حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے کے لوگوں پر رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسے سخت عذاب آئے ؟ اور کس طرح وہ غارت کئے گئے ؟ یہ قول تو ہے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا لیکن ذرا غور طلب ہے ۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وعظ تو ختم ہو چکا اب یہ نیا بیان قرآن ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے واللہ اعلم ۔ فی الجملہ ان لوگوں کے اور ان جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سی امتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ معد بن عدنان کے بعد کا نسب نامہ صحیح طور پر کوئی نہیں جانتا ۔ وہ اپنے ہاتھ ان کے منہ تک لوٹا لیے گئے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ رسولوں کے منہ بند کرنے لگے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھنے لگے کہ محض جھوٹ ہے جو رسول کہتے ہیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جواب سے لاچار ہو کر انگلیاں منہ پر رکھ لیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے منہ سے انہیں جھٹلانے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں پر فی معنی میں بے کے ہو جیسے بعض عرب کہتے ہیں ادخلک اللہ بالجنۃ یعنی فی الجنۃ شعر میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے ۔ اور بقول مجاہد اس کے بعد کا جملہ اسی کی تفسیر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مارے غصے کے اپنی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال لیں ۔ چنانچہ اور آیت میں منافقین کے بارے میں ہے کہ آیت ( وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١١٩ ) 3-آل عمران:119 ) یہ لوگ خلوت میں تمہاری جلن سے اپنی انگلیاں چباتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی ہے کہ کلام اللہ سن کر تعجب سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ ہم تو تمہاری رسالت کے منکر ہیں ہم تمہیں سچا نہیں جانتے بلکہ سخت شبہ میں ہیں ۔
9۔ 1 مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے من ہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، 2۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو، 3۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ 4۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔ 5۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔ وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ 9۔ 2 مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔
[١١] پچھلی آیت پر موسیٰ (علیہ السلام) کا خطاب ختم ہوا اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مشرکین مکہ کو خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ مقامات پر اقوام اور انبیاء کا الگ الگ ذکر ہوتا رہا۔ یہاں بحیثیت مجموعی ذکر ہو رہا ہے اور قریش مکہ سے صرف ان اقوام کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کے آس پاس تھیں یا جن کے حالات کسی نہ کسی ذریعہ سے ان تک پہنچ سکتے تھے۔ مثلاً قوم نوح، عاد، ثمود، قوم فرعون، اصحاب مدین وغیرہ وغیرہ لیکن بہت سی ایسی اقوام بھی تھیں جن کے حالات کا علم ان کی دسترس سے باہر تھا اور ان سے کہیں دور کے علاقوں میں آباد تھیں اور ان پر بھی انکار حق کی بنا پر عذاب آیا تھا۔ لہذا قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا محض اشارہ کردیا ہے۔- [ ١٢] یہ محاورہ ہے۔ اور اس سے مراد ایسا انکار ہوتا ہے جس میں تعجب بھی شامل ہو جیسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے اپنی انگلی منہ میں دبا لی یا اپنا ہاتھ کانوں پر رکھ لیا اور مجاہد کہتے ہیں کہ یہ محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا، اس سے وہ باز رہے (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة ابراہیم)- [ ١٣] انبیاء کی دعوت سے مشرکوں کی بےچینی :۔ تمام انبیاء کے مخالفین کا یہی حال رہا ہے اگرچہ وہ بظاہر حق کی مخالفت کرتے اور اس مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر حق کے دلائل کے سامنے وہ بےبس ہوجاتے ہیں۔ نیز جوں جوں حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ان کا قلبی سکون رخصت ہوتا جاتا ہے اور شک، اضطراب اور بےچینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح داعیان حق کو بےچین کرنے والے خود بھی چین سے محروم ہوجاتے ہیں اور اگر اس کے لفظی معنی کا اعتبار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ رسولوں کو بات بھی نہیں کرنے دیتے تھے اور بات کرتے وقت ان کے منہ کے آگے اپنے ہاتھ رکھ دیتے تھے اور کہتے کہ ہم تمہیں رسول ہی نہیں سمجھتے تو بات کرنے اور سننے کا فائدہ کیا ہے ؟
لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ : یعنی اللہ تعالیٰ ہی ان کی تعداد اور تمام حالات سے واقف ہے اور ان کے نسب کو بھی صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ - فَرَدُّوْٓا اَيْدِيَهُمْ فِيْٓ اَفْوَاهِهِمْ : یعنی غصے کے مارے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے، جیسا کہ دوسری آیت میں منافقین کے متعلق فرمایا : (وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ) [ آل عمران : ١١٩ ] ” اور (یہ منافقین) جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیوں کی پوریں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ “ یا ہنسی اور تعجب کے مارے منہ پر ہاتھ رکھ لیے، یا ہاتھ منہ کی طرف لے جا کر اشارہ کیا کہ بس چپ رہو۔ پہلے معنی کو اکثر مفسرین نے ترجیح دی ہے، ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے منہ پر رکھ دیے کہ وہ خاموش رہیں۔ - وَقَالُوْٓا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ ۔۔ : ” بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ “ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی نشانیاں دیکھ کر وہ یہ ضرور جان چکے تھے کہ ان رسولوں کو یہ معجزے دے کر بھیجا گیا ہے، یہ رسول خود یہ معجزے نہیں لے آئے۔ اس لیے اگرچہ انھوں نے توحید کی دعوت ماننے سے انکار کردیا، مگر اپنے کفر پر بھی ان کا یقین متزلزل ہوگیا اور انھوں نے کہا کہ ہم تمہاری دعوت کے بارے میں ایک بےچین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- (اے کفار مکہ) کیا تم کو ان لوگوں (کے واقعات) کی خبر (گو اجمالا سہی) نہیں پہنچی جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں یعنی قوم نوح اور عاد (قوم ہود) اور ثمود (قوم صالح) اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے ہیں جن (کی مفصل حالت) کو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، (کیونکہ ان کے حالات تفصیلات منضبط و منقول نہیں ہوئے، اور وہ واقعات یہ ہیں کہ) ان کے پیغمبر ان کے پاس دلائل لے کر آئے سو ان قوموں (میں جو کفار تھے انہوں) نے اپنے ہاتھ ان پیغمبروں کے منہ میں دیدئیے (یعنی مانتے تو کیا یہ کوشش کرتے تھے کہ ان کو بات تک نہ کرنے دیں) اور کہنے لگے کہ جو حکم دے کر تم کو (بزعم تمہارے) بھیجا گیا ہے (یعنی توحید و ایمان) ہم ان کے منکر ہیں اور جس امر کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو (یعنی وہی توحید و ایمان) ہم تو اس کی جانب سے بہت بڑے شبہ میں ہیں جو (ہم کو) تردد میں ڈالے ہوئے ہے (مقصود اس سے توحید و رسالت دونوں کا انکار ہے توحید کا تو ظاہر ہے اور