Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 بظاہر اس سرزمین جس سے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورة اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] کفار مکہ اور فرعون کی کرتوتوں اور انجام میں مماثلت :۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم ہوا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے جاکر شام کا علاقہ فتح کریں اور اس میں آباد ہوں اور کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا بھی تھا۔ تاہم اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل ہی کے کچھ لوگ مصر کے علاقے پر بھی قابض ہوگئے تھے اور اس مقام پر اس واقعہ کو مختصراً بیان کرنے کا مقصودیہ ہے کہ کفار مکہ بھی مسلمانوں پر ایسے ہی سختیاں کر رہے تھے جیسے آل فرعون بنی اسرائیل پر کرتے تھے لیکن انجام کار ہوا یہ کہ آل فرعون تو تباہ ہوگئے اور بنی اسرائیل ملک پر قابض ہوگئے تھے۔ اور اب چونکہ ان لوگوں نے بھی اپنے عزو جاہ کی خاطر اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کا تہیہ کر رکھا ہے تو ان کا وہی حشر ہونے والا ہے جو آل فرعون کا ہوا تھا۔ یہ تو سزا دنیا میں ملے گی اور آخرت میں بھی ایسے لوگ ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں جاسکتے۔ ہم ان سب کو اکٹھے کرکے اپنے حضور حاضر کرلیں گے پھر ان کے کرتوتوں کی انھیں پوری پوری سزا دیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ : ” الْاَرْضَ “ سے مراد ارض شام بیان کی جاتی ہے، مگر سورة شعراء کی آیت (٥٩) سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار بنی اسرائیل کی حکومت فلسطین و شام کے بعد مصر پر بھی قائم ہوگئی تھی، فرمایا : (كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) [ الشعراء : ٥٩ ] ” ایسا ہی ہوا اور ہم نے اس (مصر) کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا۔ “ اگرچہ یہ سب فتوحات موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں نہ ہو سکیں۔ دیکھیے سورة مائدہ (٢٠ تا ٢٦) ۔- فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا :” لَفِيْفًا “ ” لَفُّ الشَّیْءِ بالشَّیْءِ أَیْ ضَمُّہُ اِلَیْہِ وَ وَصْلُہُ بِہِ ۔ “ ” جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا “ ” أَيْ مُجْتَمِعِیْنَ ، مُخْتَلِطِیْنَ مِنْ کُلِّ قَبِیْلَۃٍ “ (قاموس) یعنی ہم اچھے و برے، مومن و کافر سب کو حشر کے میدان میں جمع کریں گے، تاکہ ان کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ کردیا جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ١٠٤؀ۭ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - لفف - قال تعالی: فَإِذا جاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء 104] أي : منضمّا بعضکم إلى بعض . يقال : لَفَفْتُ الشیء لَفّاً ، وجاء وا ومن لَفَّ لِفَّهُمْ ، أي : من انضمّ إليهم، وقوله :- وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ 16] أي : التفّ بعضها ببعض لکثرة الشّجر . قال : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] والْأَلَفُّ : الذي يتدانی فخذاه من سمنه، والْأَلَفُّ أيضا : السّمين الثقیل البطیء من الناس، ولَفَّ رأسه في ثيابه، والطّائر رأسه تحت جناحه، واللَّفِيفُ من الناس :- المجتمعون من قبائل شتّى، وسمّى الخلیل کلّ كلمة اعتلّ منها حرفان أصليّان لفیفا .- ( ل ف ف )- الففت الشئی لفا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مدغم کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء 104] اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے ۔ اور محاورہ ہے : جآء وا من لف لفھم یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے ۔ اور آیت کریمہ : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ 16] اور گھنے گھنے باغ میں الفاف سے مراد ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں ۔ التف ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا ۔ قرآن میں ہے : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] اور پنڈلی سے پندلی لپٹ جائے گی ۔ الالف۔ وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی الف کہاجاتا ہے ۔ لف راسہ ۔ اس نے اپنے سر کو ( کپڑوں ) ۔۔۔ میں ) چھپالیا ۔ اللفیف۔ مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصل میں سے دو حرف علت ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) اور اس کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ تم سرزمین اردن یا فلسطین میں رہو سہو، پھر جس وقت قبروں سے مردوں کو زندہ کرکے اٹھایا جائے گا یا یہ کہ نزول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوچکا ہوگا تو ہم سب کو جمع کریں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا)- اکثر وبیشتر مفسرین نے وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے آخرت یعنی قیامت مراد لی ہے۔ یعنی جب قیامت آئے گی تو تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو گے سب کو اکٹھا کر کے ہم میدان حشر میں لے آئیں گے۔ لیکن میرے خیال میں ان الفاظ میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جب آخرت کا وقت قریب آئے گا تو بنی اسرائیل کو ہر کہیں سے اکٹھا کر کے ایک جگہ جمع کرلیا جائے گا۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی تکذیب کر کے بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوچکے تھے۔ اس کے بعد نبی آخر الزماں کی رسالت کو جھٹلا کر انہوں نے اپنے اس جرم کی مزید توثیق بھی کردی۔ چناچہ اب اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قوم کی حیثیت اس قیدی کی سی ہے جس کو اس کے جرم کی سزا سنائی جا چکی ہو مگر اس سزا کی تعمیل ( ) ابھی باقی ہو۔- اس سورت کے نزول کے وقت بنی اسرائیل کے دور انتشار ( ) یعنی فلسطین سے بےدخل ہوئے ساڑھے پانچ سو سال ہوچکے تھے۔ پچھلی صدی تک بھی ان کی کیفیت یہ تھی کہ یہ لوگ پوری دنیا میں بکھرے ہوئے تھے۔ چونکہ کسی اجتماعی سزا یا عذاب کے لیے ان کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ضروری تھا اس لیے قدرت کی طرف سے اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا اور آیت زیر نظر کے الفاظ کے عین مطابق دنیا کے کونے کونے سے تمام یہودیوں کو اکٹھا کر کے یہاں آباد کیا گیا۔ اب اپنے زعم میں تو ان لوگوں نے عظیم تر اسرائیل ( ) کا منصوبہ اور نقشہ تیار کر رکھا ہے اور عین ممکن ہے ان کا یہ منصوبہ پورا بھی ہوجائے مگر بالآخر یہ عظیم تر اسرائیل ان کے لیے عظیم تر قبرستان ثابت ہوگا (واللہ اعلم ) آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور آپ ہی کے ہاتھوں اس قوم کی ہلاکت ہوگی ۔- اب آخری آیات میں پھر سے قرآن مجید کا ذکر بڑے عظیم الشان انداز میں آ رہا ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :117 یہ ہے اصل غرض اس قصے کو بیان کرنے کی ۔ مشرکین مکہ اس فکر میں تھے کہ مسلمانوں کو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سر زمین عرب سے ناپید کر دیں ۔ اس پر انہیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ فرعون نے موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے ساتھ کرنا چاہا تھا ۔ مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اس کے ساتھی ناپید کر دیے گئے اور زمین پر موسی علیہ السلام اور پیروان موسی علیہ السلام ہی بسائے گئے ۔ اب اگر اسی روش پر تم چلو گے تو تمہارا انجام اس سے کچھ بھی مختلف نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani