Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131۔ 1 یہ فضیلت و برگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت و فرماں برداری کا بےمثال نمونہ پیش کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” اَسْلَمَ یُسْلِمُ “ کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے سپرد کردینا اور وہی کرنا جو وہ کہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لیے اپنے مسلم ہونے کا اقرار کیا اور وجہ بھی ذکر فرمائی کہ رب العالمین ہونے کی وجہ سے یہ حق ہی اسی کا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اسلام یعنی اطاعت حق ہے وہ صرف اسلام میں منحصر ہے :- اس کے بعد دوسری آیت میں ملت ابراہیمی کے بنیادی اصول بتلائے گئے ارشاد ہوا۔- اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی جب فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب نے کہ اطاعت اختیار کرو تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اس طرز بیان میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اللہ جل شانہ کے خطاب اسلم کا جواب بظاہر خطاب ہی کے انداز میں یہ ہونا چاہئے کہ اَسْلَمْتُ لَکَ یعنی میں نے آپ کی اطاعت اختیار کرلی مگر حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اس طرز خطاب کو چھوڑ کر یوں عرض کیا کہ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی میں نے پروردگار عالم کی اطاعت اختیار کرلی ایک تو اس میں رعایت ادب کے ساتھ اور حق جل وعلا شانہ کی حمد وثناء شامل ہوگئی جس کا مقام تھا دوسری اس کا اظہار ہوگیا کہ میں نے جو اطاعت اختیار کی وہ کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ میرے لئے اس کا کرنا ہی ناگزیر تھا کیونکہ وہ رب العلمین یعنی سارے جہان کا پروردگار ہے سارے جہان اور جہان والوں کو اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں جس نے اطاعت اختیار کی اس نے اپنا فرض ادا کرکے اپنا نفع حاصل کیا اس میں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اور پوری حقیقت ایک لفظ اسلام میں مضمر ہے جس کے معنی ہیں اطاعت حق اور یہی خلاصہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذہب ومسلک کا اور یہی حاصل ہے ان امتحانات کا جن سے گزر کر اللہ تعالیٰ کا یہ خلیل اپنے مقام عالی تک پہنچا ہے اور اسلام یعنی اطاعت حق ہی وہ چیز ہے جس کے لئے یہ سارا جہاں بنایا گیا اور جس کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے آسمانی کتابیں نازل کی گئیں، - اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام ہی تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترک دین اور نقطہ وحدت ہے حضرت آدم سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہر آنے والے رسول اور نبی نے اسی کی طرف دعوت دی اسی میں اپنی اپنی امت کو چلایا قرآن کریم نے واضح الفاظ میں فرمایا،- ١۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (١٩: ٣) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے - ٢۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ (٨٥: ٣) اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرے وہ مقبول نہیں، - اور ظاہر ہے کہ جتنے دین و مذہب مختلف انبیاء (علیہم السلام) لائے ہیں وہ سب اپنے اپنے وقت میں اللہ کے نزدیک مقبول تھے اس لئے ضروری ہے کہ وہ سب دین دین اسلام ہی ہوں اگرچہ نام ان کا کچھ بھی رکھ دیا جائے، دین موسیٰ (علیہ السلام) وعیسیٰ (علیہ السلام) کہا جائے یا یہودیت ونصرانیت وغیرہ مگر حقیقت سب کی اسلام ہے جس کا حاصل اطاعت حق ہے البتہ اس میں ایک خصوصیت ملت ابراہیمی کو حاصل ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ملت کا نام بھی اسلام تجویز کیا اور اپنی امت کو بھی امت مسلمہ کا نام دیا دعا میں عرض کیا،- رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (١٢٨: ٢) اے ہمارے پروردگار بنادیجئے ہم دونوں (ابراہیم، اسمٰعیل) کو مسلم (یعنی اپنا فرمانبردار) اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا، اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،- فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (١٣٢: ٢) تم بجز مسلم ہونے کے کسی مذہب پر جان نہ دینا۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد یہ خصوصی امتیاز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی تجویز کے مطابق امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کو حاصل ہوا کہ اس کا نام امت مسلمہ رکھا گیا اور اس کی ملت بھی ملت اسلامیہ کے نام سے معروف ہوئی قرآن کریم کا ارشاد ہے،- مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا (٧٨: ٢٢) تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم رہو اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے پہلے بھی اور اس میں بھی (یعنی قرآن میں) - کہنے کو تو یہود بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیم (علیہ السلام) پر ہیں نصاریٰ بھی اور مشرکین عرب بھی لیکن یہ سب غلط فہمی یا جھوٹے دعوے تھے حقیقت میں ملت محمدیہ ہی آخری دور میں ملت ابراہیمی اور دین فطرت کے مطابق تھی، - خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے اور جتنی کتابیں اور شرائع نازل ہوئے ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں فرمان حق کی اطاعت اور اتباع ہوٰی کو چھوڑ کر اتباع ہدیٰ کی پابندی، - افسوس ہے کہ آج اسلام کا نام لینے والے لاکھوں مسلمان بھی اس حقیقت سے بیگانہ ہوگئی اور دین و مذہب کے نام پر بھی اپنی خواہشات کا اتباع کرنا چاہتے ہیں انھیں قرآن و حدیث کی صرف وہ تفسیر و تعبیر بھلی ہوتی ہے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ورنہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جامہ شریعت کو کھینچ تان کر بلکہ چیر پھاڑ کر اپنی اغراض اور اہوا نفسانی کے بتوں کا لباس بنادیں کہ دیکھنے میں دین و مذہب کا اتباع نظر آئے اگرچہ وہ حقیقت میں خالص اتباع ہویٰ اور خواہشات کی پیروی ہے،- سو وہ شد از سجدہ راہ بتاں پیشانیم - چند بر خود تہمت دین مسلمانی نہم - غافل انسان یہ نہیں جانتا کہ یہ حیلے اور تاویلیں مخلوق کے سامنے تو چل سکتی ہیں مگر خالق کے سامنے جس کا علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے جو دلوں کے چھپے ہوئے ارادوں بھیدوں کو دیکھتا اور جانتا ہے اس کے آگے بجز خالص اطاعت کے کوئی چیز کارگر نہیں، - کارہا با خلق آری جملہ راست - با خدا تزویر وحیلہ کے رد است - حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنی اغراض اور خواہشات سے بالکل خالی الذہن ہو کر انسان کو اس کی تلاش ہو کہ حضرت حق جل شانہ کی رضا کس کام میں ہے اور اس کا فرمان میرے لئے کیا ہے وہ ایک فرنبردار غلام کی طرح گوش برآواز رہے کہ کس طرف جانے کا اور کس کام کا حکم ہوتا ہے اور اس کام کو کس انداز سے کیا جائے جس سے وہ مقبول ہوا اور میرا مالک راضی ہو اسی کا نام عبادت و بندگی ہے،- در راہ عشق وسوسہ اہرمن بسے ست - ہشدار وگوش رابہ پیام سروش دار - اسی جذبہ اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے جس کو مقام عبدیت کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کا خطاب پاتے ہیں اور سید الرسل خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبدنا کا خطاب ملتا ہے اسی عبدیت اور اطاعت کے ذیلی درجات پر امت کے اولیاء اقطاب وابدال کے درجات دائر ہوتے ہیں اور یہی حقیقی توحید ہے جس کے حاصل ہونے پر انسان کے خوف وامید صرف ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں،- امید و ہراسش نباشد زکس - ہمیں ست بنیاد توحید وبس - غرض اسلام کے معنی اور حقیقت اطاعت حق ہے اور اس کا راستہ صرف اتباع سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں منحصر ہے جس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس طرح ارشاد فرمایا - فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (٦٥: ٤) - تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک وہ آپ کو اپنے تمام اختلافی معاملات میں حاکم تسلیم نہ کرلیں اور پھر آپ کے فیصلہ سے کوئی دلی تنگی محسوس نہ کریں اور فیصلہ کو ٹھنڈے دل سے تسلیم نہ کریں، - مسئلہ : آیت مذکورہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی اور ان سے عہد لیا وہ یہ تھا کہ اسلام کے سوا اور کسی حالت اور کسی ملت پر نہ مرنا مراد اس کی یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پر پختگی سے عمل کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارا خاتمہ بھی اسلام پر فرما دے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس حالت کے پابند رہو گے اسی حالت پر تمہاری موت بھی ہوگی اور اسی حالت میں محشر میں قائم ہوگے اللہ جل شانہ کی عادت یہی ہے کہ جو بندہ نیکی کا قصد کرتا ہے اور اس کے لئے اپنے مقدور کے مطابق کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق دیدیتے ہیں اور یہ کام اس کے لئے آسان کردیتے ہیں، - اس معا ملہ میں اس حدیث