نصاریٰ اور یہودی مکافات عمل کا شکار اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے ، بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لئے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی ، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لئے بھی کہ بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبتہ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طوی میں آپ کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبتہ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاری کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے ۔ لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے ، ابن زید اور حضرت عباس کا قول بھی یہی ہے اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی حضرت مسیح کے دین پر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا ۔ امام ابن جریر کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے؟ خود قرآن میں موجود ہے آیت ( وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) 8 ۔ الانفال:34 ) اور جگہ فرمایا آیت ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ) 9 ۔ التوبہ:17 ) یعنی یہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں مشرکوں سے اللہ کی مسجدیں آباد نہیں ہو سکتیں جو اپنے کفر کے خود گواہ ہیں جن کے اعمال غارت ہیں اور جو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہیں مسجدوں کی آبادی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے اور نماز و زکوٰۃ کے پابند اور صرف اللہ ہی سے ڈرنے والے ہیں یہی لوگ راہ راست والے ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ ) 48 ۔ الفتح:25 ) ان لوگوں نے بھی کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے بھی روکا اور قربانیوں کو ان کے ذبح ہونے کی جگہ تک نہ پہنچنے دیا اگر ہمیں ان مومن مردوں عورتوں کا خیال نہ ہوتا جو اپنی ضعیفی اور کم قوتی کے باعث مکہ سے نہیں نکل سکے ۔ جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو تو ہم تمہیں ان سے لڑ کر ان کے غارت کر دینے کا حکم دیتے لیکن یہ بےگناہ مسلمان پیس نہ دیئے جائیں اس لئے ہم نے سردست یہ حکم نہیں دیا لیکن یہ کفار اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب ان پر ہمارے درد ناک عذاب برس پڑیں ۔ پس جب وہ مسلمان ہستیں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کونسی کمی رہ گئی؟ مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بےخوفی اور بےباکی کے ساتھ بیت اللہ میں نہ آنے دو ہم تمہیں غالب کر دیں گے اس وقت یہی کرنا چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ) 9 ۔ التوبہ:28 ) یعنی مشرک لوگ نجس ہیں اس سال کے بعد انہیں مسجد حرام میں نہ آنے دو اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گے چنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے الحمد اللہ کہ اس امت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مسجدوں کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن وانس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے ۔ ان کافر پر دنیا کی رسوائی بھی آئی ، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے ، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں ۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ اور اگر اس سے مراد نصرانی لئے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بےحرمتی کی تھی ، بالخصوص اس صخرہ ( پتھر ) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے ۔ دعا ( اللھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا واجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرۃ ) اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے ۔ یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بشر بن ارطاۃ صحابی ہیں ۔ ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں ۔
114۔ 1 جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں ؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ ملکر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا، جنہوں نے ایک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباو اجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ 114۔ 2 تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ 114۔ 3 یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا۔ چناچہ جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدہ کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا کہ یہ خوشخبری ہے اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہونگے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر زیادتیاں کی ہیں انکے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یا قتل کردیا جائے۔ چناچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔
[١٣٤] جب نصاریٰ یہود پر غالب ہوئے تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور دور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مشرکین مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ سے روک دیا۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی مساجد کی رونق اور آبادی کے بجائے ان کی بربادی کے درپے ہوئے اور یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو قطعاً گوارا نہیں۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ کی یہ پابندی ختم ہوئی اور بیت المقدس کو عہد فاروقی (رض) میں مسلمانوں نے عیسائیوں سے آزاد کرا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس حکم سے منشا یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے متولی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنے والے اور اسی سے ڈرنے والے ہونے چاہئیں تاکہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں تو انہیں خوف ہو کہ اگر شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔ لیکن جو لوگ خلوص نیت سے عبادت کے لیے مساجد میں داخل ہوں۔ انہیں کسی وقت بھی مساجد میں داخل ہونے سے روکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی عبادت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اپنے گروہ کو حق پر اور اپنے سوا سب کو غلط قرار دینے والے یہ سب لوگ غور کریں کہ ظلم کے ناجائز ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام مشرکین مکہ نے کیا کہ مسلمانوں کو پہلے مکہ سے نکالا، پھر ان کا مکہ میں داخلہ حتیٰ کہ حج و عمرہ کے لیے آنا بند کردیا۔ ان سے پہلے نصاریٰ کا ٹائٹس کے زمانے میں بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو انھوں نے یہودیوں کا داخلہ بیت المقدس میں بند کردیا، یہ کیسی حق پرستی ہے ؟- (اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ) یعنی ایسے ظالم لوگوں کا اللہ کی مساجد کا متولی ہونا تو درکنار، ان کا تو داخلہ بھی ڈرتے ہوئے ہونا چاہیے کہ انھوں نے کوئی شرارت کی تو سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ایک رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا، یہودو نصاریٰ اور مشرکین تینوں نے اپنے کیے کی سزا پائی، کعبہ اور بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ چونکہ مسجدیں اللہ کی ہیں اور حق یہ ہے کہ ان میں صرف اللہ کا نام لیا جائے، اس لیے تمام مشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے روک دیا گیا، خواہ وہ بت پرست ہوں یا عزیر و مسیح پرست، کیونکہ وہ اکیلے اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ اب مسلمانوں میں وہی پہلی قوموں والے مشرکانہ عقائد و اعمال پھیل گئے اور وہ بدعمل ہو کر جہاد چھوڑ بیٹھے، تو بیت المقدس پھر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوبارہ توحید و سنت اور جہاد فی سبیل اللہ پر گامزن فرمائے اور بیت المقدس کی تولیت کا شرف عطا فرمائے۔
خلاصہ تفسیر :- (یہود تو قبلہ کا حکم بدلنے کے وقت طرح طرح کے اعتراض کرکے کم سمجھ لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتے تھے اگر وہ شبہات عام طور پر قلوب میں اثر کرتے تو ان کا لازمی نتیجہ انکار رسالت اور ترک نماز نکلتا اور ترک نماز سے مسجد کی ویرانی لازم ہے تو گویا یہ یہودی اس طور سے ترک نماز اور ویرانی مساجد خصوصاً مسجد نبوی میں بھی کوشاں تھے اور روم کے بعض سلاطین جو نصاریٰ ان کے افعال کا انکار بھی نہ کرتے تھے گو وہ نصرانی نہ ہوں کسی زمانے میں یہود وشام پر چڑھ آئے تھے قتل و قتال بھی ہوا اور اس وقت بعض جہلاء کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی بےحرمتی بھی ہوئی اور بدامنی کی وجہ سے اس میں نماز وغیرہ کا اہتمام بھی نہ ہوا اس طور پر نصاری کے اسلاف ترک نماز اور ویرانی مسجد کے بانی ہوئے اور نصاریٰ پر بوجہ عدم انکار اس کا الزام دیا گیا اس بادشاہ کا نام طیطس تھا اور نصاریٰ کو یہ قصہ اس لئے ناگوار نہ تھا کہ اس میں یہودیوں کی تذلیل ہوئی تھی اور یہود سے عداوت رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ سے پہلے جب مکہ معظمہ میں داخل ہو کر مسجد الحرام کا طواف اور نماز ادا فرمانی چاہی تو مشرکین مکہ نے آپ کو نہ جانے دیا یہاں تک کہ آپ اس سال واپس تشریف لے آئے تو اس طرح یہ مشرکین بھی مسجد حرام کی ویرانی میں کوشاں ہوئے اس لئے حق تعالیٰ نے صیغہ عموم سے اس کی قباحت اور برائی ظاہر فرمائی یعنی) اور اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہوگا جو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں (جس میں مکہ کی مسجد حرام، مدینہ کی مسجد بیت المقدس کی مسجد اور سب مسجدیں آگئیں) ان کا ذکر (اور عبادت) کئے جانے سے بندش کرے اور ان (مساجد) کے ویران (اور معطل) ہونے (کے بارے) میں کوشش کرے ان لوگوں کو تو کبھی بےہیبت ( اور بیباک) ہو کر ان (مساجد) میں قدم بھی نہ رکھنا چاہئے تھا (بلکہ جب جاتے تو نہایت عظمت و حرمت وادب سے جاتے جب بیباک ہو کر اندر جانے تک کا استحقاق نہیں تو اس کی ہتک حرمت کا حق کب حاصل ہے اسی کو ظلم فرمایا گیا) ان لوگوں کو دنیا میں بھی رسوائی (نصیب) ہوگی اور ان کو آخرت میں بھی سزائے عظیم ہوگی،- (یہود نے تبدیل قبلہ کے حکم پر اعتراض کیا تھا کہ مسلمان اس جہت سے دوسری جہت کی طرف کیوں پھرگئے اس کا جواب حق تعالیٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں یعنی) اور اللہ ہی کی مملوک ہیں (سب جہتیں) مشرق بھی اور مغرب بھی (اور وہ اس کا مکان نہیں) - (پس جب وہ مالک ہیں جس کو چاہیں قبلہ مقرر کردیں کیونکہ حکمت تعیین قبلہ میں مثلاً عابدین کا اتفاق ہیئت اور اجتماع خاطر ہے اور یہ حکمت ہر جہت سے حاصل ہوسکتی ہے جس کا حکم دیدیں وہی متعین ہوجائے گی ہاں البتہ اگر معبود کی ذات نعوذ باللہ کسی جہت خاص کے ساتھ مقید ہوتی تو ضرورت کی وجہ سے اسی جہت میں قبلہ عبادت بننے کا انحصار زیبا تھا لیکن وہ ذات پاک کسی جہت کے ساتھ مقید و محدود نہیں جب یہ بات ہے) تو تم لوگ جس طرف منہ کرو ادھر (ہی) اللہ تعالیٰ کی (ذات پاک) کا رخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ (خود تمام جہات اور اشیاء کو) محیط ہیں (جس طرح کا احاطہ ان کی شان کے لائق ہے لیکن باوجود محیط وغیر محدود ہونے کے پھر بھی جہت عبادت کو متعین اس لئے فرمایا کہ وہ) کامل العلم ہیں (کہ ہر شے کے مصالح کو خوب جانتے ہیں چونکہ ان کے علم میں یہ تعیین بعض مصالح سے تھی اس لئے اس کا حکم دیدیا) - فوائد از بیان القرآن :- ١۔ ویرانی مساجد میں کوشاں گروہ کی دنیا میں تو یہ رسوائی ہوئی کہ یہ ساری قومیں اسلامی سلطنت کی رعایا اور باج گذار ہوئیں اور عذاب آخرت تو کافر ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے ہی اور ویرانی مساجد میں کوشش کے سبب یہ عذاب اور بھی سخت وشدید ہوجائے گا، اور اوپر کی آیت میں جو ان تینوں فرقوں کے حق پر ہونے کا دعویٰ مذکور ہوا تھا اس قصہ سے اس کی تردید کا ایک گونہ مفہوم بھی نکل آیا کہ ایسے ایسے افعال کرکے صاحب حق ہونے کا دعویٰ بڑے شرم کی بات ہے،- ٢۔ تعیین قبلہ کی جو ایک حکمت بطور مثال اوپر بیان کی گئی اس سے بعض مخالفین اسلام کا یہ اعتراض کہ مسلمان کعبہ پرست ہیں بالکل اٹھ گیا،- جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ عبادت و پرستش تو خدا تعالیٰ کی ہے لیکن عبادت کے وقت یکسوئی قلب کی ضرورت ہے نیز عابدین کی ہیئت اجتماعیہ کو بھی اس یکسوئی میں دخل ہے چناچہ یہ دونوں باتیں تجربہ و مشاہدہ سے ثابت ہیں اس لئے اس یکسوئی اور اجتماع ہیئت حاصل کرنے میں تعیین جہت مشروع ہوئی لہذا اس اعتراض وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں،- اور اگر اس پر کوئی اپنی برات کے لئے یہ دعویٰ کرے کہ ہم بھی بتوں کو سامنے اسی قصد وغرض سے رکھتے ہیں تو اول تو اپنی برأت کے دعوے سے مسلمانوں پر مذکورہ اعتراض نہیں لوٹتا وہ بدستور مرتفع رہا جو اس مقام پر مقصود اصلی ہے،- ثانیاً عام مسلمانوں اور عام کافروں کی حالت تفتیش کرنے سے عدم پرستش کے دعوے میں مسلمانوں کا راست گو ہونا اور دوسروں کا دروغ گو ہونا ہر وقت ہر شخص کو معلوم ہوسکتا ہے،- تیسرے علیٰ سبیل التنزل کہا جاتا ہے کہ اگر اس دعوے کی سچائی مان بھی لی جائے پھر بھی اس تعیین اور تقیید کے لئے کسی غیر منسوخ شریعت کا حکم پیش کرنا لازم ہے اور یہ بجز اہل اسلام کے دوسروں کے پاس مفقود ہے، اور ترجمہ و تفسیر کے ضمن میں بیان حکمت کے لئے جو لفظ مثلاً اضافہ کیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ احکام خداوندی کی حکمتیں اور مصلحتیں انحصار اور استیعاب کے ساتھ کسی کے ادراک میں نہیں آسکتیں سو اس حکم میں بھی ہزاروں حکمتیں ہوں گی ایک دو کے سمجھ جانے سے ان میں انحصار اور دوسروں کی نفی نہیں ہوسکتی،- ٣۔ اور یہ جو فرمایا ہے ادھر ہی اللہ تعالیٰ کا رخ ہے اور اسی طرح یہ جو فرمایا ہے کہ وہ محیط ہے اور ایسے ہی جو مضامین ہوں ان سب میں زیادہ کھود کرید نہ کرنی چاہئے کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا پورا ادراک کسی بندہ سے ممکن نہیں اسی طرح اس کی صفات کی حقیقت بھی فہم سے خارج ہے۔- اجمالاً ان سب پر ایمان لے آوے اس سے زیادہ کا انسان مکلف نہیں، - عنقا شکار کس نشود دام باز چین - کا ینجا ہمیشہ باد بدست است دام را - معارف و مسائل :- ان دو آیتوں میں دو اہم مسئلوں کا بیان ہے پہلی آیت ایک خاص واقعہ کے متعلق نازل ہوئی ہے،- واقعہ یہ ہے کہ زمانہ اسلام سے پہلے جب یہودیوں نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالا تو روم کے نصاریٰ نے ان سے انتقام لینے کی خاطر عراق کے ایک مجوسی بادشاہ کے ساتھ مل کر اپنے بادشاہ طیطوس کی سر کردگی میں شام کے بنی اسرائیل پر حملہ کرکے ان کو قتل و غارت کیا اور تورات کے نسخے جلا ڈالے بیت المقدس میں نجاسات اور خنزیر ڈال دیئے اس کی عمارت کو خراب ویران کردیا بنی اسرائیل کی قوت و شوکت کو بالکل پامال اور ختم کردیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک تک بیت المقدس اسی طرح ویران منہدم پڑا تھا، - حضرت فاروق اعظم کے عہد میں جب شام و عراق فتح ہوئے تو آپ کے حکم سے بیت المقدس کی دربارہ تعمیر کرائی گئی زمانہ دراز تک پورا ملک شام وبیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا پھر ایک عرصہ کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا اور تقریباً سو سال یورپ کے عیسائیوں کا اس پر قبضہ رہا تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے پھر اس کو فتح کیا رومی نصاری کی اس گستاخانہ حرکت پر کہ تورات کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب ویران کرکے اس کی بےحرمتی کی یہ آیت نازل ہوئی، - یہ قول مفسرا لقرآن حضرت عبداللہ بن عباس کا ہے اور حضرت ابن زید وغیرہ دوسرے مفسرین نے آیت کا شان نزول یہ بتلایا ہے جب مشرکین مکہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مسجد حرام میں داخل ہونے اور طواف کرنے سے روک دیا تو یہ آیت نازل ہوئی ابن جریر نے پہلی روایت کو اور ابن کثیر نے دوسری کو ترجیح دی ہے،- بہرحال آیت کا شان نزول تو مفسرین کے نزدیک ان دونوں واقعوں میں سے کوئی خاص واقعہ ہے مگر اس کا بیان عام لفظوں میں ایک مستقل ضابطہ اور قانون کے الفاظ میں فرمایا گیا ہے تاکہ یہ حکم انہی نصاریٰ یا مشرکین وغیرہ کے لئے مخصوص نہ سمجھا جائے بلکہ تمام اقوام عالم کے لئے عام رہے یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں خاص بیت المقدس کا نام لینے کے بجائے مساجد اللہ فرما کر تمام مساجد پر اس حکم کو عام کردیا گیا اور آیت کا مضمون یہ ہوگیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی مسجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے سے روکے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے مسجد ویران ہوجائے تو وہ بہت بڑا ظالم ہے۔- مساجد اللہ کی عظمت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ان میں جو شخص داخل ہو ہیبت و عظمت اور خشوع و خضوع کے ساتھ داخل ہو جیسے کسی شاہی دربار میں داخل ہوتے ہیں۔- اس آیت سے جو چند ضروری مسائل و احکام نکلے ان کی تفصیل یہ ہے،- اول یہ کہ دنیا کی تمام مساجد آداب مسجد کے لحاظ سے مساوی ہیں جیسے بیت المقدس، مسجد حرام یا مسجد نبوی کی بےحرمتی ظلم عظیم ہے اسی طرح دوسری تمام مساجد کے متعلق بھی یہی حکم ہے اگرچہ ان تینوں مساجد کی خاص بزرگی و عظمت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر اور مسجد نبوی ونیز بیت المقدس میں پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے ان تینوں مساجد میں نماز پڑھنے کی خاطر دور دراز ملکوں سے سفر کرکے پہنچنا موجب ثواب عظیم اور باعث برکات ہے بخلاف دوسری مساجد کے کہ ان تینوں کے علاوہ کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے کو افضل جان کر اس کے لئے دوسرے سفر کرکے آنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے ،- دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ مسجد میں ذکر و نماز سے روکنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں ان میں سے ایک صورت تو یہ کھلی ہوئی ہے ہی کہ کسی کو مسجد میں جانے سے یا وہاں نماز و تلاوت سے صراحۃ روکا جائے دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں شور وشغب کرکے یا اس کے قرب و جوار میں باجے گاجے بجا کر لوگوں کی نماز وذکر وغیرہ میں خلل ڈالے یہ بھی ذکر اللہ سے روکنے میں داخل ہے،- اسی طرح اوقات نماز میں جبکہ لوگ اپنی نوافل یا تسبیح و تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں مسجد میں کوئی بلند آواز سے تلاوت یا ذکر بالجہر کرنے لگے تو یہ بھی نمازیوں کی نماز و تسبیح میں خلل ڈالنے اور ایک حیثیت سے ذکر اللہ کو روکنے کی صورت ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے ہاں جب مسجد عام نمازیوں سے خالی ہو اس وقت ذکر یا تلاوت جہر کا مضائقہ نہیں، اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا جس وقت لوگ نماز و تسبیح وغیرہ میں مشغول ہوں مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا یا کسی دینی کام کے لئے چندہ کرنا بھی ایسے وقت ممنوع ہے،- تیسرا مسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ مسجد کی ویرانی کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب حرام ہوں اس میں جس طرح کھلے طور پر مسجد کو منہدم اور ویران کرنا داخل ہے اسی طرح ایسے اسباب پیدا کرنا بھی اس میں داخل ہے جن کی وجہ سے مسجد ویران ہوجائے اور مسجد کی ویرانی یہ ہے کہ وہاں نماز کے لئے لوگ نہ آئیں یا کم ہوجائیں کیونکہ مسجد کی تعمیر وآبادی دراصل درودیوار یا ان کے نقش ونگار سے نہیں بلکہ ان میں اللہ کا ذکر کرنے والوں سے ہے اسی لئے قرآن شریف میں ایک جگہ ارشاد ہے،- اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ (١٨: ٩) یعنی اصل میں مسجد کی آبادی ان لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور روز قیامت پر اور نماز قائم کریں زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں،- اسی لئے حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قرب قیامت میں مسلمان کی مسجدیں بظاہر آباد اور مزین وخوب صورت ہوں گی مگر حقیقتاً ویران ہوں گی کہ ان میں حاضر ہونے والے نمازی کم ہوجائیں گے،- حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے کہ شرافت و انسانیت کے چھ کام ہیں تین حضر کے اور تین سفر کے۔ حضر کے تین یہ ہیں تلاوت قرآن کرنا، مسجدوں کو آباد کرنا، ایسے دوستوں کی جمیعت بنانا جو اللہ تعالیٰ اور دین کے کاموں میں امداد کریں اور سفر کے تین کام یہ ہیں اپنے توشہ سے غریب ساتھیوں پر خرچ کرنا، حسن خلق سے پیش آنا اور رفقائے سفر کے ساتھ ہنسی خوشی، تفریح وخوش طبعی کا طرز عمل رکھنا بشرطیکہ یہ خوش طبعی گناہ کی حد میں داخل نہ ہوجائے،- حضرت علی (رض) کے اس ارشاد میں مسجدوں کے آباد کرنے کا مطلب یہی ہے کہ وہاں خشوع خضوع کے ساتھ حاضر بھی ہوں اور وہاں حاضر ہو کر ذکر و تلاوت میں مشغول رہیں اب اس کے مقابلہ میں مسجد کی ویرانی یہ ہوگی کہ وہاں نمازی نہ رہیں یا کم ہوجائیں یا ایسے اسباب جمع ہوں جن سے خشوع و خضوع میں خلل آئے،- اور اگر آیت کا شان نزول واقعہ حدیبیہ اور مشرکین مکہ کا مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا ہے تو اسی آیت سے یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ مساجد کی ویرانی صرف یہی نہیں کہ انھیں منہدم کردیا جائے بلکہ مساجد جس مقصد کے لئے بنائی گئی ہیں یعنی نماز اور ذکر اللہ جب وہ نہ رہے یا کم ہوجائے تو مساجد ویران کہلائیں گی ،
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِہَا ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ٠ۥۭ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ١١٤- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معین محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ- [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔- خرب - يقال : خَرِبَ المکان خَرَاباً ، وهو ضدّ العمارة، قال اللہ تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها [ البقرة 114] ، وقد أَخْرَبَه، وخَرَّبَهُ ، قال اللہ تعالی: يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ [ الحشر 2] ، فتخریبهم بأيديهم إنما کان لئلّا تبقی للنّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم وأصحابه، وقیل : کان بإجلائهم عنها . والخُرْبَة : شقّ واسع في الأذن، تصوّرا أنه قد خرب أذنه، ويقال : رجل أَخْرَب، وامرأة خَرْبَاء، نحو : أقطع وقطعاء، ثمّ شبّه به الخرق في أذن المزادة، فقیل : خَرِبَة المزادة، واستعارة ذلک کاستعارة الأذن له، وجعل الخارب مختصّا بسارق الإبل، والخَرْبذکر الحباری، وجمعه خِرْبَان، قال الشاعرأبصر خربان فضاء فانکدر - ( خ ر ب ) خرب المکان خرابا کسی جگہ کا اجاڑ ہونا ۔ یہ عمارۃ ( آباد ہونا ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها [ البقرة 114] اخر بہ وخربہ ویران کر دنیا ، قرآن میں ہے : ۔ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ [ الحشر 2] کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اس لئے ویران کرتے تھے تاکہ آنحضرت اور مسلمانوں کے کام نہ آئیں بعض نے کہا ہے کہ یہ بربادی ان کی جلا وطنی کی وجہ سے تھی ۔ الخربہ کان میں وسیع چھید گو یا اس سے کان میں خرابی پیا ہوگئی اوراقطع وقطعاء کی طرح وخرباء کا محاورہ بھی استعملا کے سوارخ کو بھی خربۃ المزادۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور خارب کے معنی خاص کر اونٹوں کا چور ہیں الخرب ( نر سرخاب شتر مرغ کی قسم کا ایک پرند اس کی جمع خربان ہے کسی شاعر نے کہا ہے (133) ابصر خربان فضاء فاتکدر کہ وہ فضا میں سر خابوں کو دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑا ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ- [ المائدة 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم .- دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔- خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
قول باری ہے : ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین۔ (اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو نہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور اس کی ویرانی کے در پے ہو ؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ )- معمر نے قتادہ سے روایت بیان کی ہے کہ یہ بخت نصر تھا جس نے بیت المقدس کو ویران کردیا تھا اور اس سلسلے میں نصرانیوں نے اس کی مدد کی تھی : قول باری : اولئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین میں مذکورہ لوگوں سے مراد نصاریٰ ہیں جو بیت المقدس میں چوری چھپے داخل ہوتے تھے اور اگر پکڑے جاتے تو انہیں سزا دی جاتی۔ قول باری : لھم فی الدین اخزی (ان کے لئے تو دنیا میں رسوائی ہے) کی تفسیر میں قتادہ میں کہا کہ ” وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے زیر بحث آیت کی تفسیر روایت کی ہے کہ یہ نصاریٰ تھے جنہوں نے بیت المقدس کو ویران کیا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قتادہ سے جس روایت کا ذکر ہے اس میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لئے کہ گزشتہ اقوام کے واقعات کا علم رکھنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بخت نصر کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکا اور نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد وجود میں آئے تھے اور اپنی نسبت ان کی طرف کرتے تھے، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس کو وریان کرنے میں انہوں نے بخت نصر کا ساتھ دیا ہو۔ نصرانیوں کا دین شہنشاہ قسطنطین کے عہد میں شام و روم کے علاقوں میں پھیلا تھا اور یہ بات اسلام سے دو سو سے زائد برس پہلے کی ہے۔ یہ لوگ عیسائیت سے پہلے بتوں کے پجاری تھے، ان میں جو لوگ عیسائیت قبول کرتے وہ گمنام رہتے اور ایک دوسرے کے ادیان کا مذاق اڑاتے، اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ نصاریٰ اسی طرح بیت المقدس کی تعظیم کا اعتقاد رکھتے تھے جس طرح یہود رکھتے تھے، پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مذکورہ اعتقاد کے باوجود بیت المقدس کی ویرانی میں کسی کی مدد کی ہو۔ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ زیر بحث آیت مشرکین کے بارے میں ہے جنہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں اللہ کا نام لینے سے روک دیا تھا۔ مسجد حرام کو ویران کرنے کی سعی سے مرادیہ ہے کہ انہوں نے اسے اللہ کی یاد اور اس کی عبادت کے ذریعے آباد کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں اہل ذمہ کو مساجد میں داخل ہونے سے روکنے پر دو وجوہ سے دلالت موجود ہے۔ ایک وجہ تو یہ قول باری : ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ روکنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو دبائو اور غلبہ کے تحت روکنا ہے اور دوسری صورت اعتقاد ، مذہب اور حکم کے ذریعے روکنا ہے۔- قول باری : اولٓئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اہل ذمہ مساجد میں داخل ہوجائیں تو انہیں وہاں سے نکال دینا مسلمانوں پر واجب ہے دوسری وجہ یہ قول باری ہے : وسعی فی خرابھا۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ اہل ذمہ مساجد کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ان مساجد کو برباد کرنے کے وجوب کا اعتقاد رکھتے ہیں، اس لئے کہ اہل ذمہ کے مذاہب مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ویران اور برباد کرنے کے مقتضی ہوتے ہیں اور اپنے پیروکاروں پر اسے واجب قرار دیتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت پر اس آیت کا عطف کیا : اولئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین۔ یہ آیت بھی اہل ذمہ کو مساجد میں داخل ہونے سے روکنے پر دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کی طرح اس قول باری کی بھی دلالت ہے۔ ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ (مشرکین کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ )- مساجد کو آباد کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ مسجدیں تعمیر کی جائیں اور ان کی عمارتوں کی مرمت کرائی جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مسجدوں میں حاضری دی جائے اور ان کے ساتھ مسلسل تعلق رکھا جائے جس طرح آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کی مجلس آباد رکھتا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔” اگر تم کسی شخص کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے لئے ایمان کی گواہی دو ۔ “ یہ حدیث اللہ عزوجل کے اس قول کی تفسیر ہے کہ : انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ (اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں)- ہمارے اصحاب مساجد میں اہل ذمہ کے دخول کو جائز قرار نہیں دیتے۔ اس کا ذکر ہم انشاء اللہ اپنے مقام پر کریں گے۔- زیر بحث آیت میں مذکورہ حکم تمام مساجد کے لئے عام ہے۔ صرف بیت المقدس یا مسجد حرام کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں ہے۔ نیز یہ کہ مسجد کے ہر حصے کو اسی طرح مسجد کہا جائے گا جس طرح مجلس کے ہر حصے کو مجلس کہنا درست ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل لسان کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک مسجد کو مساجد نہیں کہا جاتا جس طرح ایک مکان کو مکانات نہیں کہا جاسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایٓت میں لفظ مساجد کا اطلاق ایک مسجد کو شامل نہیں ہے۔ اگرچہ سجدے کی جگہ کو بھی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ بات صرف مقید اور غیر مطلق صورت میں کہی جاسکتی ہے۔ جبکہ اطلاق کا حکم اپنے مقتضا کے اعتبار سے وہی ہے جس کا ہم نے ذکر کردیا ہے۔ علاوہ ازیں معترض تمام مساجد میں مذکورہ کم کے اطلاق کے امتناع کا قائل نہیں ہے بلکہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس حکم کی تخصیص بعض مساجد کے ساتھ ہے اور بعض کے ساتھ نہیں ہے اور اس کی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے۔
