4۔ 1 یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندر سے نکلتی ہے۔ جسے منی کہا جاتا ہے۔ اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے، پھر اس میں اللہ تعالیٰ روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا، اس کا انکار کرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔
[٦] ? صیم مبین سے مراد ؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان جو ایک ننھی سی پانی کی بوند سے پیدا ہوا ہے نفخہ روح خداوندی کی بدولت وہ بحث و استدلال کا ڈھنگ سیکھ جاتا ہے اور اپنے مدعا پر طرح طرح کے دلائل پیش کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ اس مطلب میں قدرت خداوندی کا اظہار مقصود ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی اوقات کی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ ایک حقیر سی پانی کی بوند سے پیدا کیا گیا ہے پھر جب اس میں کچھ عقل آتی ہے تو حق کے مقابلہ میں کٹ حجتیاں پیش کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتا اور اس مطلب سے مقصود انسان کی سرکشی کا اظہار ہے اور اسی مطلب کی تائید سورة یٰسین کی آیت نمبر ٧٧، ٧٨ سے بھی ہوتی ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ ۔۔ : ” نَطَفَ “ (ض، ن) ٹپکنا۔ ” نُّطْفَةٍ “ قطرہ۔ تاء تحقیر کے لیے ہے، یعنی حقیر اور معمولی قطرے سے۔ ” خَصِيْمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے۔ زمین و آسمان کے بعد ان میں پیدا کردہ چیزیں توحید کی دلیل کے طور پر پیش فرمائیں، سب سے پہلے انسان کا ذکر فرمایا، یہی بات سورة یس میں تفصیل سے بیان فرمائی، فرمایا : (اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ ) [ یٰسٓ : ٧٧، ٧٨ ] ” اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا، کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جبکہ وہ بوسیدہ ہوں گی ؟ “ ” إِذَا “ فجائیہ ” اچانک “ کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان بھی نہ ہو، یعنی اگر یاد رکھتا تو ایک حقیر قطرے سے مختلف اطوار سے گزر کر وجود میں آنے والے انسان سے اس جھگڑے کی توقع ہی نہ کی جاسکتی تھی، بلکہ حق یہ تھا کہ وہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت کے دونوں حصوں سے اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر استدلال مقصود ہو، یعنی نطفہ سے پیدا کیا، پھر اس میں کامل طور پر ساری قوتیں یعنی سوچنے سمجھنے کی اور بولنے کی پیدا کردیں کہ حجت و استدلال اور بحث کے قابل ہوگیا۔ (روح المعانی)
معارف و مسائل :- ان آیتوں میں تخلیق کائنات کی عظیم نشانیوں سے حق تعالیٰ کی توحید کا اثبات ہے اول تو سب سے پہلی مخلوق آسمان اور زمین کا ذکر فرمایا اس کے بعد تخلیق انسان کا ذکر فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ نے مخدوم کائنات بنایا ہے انسان کی ابتداء ایک حقیر نطفے سے ہونا بیان کر کے فرمایا (آیت) فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ یعنی جب اس ضعیف الخلقت انسان کو طاقت اور قوت گویائی عطا ہوئی تو خدا ہی کی ذات وصفات میں جھگڑے نکالنے لگا۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ - نطف - النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ- [ المؤمنون 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به .- ( ن ط ف ) النطفۃ - ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔
(٤) اور انسان کو یعنی ابی بن خلف جہنمی کو سڑے ہوئے نطفہ سے بنایا پھر وہ یکایک باطل کی حمایت میں کھلم کھلا جھگڑنے لگا کہ ہڈیاں جب ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا۔
آیت ٤ (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ)- انسان اپنے خود ساختہ نظریات کے حق میں خوب بحثیں کرتا ہے ‘ عقلی و نقلی دلیلیں دیتا ہے اور زور خطابت سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :7 اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبا دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے ، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پر اتر آیا ہے ۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے ( جس کی تشریح ہم اس سلسلہ بیان کے آخر میں کریں گے ) ۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا ، کس جگہ تو نے ابتداء پرورش پائی ، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا ، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تو کس کے منہ آ رہا ہے ۔
2: یعنی انسان کی حقیقت تو اتنی ہے کہ وہ ایک ناپاک بوند سے پیدا ہوا ہے، لیکن جب اسے ذرا قوت گویائی ملی تو جس ذات نے اسے اس ناپاک بوند سے ایک مکمل انسان بنایا تھا اور اسے اشرف المخلوقات کا رتبہ بخشا تھا اسی ذات کے ساتھ شریک ٹھہرا کر اس سے جھگڑنا شروع کردیا۔