سے شبہ نہ کیا جائے جس میں یہ ارشاد ہے کہ بعض آدمی جنت کے کام اور اہل جنت کا عمل ہمیشہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس شخص اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فیصلہ رہ جاتا ہے مگر پھر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور اہل دوزخ کے سے کام کرنے لگتا ہے اور انجام کار دوزخ میں جاتا ہے اسی طرح بعض آدمی دوزخ کے کام میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر غالب آتی ہے اور آخر عمر میں اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے، - وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ قید بھی لگی ہوئی ہے کہ فیما یبدو للناس یعنی جس نے عمر بھر جنت کے کام کئے اور آخر میں دوزخ کے کام میں لگا درحقیقت اس کے پہلے کام بھی دوزخ ہی کے عمل تھے مگر لوگوں کے ظاہر میں اور دیکھنے میں وہ اہل جنت کے عمل معلوم ہوتے تھے اسی طرح جو دوزخ کے اعمال میں مشغول رہا آخر میں جنت کے کام کرنے لگا درحقیقت وہ اول ہی سے جنت کے کام میں تھا مگر ظاہر نظر میں لوگ اس کو گناہگار سمجھتے تھے (ابن کثیر) - خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی نیک کام میں مشغول رہے اس کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور عادت کی بناء پر یہی امید رکھنی چاہئے کہ اس کا خاتمہ بھی نیکی پر ہوگا،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ۝ ٠ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٣١- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣١) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سرنگ سے نکلے تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اپنے قول کو لوٹاؤ اور لاالہ الا اللہ “۔ پڑھو چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں نے اپنی تمام باتوں کو اس ذات وحدہ لاشریک کی طرف موڑ دیا ہے جو کہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اپنے دین اور عمل کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرلو، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا تابع و فرمانبردار ہوگیا اور اپنے دین و عمل سب ہی کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرلیا۔- اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو ان سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اپنے نفس کو میرے سپرد کرو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں نے اپنے نفس کو اس اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣١ (اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْلا قالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) - یہاں تک کہ اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم آیا تو اس پر بھی سرتسلیم خم کردیا۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سلسلۂ امتحانات کا آخری امتحان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کا سو برس کی عمر میں لیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ مانگ کر ستاسی برس کی عمر میں بیٹا (اسماعیل ( (علیہ السلام) ) لیا تھا اور اب وہ تیرہ برس کا ہوچکا تھا ‘ باپ کا دست وبازو بن گیا تھا۔ اس وقت اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا تو آپ ( علیہ السلام) فوراً تیار ہوگئے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارا حکم مانو تو اسے حکم برداری کے لیے سراپا تیار پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس طرز عمل کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :130 مُسْلِم: وہ جو خدا کے آگے سرِ اطاعت خَم کر دے ، خدا ہی کو اپنا مالک ، آقا ، حاکم اور معبُود مان لے ، جو اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے سپرد کردے اور اس ہدایت کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے ، جو خدا کی طرف سے آئی ہو ۔ اس عقیدے اور اس طرزِ عمل کا نام ”اسلام“ ہے اور یہی تمام انبیا کا دین تھا جو ابتدائے آفرینش سے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

85: یہاں سر تسلیم خم کے نے کے لئے قرآن کریم نے ’’ اسلام‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہوجانے کے ہیں۔ ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے۔ حضرت ابراہیم چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔ اس لئے وہاں لفظ ’’ مسلم‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے۔