(١١٤) نصاری کا بادشاہ ” تطوس بن اسیانوس “ رومی جس نے ’ بیت المقدس “ کو ویران کیا اب اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں کہ اس شخص سے زیادہ کس کا کفر ہوگا جس نے ” بیت المقدس “ کو ویران کیا تاکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا نام توحید اور اذان کی وجہ سے بلند نہ ہوا اور ” بیت المقدس “ کی ویرانی کے لیے مرداروں کو اس میں ڈال کر اپنی پوری پوری کوشش اور سعی کی، یہ ویرانی حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ کے لیے مرداروں کو اس میں ڈال کر اپنی پوری پوری کوشش اور سعی کی۔ یہ ویرانی حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ تک باقی رہی اب ان رومیوں کو ” بیت المقدس “ میں داخلہ کے لیے امان حاصل نہیں۔ یہ مسلمانوں سے اپنے قتل ہونے کا خوف کرتے ہیں کہ اگر ان کے داخلے کا علم ہوجائے تو فورا ان کی گردن مار دی جائے، ان کے لیے ان کے شہروں قسطنطنیہ عموریہ اور رومیہ کے ویران وبرباد ہونے کا عذاب ہے، اور دنیا سے بہت زیادہ کڑا عذاب ان کے لیے آخرت میں ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ومن اظلم “ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے مذکورہ بالاواقعہ کے متعلق روایت کیا ہے کہ قریش نے مسجد حرام میں بیت اللہ کے قریب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ (آیت) ” ومن اظلم (الخ) اور ابن جریر (رح) نے ابو زید (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، حدیبیہ کے سال جس وقت انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١١٤ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ ) - مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں حاضری سے محروم کردیا تھا اور ان کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کے ہمراہ عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر فرمایا ‘ لیکن مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو عمرہ کیے بغیرواپس آنا پڑا۔ پھر اگلے برس ٧ ہجری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کے ہمراہ عمرہ ادا کیا۔ تو یہ سات برسٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان پر بہت شاق گزرے ہیں۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس ظلم کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رکھا ہے۔ - (وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا ط) - خراب اور تخریب کا مادۂ اصلی ایک ہی ہے۔ تخریب دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ظاہری تخریب کہ مسجد کو گرا دینا ‘ اور ایک باطنی اور معنوی تخریب کہ اللہ کے گھر کو توحید کی بجائے شرک کا اڈہ بنا دینا۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا تھا : - دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا - ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا - خانہ کعبہ میں ٣٦٠ بت رکھ دیے گئے تھے ‘ جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید خالص کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مساجد کے ساتھ لفظ خراب ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ یہ بڑی دلدوز حدیث ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ذہن نشین کرلیں۔- حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (یُوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ ) اندیشہ ہے کہ لوگوں پر (یعنی میری امت پر) ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ (لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ ) اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا (وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ ) اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط (الفاظ اور حروف) کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی ضمانت دی ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ و حروف من وعن محفوظ رہیں گے۔ (مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ) ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوجائیں گی۔ یہاں بھی لفظ خراب نوٹ کیجیے۔ گویا معنوی اعتبار سے یہ ویران ہوجائیں گی۔ (عُلَمَاوؤھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ) ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین انسان ہوں گے۔ (مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ ) (١٣) فتنہ ان ہی کے اندر سے برآمد ہوگا اور انہی میں گھس جائے گا۔ یعنی ان کا کام ہی فتنہ انگیزی ‘ مخالفت اور جنگ وجدال ہوگا۔ اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے رہنا اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کو ہوا دینا ہی ان کا کام رہ جائے گا۔- آج جن کو ہم علماء کہتے ہیں ان کی عظیم اکثریت اس کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔ جب مذہب اور دین پیشہ بن جائے تو اس میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا۔ دین اور مذہب پیشہ نہیں تھا ‘ لیکن اسے پیشہ بنا لیا گیا۔ اسلام میں کوئی پیشوائیت نہیں ‘ کوئی پاپائیت نہیں ‘ کوئی برہمنیت نہیں۔ اسلام تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہر شخص کتاب اللہ پڑھے ‘ ہر شخص عربی سیکھے اور کتاب اللہ کو سمجھے۔ ہر شخص کو عبادات کے قابل ہونا چاہیے۔ ہر شخص اپنی بچی کا نکاح خود پڑھائے ‘ اپنے والد کا جنازہ خود پڑھائے۔ ہم نے خود اسے پیشہ بنا دیا ہے اور عبادات کے معاملے میں ایک خاص طبقے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا : ع - پیشے میں عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام - ایک چیز جب پیشہ بن جاتی ہے تو اس میں پیشہ ورانہ چشمکیں اور رقابتیں در آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات واضح رہے کہ دنیا کبھی علماءِ حق سے خالی نہیں ہوگی۔ چناچہ یہاں علماءِ حق بھی ہیں اور علماءِ سو بھی ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا حال وہی ہوچکا ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے ‘ ورنہ امت کا یوں بیڑہ غرق نہ ہوتا ۔- (اُولٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآءِفِیْنَ ط) ۔ - ان لوگوں کو لائق نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں داخل ہوں ‘ یہ اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔- (لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ) - (وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) ۔ - اگلی آیت میں تحویل قبلہ کے لیے تمہید باندھی جا رہی ہے۔ قبلہ کی تبدیلی بڑا حساس معاملہ تھا۔ جن لوگوں کو یروشلم اور بیت المقدس کے ساتھ دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی عقیدت جاگزیں تھی ‘ جبکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے ساتھ جن کو دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت تھی۔ تو اس حوالے سے قبلہ کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہجرت کے بعد قبلہ دو دفعہ بدلا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ مدینے میں آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ اس طرح اہل ایمان کے کئی امتحان ہوگئے ‘ ان کا ذکر آگے آجائے گا۔ لیکن یہاں اس کی تمہید بیان ہو رہی ہے۔ فرمایا :
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :114 یعنی بجائے اس کے کہ عبادت گاہیں اس قسم کے ظالم لوگوں کے قبضہ و اقتدار میں ہوں اور یہ ان کے متولّی ہوں ، ہونا یہ چاہیے کہ خدا پرست اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہو اور وہی عبادت گاہوں کے متولّی رہیں ، تاکہ یہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں بھی ، تو انہیں خوف ہو کہ شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایک لطیف اشارہ کفارِ مکّہ کے اس ظلم کی طرف بھی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو جو اسلام لا چکے تھے ، بیت اللہ میں عبادت کرنے سے روک دیا تھا ۔
74: اوپر یہود ونصاری اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کا ذکر آیا ہے، یہ تینوں گروہ کسی نہ کسی زمانے میں اور کسی نہ کسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ہیں، مثلاً عیسائیوں نے شاہ طیطوس کے زمانے میں بیت المقدں پر حملہ کرکے اسے تاخت وتاراج کیا، ابرہہ نے جو عیسائی ہونے کا مدعی تھا بیت اللہ پر حملہ کرکے اسے ویران کرنے کی کوشش کی، مشرکن مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکتے رہے اور یہودیوں نے بیت اللہ کے تقدس سے انکار کرکے عملاً لوگوں کو اس کی طرف رخ کرنے سے روکا، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک طرف ان میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہے کہ تنہا وہی جنت کا حق دار ہے اور دوسری طرف ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں رکاوٹ ڈالنے یا عبادت گاہوں کو ویران کرنے کے درپے رہے ہیں، اسی آیت کا اگلا جملہ ذو معنی ہے اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ حق تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا خوف لے کر داخل ہوتے، نہ یہ کہ متکبر انہ انداز میں انہیں ویران کریں یا لوگوں کو وہاں اللہ کی عبادت سے روکیں ؛ لیکن ساتھ ہی یہ لطیف اشارہ بھی ہے ہوسکتا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے ولا ہے جب یہ متکبر لوگ جو اللہ کی مسجدوں سے لوگوں کو روک رہے ہیں حق پرستوں کے سامنے ایسے مغلوب ہوں گے کہ انہیں خود ان کی جگہوں پر ڈرڈر کر داخل ہونا پڑے گا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ یہی صورت پیش آئی۔