20۔ 1 اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت (خالقیت) کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی (عدم خالقیت) کا اثبات (فتح القدیر) ُ
[٢١] ان کے بنائے ہوئے شریکوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا تو کیا خاک کریں گے۔ وہ تو خود مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ اپنے بنانے والے کا محتاج بھی ہوگا۔ نیز جو چیز مخلوق ہو وہ ضرور فنا بھی ہوگی۔ لہذا ایسے شریک نہ خود الٰہ ہوسکتے ہیں اور نہ صفات الوہیت میں اللہ کے شریک بن سکتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ان کی بےبسی اور عجز کے بیان کے لیے تین اوصاف بیان فرمائے، پہلا یہ کہ وہ کچھ پیدا نہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، خالق صرف ایک ہی ہے، کیونکہ اگر ان کے معبود نیک یا بد فوت شدہ لوگ ہیں تو ان کا خالق اللہ ہے اور وہ نہ زندگی میں کچھ پیدا کرسکتے تھے نہ اب کرسکتے ہیں۔ اس کی تفصیل اسی سورت کی آیت (١٧) ، سورة رعد (١٦) اور سورة حج (٧٣) میں دیکھیں اور اگر ان کے مجسمے یا ان کی قبریں ہیں تو وہ بھی کچھ پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ انھیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : (اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ) [ الصافات : ٩٥ ] ” کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو۔ “ اگر تمہارے معبود تراشے ہوئے بت ہیں یا قبریں، تو خالق ان کا بھی اللہ تعالیٰ ہے تم نہیں، جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا : (ۙوَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) [ الصافات : ٩٦ ] ” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم بناتے ہو۔ “
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ 20ۭ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔
(٢٠۔ ٢١) اور جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے جیسا کہ ہم پیدا کرسکتے ہیں بلکہ وہ خود ذلیل مخلوق ہیں اور وہ بہت مردہ ہیں، ان کے ان معبودوں کو اتنی بھی خبر نہیں کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے اور پھر حساب ہوگا یا یہ کہ کفار کو یہ بھی خبر نہیں کہ کب حساب ہوگا یا یہ کہ فرشتوں کو معلوم نہیں کہ حساب و کتاب کب ہوگا۔
آیت ٢٠ (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ )- انبیاء و رسل ہوں ملائکہ ہوں یا اولیاء اللہ سب مخلوق ہیں خالق صرف اللہ کی ذات ہے۔