس سنہری موقع سے یہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عہد کو پورا کیا اور تین دن کے بعد مکہ سے واپسی کا سفر اختیار کرلیا۔- پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں نے جس طرح اس قسم کے عہد کو نبھایا وہ واقعات بھی بہت ہیں اور کتب تاریخ و سیر کی آج بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔- [ ٢٢١] (علیٰ حبہ) میں ہ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور اس ضمیر کا مرجع مال قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ اگر مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ کسی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، یا اپنی احتیاج کو روک کر خرچ کرنا، یا قحط اور گرانی کے ایام میں خرچ کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ اس کا محرک قوی جذبہ ہو اور یہ جذبہ اللہ کی محبت اور اس کی فرمانبرداری کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ لہذا بالفعل (علیٰ حبہ) میں بیک وقت دونوں مفہوم شامل ہوجاتے ہیں۔
مسلمانوں کو جب پہلے بیت المقدس اور پھر کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ بعض اہل کتاب اور بعض مسلمانوں پر شاق گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کے احکام کی فرماں برداری، جدھر وہ کہے ادھر رخ کرنا اور جو حکم وہ دے اس پر عمل کرنا ہے۔ یہ ہے اصل نیکی، تقویٰ اور کامل ایمان۔ رہا مشرق یا مغرب میں سے کسی طرف رخ کرنے کی پابندی، تو اس میں کوئی نیکی نہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے نہ ہو۔ (ابن کثیر)- وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ اس میں ” اٰمَنَ ‘ سے پہلے ” بِرُّ “ محذوف ہے، یعنی اصل نیکی اس شخص کی نیکی ہے۔ - یہ آیت نیکی کی تمام اقسام پر مشتمل ہے اور اس میں تمام بنیادی عقائد، اعمال اور اخلاق آگئے ہیں۔ امام بخاری (رض) نے اس آیت کو ” کِتَابُ الْاِیْمَانِ “ کے تحت ” بَابُ اُمُوْرِ الإِْیْمَانِ “ (قبل ح : ٩) “ میں ذکر فرمایا ہے کہ ایمان صرف عقائد کا نام نہیں، بلکہ اعمال بھی ایمان کا جز ہیں۔ - پہلے مال کی محبت کے باوجود اسے ذوی القربیٰ اور دوسرے مستحقین کو دینے کا ذکر فرمایا، بعد میں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا ذکر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے مال میں صرف زکوٰۃ ہی واجب نہیں کہ زکوٰۃ دینے کے بعد سارا سال بندہ فارغ ہوگیا، بلکہ ضرورت کے وقت مستحقین پر مال خرچ کرنا بھی واجب ہے، مثلاً ماں باپ اور دوسرے ضرورت مند رشتہ داروں کا نفقہ، مہمان پر خرچ، ضرورت مند ہمسائے، مجاہدین اور آیت میں مذکور دوسرے حضرات پر خرچ کرنا۔ ان کا ذکر زکوٰۃ سے پہلے اس لیے کیا کہ عام طور پر اس سے غفلت برتی جاتی ہے۔ - یتیم وہ ہے جس کا والد فوت ہوجائے اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یُتْمَ بَعْدَ احْتِلاَمٍ ) [ أبوداوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣، عن علی (رض) ] ” بلوغت کے بعد یتیمی نہیں۔ “ باقی مستحقین کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٦٠) ۔- (وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ ) یہ اور اس سے پہلے مذکور نیکی کرنے والوں سے متعلق سب صیغے ترکیب کی رو سے مرفوع ہیں، جب کہ ”ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ “ کی حالت نصبی ہے، اس کی حکمت مفسرین نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ مدح اور اختصاص کی بنا پر منصوب ہے، یعنی یہ ” اَمْدَحُ “ یا ” اَخُصُّ “ کا مفعول ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور خصوصاً جو تنگی میں۔ “ ” الْبَاْسَاۗءِ “ سے مراد فقر، بھوک، تنگ دستی، ” وَالضَّرَّاۗءِ “ سے مراد تکلیف، خصوصاً بیماری اور ” اَلْبَأْس “ سے مراد جنگ ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر نہایت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔
ربط از بیان القرآن :- شروع سورت سے یہاں تک تقریباً نصف سورة بقرہ ہے زیادہ روئے سخن منکرین کی طرف تھا کیونکہ سب سے اول قرآن کی حقانیت کا اثبات کیا اس ضمن میں اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے فرقوں کا ذکر کیا پھر توحید و رسالت کو ثابت کیا پھر اولاد ابراہیم (علیہ السلام) پر انعامات و احسانات کو وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ تک بیان فرمایا وہاں سے قبلہ کی بحث چلی اور اس کو بیان کرکے صفا ومروہ کی بحث پر ختم کیا،- پھر توحید کے اثبات کے بعد شرک کے اصول و فروع کا ابطال کیا اور یہاں تک یہی بیان ہوا اور ان سب مضامین میں ظاہر ہے کہ منکرین کو زیادہ تنبیہ ہے اور ضمناً کوئی خطاب مسلمانوں کو ہوجانا اور بات ہے،- اب آیات آئندہ میں کہ بقیہ تقریباً سورة بقرہ کا نصف ہے زیادہ تر مقصود مسلمانوں کو بعض اصول و فروع کی تو تعلیم کرنا ہے گو ضمناً غیر مسلمین کو بھی کوئی خطاب ہوجاوے اور یہ مضمون ختم سورة تک چلا گیا ہے جس کو شروع کیا گیا ہے ایک مجمل عنوان بِرّ سے لفظ برّ بکسر الباء عربی زبان میں مطلق خیر کے معنی میں ہے جو تمام ظاہری اور باطنی طاعات و خیرات کو جامع ہے اور اول آیات میں الفاظ جامعہ سے کلی اور اصولی تعلیم دی گئی ہے مثلاً ایمان بالکتاب وایتاء مال و وفاء عہد وصبر حین البأس وغیرہ جس میں قرآنی تمام احکام کے بنیادی اصول آگئے کیوں کہ شریعت کے کل احکام کا حاصل تین چیزیں ہیں، عقائد، اعمال، اخلاق، باقی تمام جزئیات انھیں کلیات کے تحت میں داخل ہیں اور اس آیت میں ان تینوں قسم کے بڑے بڑے شعبے آگئے،- آگے اس بِرّ کی تفصیل چلی ہے جس میں سے بہت سے احکام باقتضائے وقت ومقام مثل قصاص ووصیت و روزہ وجہاد وحج و انفاق وحیض وایلا، ویمین و طلاق ونکاح وعدت ومہر و تکرار ذکر جہاد و انفاق فی سبیل اللہ وبعض معاملات بیع وشراء و شہادت بقدر ضرورت بیان فرما کر بشارت و وعدہ رحمت و مغفرت پر ختم فرما دیا سبحان اللہ کیا بلیغ ترتیب ہے پس چونکہ ان مضامین کا حاصل بر کا بیان ہے اجمالاً وتفصیلاً اس لئے اگر اس مجموعہ کا لقب ابواب البِرّ رکھا جاوے تو نہایت زیبا ہے واللہ الموفق۔- خلاصہ تفسیر :- ابواب البر : - کچھ سارا کمال اسی میں نہیں (آگیا) کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو (کرلو) لیکن (اصلی) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ (کی) ذات وصفات پر یقین رکھے اور (اسی طرح) قیامت کے دن (آنے پر) پر (بھی) اور فرشتوں پر (بھی کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندے ہیں نور سے بنے ہیں گناہ سے معصوم ہیں کھانے پینے اور انسانی شہوات سے پاک ہیں) اور (سب) کتب (سماویہ) پر (بھی) اور (سب) پیغمبروں پر (بھی) اور (وہ شخص) مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں (اپنے حاجتمند) رشتہ داروں کو اور (نادار) یتیموں کو (یعنی جن بچوں کو ان کا باپ نابالغ چھوڑ کر مرگیا ہو) اور (دوسرے غریب) محتاجوں کو (بھی) اور (بےخرچ) مسافروں کو اور (لاچاری میں) سوال کرنے والوں کو اور (قیدی اور غلاموں کی) گردن چھڑانے میں (بھی مال خرچ کرتا ہو) اور (وہ شخص) نماز کی پابندی (بھی) رکھتا ہو اور (مقررہ) زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص (کہ ان عقائد و اعمال کے ساتھ یہ اخلاق بھی رکھتے ہوں کہ) اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب (کسی امر جائز کا) عہد کرلیں اور (اس صفت کو خصوصیت کے ساتھ کہوں گا کہ) وہ لوگ (ان مواقع میں) مستقل (مزاج) رہنے والے ہوں (ایک تو) تنگدستی میں اور (دوسرے) بیماری میں اور (تیسرے معرکہ) قتال (کفار) میں (یعنی پریشان اور کم ہمت نہ ہوں بس) یہ لوگ ہیں جو سچے (کمال کے ساتھ موصوف) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو (سچے) متقی (کہے جاسکتے) ہیں (غرض اصلی مقاصد اور کمالات دین کے یہ ہیں نماز میں کسی سمت کو منہ کرنا انہی کمالات مذکورہ میں سے ایک کمال خاص یعنی اقامت صلوۃ کے توابع اور شرائط میں سے ہے اور اس کے حسن سے اس میں حسن آگیا ورنہ اگر نماز نہ ہوتی تو کسی خاص سمت کو منہ کرنا بھی عبادت نہ ہوتا) - معارف و مسائل :- جب مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کردیا گیا تو یہود و نصاریٰ اور مشرکین جو اسلام اور مسلمانوں میں عیب جوئی کی فکر میں رہتے تھے ان میں بڑا شور وشغب ہوا اور طرح طرح سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام پر اعتراضات کا سلسلہ جاری کردیا جس کی جوابات پچھلی آیات میں بڑی توضیح و تفصیل کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔- ان آیات میں ایک خاص انداز سے اس بحث کو ختم کردیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تم نے سارا دین صرف اس بات میں منحصر کردیا کہ نماز میں انسان کا رخ مغرب کی طرف ہو یا مشرق کی، مراد اس سے مطلق جہات اور سمتیں ہیں یعنی تم نے صرف سمت وجہت کو دین کا مقصد بنا لیا اور ساری بحثیں اس میں دائر ہوگئیں گویا شریعت کا کوئی اور حکم ہی نہیں ہے،- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت کا خطاب یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب کے لئے ہو اور مراد یہ ہو کہ اصل بِرّ اور ثواب اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہے وہ جس طرف رخ کرنے کا حکم دیں وہی ثواب وصواب ہوجاتا ہے اپنی ذات کے اعتبار سے مشرق ومغرب یا کوئی جانب وجہت نہ کوئی اہمیت رکھتی ہے نہ ثواب بلکہ ثواب دراصل اطاعت حکم کا ہے جس جانب کا بھی حکم ہوجائے جب تک بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا وہ ثواب تھا اور جب بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا ارشاد ہوا تو اب وہی ثواب ہے،- جیسا کہ بسلسلہ ربط آیات بیان ہوچکا ہے کہ اس آیت سے سورة بقرہ کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے جس میں مسلمانوں کے لئے تعلیمات و ہدایات اصل ہیں مخالفین کے جوابات ضمنی، اسی لئے اس آیت کو احکام اسلامیہ کی ایک نہایت جامع آیت کہا گیا ہے۔ اس کے بعد بقرہ کے ختم تک تقریبا اسی آیت کی مزید تشریحات ہیں اس آیت میں اصولی طور سے تمام احکام شرعیہ، اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاق کا اجمالی ذکر آگیا ہے،- پہلی چیز اعتقادات ہیں اس کا ذکر مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ میں مفصل آگیا دوسری چیز اعمال یعنی عبادات اور معاملات ہیں ان میں سے عبادات کا ذکر وَاٰتَى الزَّكٰوةَ تک آگیا پھر معاملات کا ذکر والْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ سے کیا گیا پھر اخلاق کا ذکر والصّٰبِرِيْنَ سے کیا گیا آخر میں بتلا دیا کہ سچے مومن وہی لوگ ہیں جو ان تمام احکام کی پیروی مکمل کریں اور انہی کو تقویٰ شعار کہا جاسکتا ہے، - ان احکام کے بیان کرنے میں بہت سے بلیغ اشارات ہیں مثلا مال کو خرچ کرنے میں عَلٰي حُبِّهٖ کی قید لگا دی جس میں تین احتمال ہیں ایک یہ کہ حُبِّهٖ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ مال خرچ کرنے میں کوئی نفسانی غرض نام ونمود کی شامل نہ ہو بلکہ اخلاص کامل کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اس خرچ کرنے کا داعیہ ہو،- دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر مال کی طرف راجع ہو تو مراد یہ ہوگی کہ اللہ کی راہ میں وہ مال خرچ کرنا موجب ثواب ہے جو انسان کو محبوب ہو بیکار چیزیں جو پھینکنے کی تھیں ان کو دے کر صدقہ کا نام کرنا کوئی صدقہ نہیں اگرچہ پھینکنے کی نسبت سے بہتر یہی ہے کہ کسی کے کام آسکے تو اس کو دیدے۔- تیسرا حتمال یہ ہے کہ لفظ اٰتَى میں جو اس کا مصدر ایتاء مفہوم ہوتا ہے اس کی طرف ضمیر راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ وہ اپنے خرچ کرنے پر دل سے راضی ہو یہ نہ ہو کہ خرچ تو کر رہا ہے مگر اندر سے دل دکھ رہا ہے،- امام جصاص نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ تینوں ہی چیزیں مراد میں داخل ہوں پھر اس جگہ مال کے خرچ کرنے کی دو صورتیں مقدم بیان کردیں جو زکوٰۃ کے علاوہ ہیں زکوٰۃ کا ذکر اس کے بعد کیا شاید تقدیم کی وجہ یہ ہو کہ عام طور سے ان حقوق میں غفلت اور کوتاہی برتی جاتی ہے صرف زکوٰۃ ادا کردینے کا کافی سمجھ لیا جاتا ہے، - مسئلہ : اسی سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ مالی فرض صرف زکوٰۃ سے پورا نہیں ہوتا ہے زکوٰۃ کے علاوہ بھی بہت جگہ پر مال خرچ کرنا فرض وواجب ہوتا ہے (جصاص، قرطبی) - جیسے رشتہ داروں پر خرچ کرنا کہ جب وہ کمانے سے معذور ہوں تو نفقہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے کوئی مسکین غریب مر رہا ہے اور آپ اپنی زکوٰۃ ادا کرچکے ہیں مگر اس وقت مال خرچ کرکے اس کی جان بچانا فرض ہے۔- اسی طرح ضرورت کی جگہ مسجد بنانا دینی تعلیم کے لئے مدارس ومکاتب بنانا یہ سب فرائض مالی میں داخل ہیں فرق اتنا ہے کہ زکوٰۃ کا ایک خاص قانون ہے اس کے مطابق ہر حال میں زکوٰۃ کا ادا کرنا ضروری ہے اور یہ دوسرے مصارف ضرورت و حاجت پر موقوف ہیں جہاں ضرورت ہو خرچ کرنا فرض ہوجائے گا جہاں نہ ہو فرض نہیں ہوگا،- فائدہ : جن لوگوں پر مال خرچ کرنا ہے مثلا ذوی القربیٰ ، مساکین، مسافر، سوال کرنے والے فقیر، ان سب کو تو ایک انداز سے بیان فرمایا، پھر فِي الرِّقَاب میں حرف فی بڑھا کر اشارہ کردیا کہ مملوک غلاموں کو مال کا مالک بنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے مالک سے خرید کر ان کے آزاد کرنے پر خرچ کیا جائے اس کے بعد اَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ کا ذکر بھی اسی طریق پر آیا جیسے دوسری چیزوں کا ذکر ہے آگے معاملات کا باب بیان کرنا تھا اس میں اسلوب (طریق) بدل کر بجائے صیغہ ماضی استعمال کرنے کے والْمُوْفُوْنَ صیغہ اسم فاعل استعمال کیا اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس میں ایفاء عہد کی عادت دائمی ہونا چاہئے اتفاقی طور پر کوئی معاہدہ پورا کردے تو یہ ہر کافر فاجر بھی کبھی نہ کبھی کرتا ہے اس کا اعتبار نہیں اسی طرح معاملات کے باب میں صرف ایفائے عہد کا ذکر کیا گیا کیونکہ اگر غور کیا جائے تو تمام معاملات بیع وشراء اجارہ شرکت سب ہی کی روح ایفاء معاہدہ ہے، اسی طرح آگے اخلاق یعنی اعمال باطنہ کا ذکر کرنا تھا ان میں سے صرف صبر کو بیان کیا گیا کیونکہ صبر کے معنے ہیں نفس کو قابو میں رکھنے اور برائیوں سے بچانے کے اگر غور کیا جائے تو تمام اعمال باطنہ کی اصل روح صبر ہی ہے اسی کے ذریعہ اخلاق فاضلہ حاصل کئے جاسکتے اور اسی کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے،- ایک اور تغیر اسلوب بیان میں یہاں یہ کیا گیا کہ پہلے والْمُوْفُوْنَ ذکر کیا تھا یہاں والصّٰبِرُون نہیں بلکہ والصّٰبِرِيْنَ فرمایا حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ نصب علی المدح ہے جس کی مراد یہ ہے کہ اس جگہ لفظ مدح مقدر ہے اور صابرین اس کا مفعول ہے یعنی ان سب نیکوکار لوگوں میں خصوصیت سے قابل مدح صابرین ہیں کیونکہ صبر ہی ایک ایسا ملکہ اور ایسی قوت ہے جس سے تمام اعمال مذکورہ میں مدد لی جاسکتی ہے اس طرح آیت مذکورہ میں دین کے تمام شعبوں کے اہم اصول بھی آگئے ہیں اور بلیغ اشارات سے ہر ایک کی اہمیت کا درجہ بھی معلوم ہوگیا۔
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ٠ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ٠ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ٠ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ ٠ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ٠ ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ١٧٧- برَّ- ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8]- ( ب رر)- البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28]- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) - غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی اور حق - ارشاد باری ہے : لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب ( نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف) تا آخر آیت ۔ اس آیت کی تفسیر میں کہا گیا ہے اللہ سبحان، نے اس سے یہود و نصاریٰ مراد لیے ہیں۔ جب انہوں نے نسخ قبلہ کی بات تسلیم نہیں کی تو اللہ نے انہیں بتادیا کہ نیکی تو اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کے اتباع کے اندر ہے، مشرق یا مغرب کی طرف چہرے کرلینے کے اندر نہیں ہے جبکہ اس میں اللہ کے حکم کی پیروی موجود نہ ہو، نیز یہ کہ اب اللہ کی طاعت کعبہ کی طرف رخ کرنے میں ہے کیونکہ کسی اور طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ قول باری : ولکن المبر من امن باللہ والیوم الاخر ( لیکن نیکی تو اس کی ہے جو اللہ اور یو آخر پر ایمان لے آئے) کی تفسیر میں کہا گیا کہ یہاں ایک لفظ مخدوف ہے اور آیت کے معنی ہیں : نیکی اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لے آئے۔ ایک قول کے مطابق آیت سے مراد یہ ہے کہ نیکو کار وہ شخص ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے۔ جس طرح خنساء کا یہ شعر ہے۔ - توقع ما غفلت حتی اذا ادکرت فاز ماھی اقبال و ادبار - ( یہ اونٹنی جب تک غافل رہتی ہے چرتی رہتی ہے، حتی کہ جب اسے یاد آ جاتا ہے تو پھر آگے پیچھے سے آنے جانے کا سماں ہوتا ہے، یعنی پھر اونٹنی آگے پیچھے آتی جاتی ہے) ۔ قول باری ہے ( اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال خرچ کرے) یعنی نیکوکار وہ شخص ہے جو دلی رغبت سے مال خرچ کرے۔ ایک قول کے مطابق مراد یہ ہے کہ وہ اپنا دل پسند مال دے یعنی ایک مال سے محبت کے باوجود اسے دے دے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : لن تنالو البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون ( تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں ( خدا کی راہ) خرچ نہکرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو) ایک اور قول کے مطابق مفہوم یہ ہے : دلی محبت کے تحت مال دے اور دیتے وقت ناراضگی کا اظہار نہ کرے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ وہ : کہ وہ اللہ کی محبت میں مال دے جس طرح یہ قول باری ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی (کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو) آیت میں درج بالا تمام معانی مراد لینا جائز ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں جو روایت ہے وہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ کی مراد انفاق ہے۔ اس حدیث کی روایت جریر بن عبدالحمید نے عمارہ بن القعقاع سے۔ انہوں نے ابوزرعہ اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : تم صدقہ کرو جبکہ تم تندرست ہو، تمہیں فقرا اور تنگدستی کا خوف و اور مالداری کی امید ہو، اور اتنی دیر نہ کرو کہ جان حلق تک آ جائے اور اس وقت تم کہو کہ فلاں کے لیے اتنا ، فلاں کے لیے اتنا ( اس حالت میں تمہارے بغیر) وہ دوسروں کے لیے ہوچکا۔ ابوالقاسم عبداللہ بن اسحاق المروزی نے روایت بیان کی، ان سے الحسن بن ابی الربیع الجرجانی نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے الثوری نے ربید سے، انوں نے مُرہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے قول باری واتی المال علی حبہ کی تفسیر میں بیان کیا کہ تم مال خرچ کرو در آنی لی کہ تم تندرست ہو، تمہیں فراخی عیش کی امید ہو اور تنگدستی کا خوف ہو۔ قول باری : واتی المال علی خبح ذوی القربی ( اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں پر خرچ کرے) میں اتحمال ہے کہ اس سے صدقہ واجبہ مراد ہو۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ نفلی صدقہ مراد ہو، تا ہم آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ صدقہ واجبہ مراد ہے، بلکہ آیت میں تو صرف صدقہ کرنے پر ابھارا ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ ہے کیونکہ آیت میں زیادہ سے زیادہ یہی بات ہے کہ صدقہ نیکی ہے۔ یہ لفظ اپنے اندر فرض اور نفل دونوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ البتہ سیاق اور تلاوت کے تسلسل کے اندر زکوٰۃ مراد نہ ہونے پر دلالت موجود ہے، کیونکہ قول باری ہے : واقام الصلوۃ و اتی الزکوٰۃ ( اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دے) اس میں زکوٰۃ کو صلوٰۃ پر عطف کیا گیا جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے قبل ذکر ہونے والے صدقہ سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے۔ - بعض کا قول ہے کہ آیت میں وہ حقوق مراد ہیں جو زکوٰۃ کے سوا مال میں واجب ہوتے ہیں، مثلاً صلہ رحمی کا وجوب جب ایک شخص اپنے رشتہ دار کو سخت مالی پریشانی اور تنگدستی میں دیکھے تو اس پر اپنے اس رشتہ دار کی مدد واجب ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی درست ہے کہ آیت میں وہ شخص مراد ہے جو بھوک کے ہاتھوں اس قدر نڈھال ہوچکا ہو کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ ایسی صورت میں نیکو کار انسان پر اس کی اتنی مقدار میں مدد لازم ہوجاتی ہے جس سے اس کی بھوک رفع ہوجائے۔ شریک نے ابوحمزہ سے انہوں نے عامر سے، انہوں نے حضرت فاطمہ بن قیس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مال کے اندر زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : لیس البر ان تولو اوجوھکم تا آخر آیت۔ - سفیان ابوالزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ان میں بھی ایک حق ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نر اونٹ ( سانڈ) سے جفتی کرانا، آسانی سے قابو آنے والے اونٹ یا اونٹنی کسی کو عاریت کے طوقر دے دینا اور فربہ اونٹ یا اونٹنی کسی کو عطیے کے طور پر حوالے کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حدیثوں میں بیان کردیا کہ مال کے اندر زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق ہوتا ہے اور پہلی حدیث میں واضح کردیا کہ قول باری : لیس البر ان تولو وجوھکم ۔ تا آخر آیت کی ہی تاویل و تفسیر ہے۔ یہاں یہ کہنا درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد : ” مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے “ سے وہ صلہ رخمی مراد لی ہو جس کا لزوم تنگدست قریبی رشتہ داروں پر انفاق کی صورت میں ہوتا ہے اور حاکم اس انفاق کا حکم صادر کرتا ہے۔ جب ایک شخص کے والدین اور قریبی رشتہ دار فقیر ہوں اور کمانے کے قابل نہ ہو۔ یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ بھوکے اور مجبور شخص کو کھانا کھلانا لازم ہے نیز یہ کہنا بھی درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد سے ایسا حق مراد لیا ہے جو واجب نہیں ہے، لیکن اس کی طرف رغبت دلائی گئی ہے، یعنی مستحب حق کیونکہ آپ کا زیر بحث ارشاد وجوب کا مقتضی نہیں ہے اس لیے کہ بعض حقوق فرض ہوتے ہیں اور بعض مندوب الیہ یعنی مستحب۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن حماد بن سفیان نے، ان سے کثیر بن عبید نے، ان سے بقیہ نے بنی تمیم کے ایک شخص نے جس کی کنیت ابو عبداللہ ہے، انہوں نے الضبی سے ، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے مشروق سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زکوٰۃ نے ہر صدقے کو منسوخ کردیا ہے۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق التستری نے، انہیں علی بن سعید نے، انہیں المسیب بن شریک نے عبید المکتسب سے انہوں نے عامر شعبی سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہ : زکوٰۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا ہے۔ - اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث صحیح ہے، تو پھر تمام واجب صدقات زکوٰۃ کی بنا پر منسوخ سمجھے جائیں گے۔ اگر مذکورہ حدیث روای مجہول ہونے کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مرفوع صورت میں درست نہہو تو بھی حضرت علی (رض) سے مروی اثر سند کے اعتبار سے حسن ہے اور یہ بھی زکوٰۃ کی بنا پر ان صدقات کے نسخ کا اثبات واجب کرتا ہے جو واجب تھے۔ ایسی بات توقیف کے سوا کسی اور ذریعے سے معلوم نہیں ہوسکتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے یہ بات صرف اس بنا پر فرمائی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے انہیں اس کی اطلاع دی گئی تھی، اسی کا نام توقیف ہے۔ اس صورت میں منسوخ شدہ صدقات وہ صدقات ہوں گے جو ابتدا میں لوگوں پر ایسے اسباب کی بنا پر واجب تھے جو ان پر ان کی ادائیگی کے لزوم کے مقتضی تھے اور پھر زکوٰۃ کا حکم آنے پر منسوخ ہوگئے ۔ مثلاً یہ قول باری : واذا القسمۃ اولوا القربی و الیتامی والمساکین فارزقوھم منہ ( اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو ) اسی طرح کی روایت اس قول باری کے متعلق بھی ہے : والوا حقہ یوم حصادہ ( اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو) کہ یہ حکم بعض حضرات کے نزدیک عشر اور نصف عشر کے حکم کی بنا پر منسوخ ہوگیا ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کی بنا پر منسوخ ہوجانے والے درج بالا قسم کے حقوق ہیں جو ضرورت کے بغیر مال میں واجب تھے، لیکن لازم ہونے والے جن قحقو کا ہم نے ذکر کیا ہے مثلاً ذوی الارحام، یعنی قریبی رشتہ داروں پر انفاق ، جب وہ روزی کمانے سے عاجز ہوجائیں، یا مثلاً مضطر شخص کو کھانا کھلانے کا لزوم، تو یہ حقوق فرض اور لازم ہیں۔ زکوٰۃ کے حکم کی بنا پر منسوخ نہیں ہوئے۔ تمام فقہا کے نزدیک صدقہ فطر واجب ہے اور زکوٰۃ کے حکم کی بنا پر اس کی منسوخی نہیں ہوئی۔ حالانکہ ابتداء ہی اس کا وجوب اللہ کی جانب سے ہوا ہے اور بندے کی طرف سے کسی سبب کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ نے صدقہ فطر کو منسوخ نہیں کیا۔ الواقدی نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے ہی صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیا تھا،۔ پھر جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نہ تو حکم دیا اور نہ ہی انہیں روکا، تا ہم لوگ اپنے طور پر صدقہ فطر نکالتے رہے۔ - یہ روایت اگر درست بھی ہو تو پھر بھی صدقہ فطر کے منسوخ ہوجانے پر دلالت نہیں کرتی اس لیے کہ زکوٰۃ کا وجوب صدقہ قطر کے وجود کی بقا کی نفی نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں بہتر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت صدقہ فطر پر مقدم ہے کیونکہ سلف کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة حم السجدہ مکی سورت ہی اور یہ قرآن کے اوائل سورتوں میں شمارتی ہے۔ اس سورت میں تارک زکوٰۃ کے لیے وعید کا ذکر ہے، ارشاد ہے : وویل للمشرکین الذین لا یوتون الزکوٰۃ وھم بالاخرۃ لھم کافرونص مشرکوں کے لیے تباہی ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت کا کفر کرتے ہیں) جب کہ صدقہ فطر کا حکم مدینہ منورہ میں دیا گیا تھا، اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ زکوٰۃ کوی فرضیت صدقہ فطر کے حکم پر مقدم ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور مجاہد سے قول باری : واتوا حقہ یوم حصادہ ( اور اس ک کٹائی کے دن اس کا حق ادا کردو) کے بارے میں منقول ہے کہ یہ منسوخ نہیں، بلکہ محکم آیت ہے۔ اور ان حضرات کے نزدیک اس میں مذکورہ حق واجب اور زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ رہ گئے وہ حقوق جو ان اسباب کی بنا پر واجب ہوجاتے ہیں جن کا صدور بندوں کی طرف سے ہوتا ہے، مثلاً کفارات اور نذریں۔ - آیت میں مذکور مساکین کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اس پر ہم انشاء اللہ سورة برأت میں روشنی ڈالیں گے۔ آیت میں مذکور ابن السبیل کی تفیسر میں مجاہد سے مروی ہے کہ یہ مسافر ہے۔ قتادہ سے مروی ہے کہ یہ مہمان ہے۔ پہلا قول زیادہ مناسب ہے کیونکہ مسافر کو ابن السبیل اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ سفر کیا ندر راستے میں ہوتا ہے جس طرح مرغابی کو ابن ماء کہا جاتا ہے ، کیونکہ یہ پرندہ ہمیشہ پانی میں رہتا ہے۔ ذوالرمہ کا شعر ہے ۔ - وردت اعتسافاً والثریا کانھا علی قمۃ الراس ابن ماہ محلق - ( میں گھاٹ پر عشا کے وقت اترا۔ اس وقت ثیا ستارہ سر پر اس طرح تھا کہ گویا وہ منڈلانے والی مرغابی ہو) آیت میں مذکور سائلیں سے مراد وہ لوگ ہیں جو صدقے کے طلبگار ہوں۔ قول باری ہے : وفی الموالھم حق للسائل و المحروم ( اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے) عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی کہ ان سے معاذ بن المثنیٰ نے، ان سے محمد بن کثیر نے، ان سے سفیان نے، ان سے مصعب بن محمد نے، ان سے یعلیٰ بن ابی یحییٰ نے فاطمہ بنت حسین بن علی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سائل کا حق ہوتا ہے خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کیوں نہ آیا ہو۔ عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے عبید بن شریک نے، ان سے ابوالجماہر نے، ان سے عبداللہ بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سائل کو دو ، خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کیوں نہ آیا ہو۔ واللہ اعلم ۔
(١٧٧) نیکیاں اور ایمان صرف اسی کا نام نہیں کہ تم نماز میں بیت اللہ کی طرف منہ کرلو، ایمان تواقرار اور تصدیق کا نام ہے اور نیکو کار وہ مومن ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور مرنے کے بعد کی زندگی پر اور تمام فرشتوں اور تمام کتابوں اور تمام انبیاء کرام پر ایمان لائے، اور ایمان لانے کے بعد جو چیزیں ضروری ہوتی ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتے ہیں۔- کہ ایمان لانے کے بعد اصل نیکی یہ ہے کہ مال کی کمی اور خواہش کے باوجود اللہ تعالیٰ کی محبت میں رشتہ داروں اور مومن یتیموں اور ان مساکین کو جو مانگتے نہیں، اور ایسے مسافر کو جو کہ بطور مہمان کے آیا ہو اور سوال کرنے والوں کو اور مجاہدین کو اور غلاموں کی آزادی میں اپنا مال دے اور ان واجبات و احکام کے بعد جو احکام شرعیہ لوگوں پر لازم ہوتے ہوتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتے ہیں۔- کہ واجبات کے بعد نیکی پانچ وقت کی نمازوں کا قائم کرنا، زکوٰۃ اور صدقات کا دینا ہے اور ان وعدوں کا جو کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان ہیں اور اسی طرح ان وعدوں کا جو کہ انسانوں نے آپس میں کر رکھے ہیں پورا کرنا ہے اور جو حضرات مصیبتوں، پریشانیوں اور سختیوں کے وقت بیماریوں اور طرح طرح کی تکالیف اور بھوک کی شدت اور عین لڑائی کے موقع پر ثابت قدم رہتے ہیں، ان ہی حضرات نے وعدہ پورا کیا ہے اور یہ وعدہ خلافی سے بچے ہوئے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” لیس البر “۔ (الخ)- عبدالرزاق (رح) بواسطہ معمر (رح) ، قتادہ (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ یہود مغرب کی طرف منہ کر کے اور نصاری مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ بس نیکی اس چیز کا نام نہیں کہ مغرب یا مشرق کی طرف اپنا منہ پھیر لو، اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔- ابن جریر (رح) اور ابن منذر نے قتادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیکی کے بارے میں پوچھا کیا اس پر یہ آیت کریمہ ” لیس البر “۔ (الخ) نازل ہوئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو بلا کر اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی۔- اور یہ واقعہ احکام فرائض نازل ہونے سے پہلے کا ہے جب انسان صرف اس بات کی گواہی دے دیتا، کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور بات کی گواہی دے دیتا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں تو ایسے شخص کی بخشش کی امید ہوجاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” لیس البر “۔ (الخ) نازل فرمائی اور یہودیوں کا نماز میں قبلہ مغرب جبکہ نصاری کا مشرق تھا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ اس سورة مبارکہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں ‘ جیسے دو ‘ رکوع پہلے آیت الآیات گزر چکی ہے۔ اسی طرح سے اب یہ آیت البر آرہی ہے ‘ جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ ( ) ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے ‘ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑگیا اس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال : - اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے کچھ گل نے - چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری - یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کی جڑ بنیاد کیا ہے ‘ اس کی روح کیا ہے ‘ اس کے مظاہر کیا ہیں ؟ پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟ چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی ( ) کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویل قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع (١٥ تا ١٨) تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے : (وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط) (آیت ١١٥) ادھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آرہی ہے۔ فرمایا :- آیت ١٧٧ (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ) - اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ - (وَلٰکِنَّ الْبِرَّ ) - (مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج) ۔ - سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔ ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔ پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔ یوم آخرت کے بعد فرشتوں ‘ کتابوں اور انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔ یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔ - (وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ) - یعنی مال کی محبت کے علی الرغم۔ عَلٰی حُبِّہٖ میں ضمیر متصلّ اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے ‘ پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔ - (ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج) ۔ - گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو ‘ انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے ‘ حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو ‘ تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ سورة آل عمران (آیت ٩٢) میں الفاظ آئے ہیں : (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط) تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو ‘ جو کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو ‘ عزیز ہو ‘ اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ - (وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج) اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔ - حکمت دین ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روح دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر اوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ ) (٢٠)- یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔- یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہوگیا ‘ تو یہ ان کی خام خیالی ہے ‘ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔- ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ) (طٰہٰ ) نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہوگا ‘ تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو امید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چناچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا ؟ - (وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا ج) ۔ - انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو عہد الست کہلاتا ہے ‘ پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ معاملات انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے مابین ایک سماجی معاہدہ ( ) ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھّ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں ‘ بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہوجائے کہ جو عہد کرلیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے ‘ ان کی ہوجائے گی۔ - (وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط) ۔ - یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی ‘ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی ‘ بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔ اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔ اس راہ میں صحابہ کرام (رض) کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام (رض) نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظام اخلاق میں خیراعلیٰ ( )- کا ایک تصوّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے ‘ صداقت ‘ دیانت اور امانت کی بالادستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں : (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ) اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں (جام شہادت نوش کرلیں) انہیں مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعورحاصل نہیں ہے۔ - (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط) ۔ - راست بازی اور نیکوکاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے ‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ‘ ہیں۔ - (وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ۔ - ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اور خاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روح ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ (آمین یا رب العالمین)- اس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں ‘ جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :175 مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے ، دراصل مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے ، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے ۔
108: روئے سخن ان اہل کتاب کی طرف ہے جنہوں نے قبلے کے مسئلے پر بحث ومباحثہ اس انداز سے شروع کر رکھا تھا جیسے دین میں اس سے زیادہ اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ قبلے کے مسئلے کی جتنی وضاحت ضروری تھی وہ ہوچکی ہے، اب آپ کو دین کے دوسرے اہم مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اہل کتاب سے بھی یہ کہنا چاہئے کہ قبلے کے مسئلے پر بحث سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اپنا ایمان درست کرو اور وہ صفات پیدا کرو جو ایمان کو مطلوب ہیں، اس سلسلے میں آگے قرآن کریم نے نیکی کے مختلف شعبے بیان فرمائے ہیں اور اسلامی قانون کے محتلف احکام کی وضاحت کی ہے جو ایک ایک کرکے آگے آرہے ہیں۔