رسالت کا تدعونا میں جس کا حاصل یہ ہے کہ تم خود اپنی رائے سے دعوت توحید کر رہے ہو مامور ومرسل من اللہ نہیں ہو) ان کے پیغمبروں نے (اس بات کے جواب میں) کہا کیا (تم کو) اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی توحید میں) شک (و انکار) ہے جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے (یعنی اس کا ان چیزوں کو پیدا کرنا خود دلیل اس کی ہستی اور وحدانیت کی ہے پھر اس دلیل کے ہوتے ہوئے شک کرنا بڑی تعجب کی بات ہے اور تم جو دعوت الی التوحید کو استقلالا ہماری طرف منسوب کرتے ہو یہ بھی محض غلط ہے گو توحید بوجہ حق ہونے کے اس قابل ہے کہ اگر کوئی اپنی رائے سے بھی اس کی دعوت کرے تو بھی زیبا ہے لیکن محل متنازع فیہ میں تو ہماری دعوت بحکم خداوند تعالیٰ ہے پس) وہ (ہی) تم کو (توحید کی طرف) بلارہا ہے تاکہ (اس کے قبول کرنے کی برکت سے) تمہارے (گذشتہ) گناہ معاف کردے اور (تمہاری عمر کی) معین مدت تک تم کو (خیر و خوبی کے ساتھ) حیات دے (مطلب یہ کہ توحید علاوہ اس کے کہ فی نفسہ حق ہے تمہارے لئے دونوں جہان میں نافع بھی ہے اور اس جواب میں دونوں امر کے متعلق جواب ہوگیا توحید کے متعلق بھی اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ الخ اور رسالت کے متعلق بھی يَدْعُوْكُمْ میں جیسا تقریر ترجمہ سے ظاہر ہے) پھر انہوں نے (پھر دونوں امر کے متعلق گفتگو شروع کی اور) کہا کہ تم (پیغمبر نہیں ہو بلکہ) محض ایک آدمی ہو جیسے ہم ہیں (اور بشریت منافی رسالت ہے تم جو کہتے ہو وہ من اللہ نہیں ہے بلکہ) تم (اپنی رائے ہی سے) یوں چاہتے ہو کہ ہمارے آباء و اجداد جس چیز کی عبادت کرتے تھے (یعنی بت) اس سے ہم کو روک دو سو (اگر رسالت کے مدعی ہو تو علاوہ ان دلائل وبینات مذکورہ کے اور) کوئی صاف معجزہ دکھلاؤ (جو ان سب سے واضح تر ہو اس میں نبوت پر تو کلام ظاہر ہے اور يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَا میں توحید پر کلام کی طرف اشارہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شرک کے حق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اس کو کرتے تھے) ان کے رسولوں نے (اس کے جواب میں) کہا کہ (تمھاری تقریر کے کئی جزو ہیں انکار توحید دلیل فعل آباء انکار نبوت مطالبہ سلطان مبین علاوہ بینات سابقہ، سو امر اول کے متعلق فاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں جواب ہوگیا کیونکہ دلیل عقلی کے روبرو رسم وعرف کوئی چیز نہیں امر دوم کے متعلق ہم اپنی بشریت کو تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی) ہم بھی تمہارے جیسے آدمی ہیں لیکن (بشریت اور نبوت میں تنافی نہیں کیونکہ نبوت ایک اعلی درجہ کا احسان خداوندی ہے اور) اللہ (کو اختیار ہے کہ) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے (وہ) احسان فرما دے (اور احسان کے غیر بشر کے ساتھ مختص ہونے کی کوئی دلیل نہیں) اور (امر سوم کے متعلق یہ ہے کہ دعوی کے لئے جس میں دعوی نبوت بھی داخل ہے نفس دلیل اور مطلق بینہ جو دعوی نبوت کی صورت میں معجزہ ہوگا ضرور ہے جو کہ پیش کی جا چکی ہے رہا دلیل و معجزہ خاص جس کو سلطان مبین یعنی صاف دلیل سے تعبیر کر رہے ہو سو اولا حسب قواعد مناظرہ ضروری نہیں ثانیا) یہ بات ہمارے قبضہ کی نہیں کہ ہم تم کو کوئی معجزہ دکھلا سکیں بغیر خدا کے حکم کے (پس تمہارے تمام تر شبہات کا جواب ہوگیا پھر اگر اس پر بھی تم نہ مانو اور مخالفت کئے جاؤ تو خیر ہم تمہاری مخالفت سے نہیں ڈرتے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں) اور اللہ ہی پر سب ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہئے (چونکہ ہم بھی باایمان ہیں اور ایمان مقتضی ہے توکل کو اس لئے ہم بھی اس کو اختیار کرتے ہیں) اور ہم کو اللہ پر بھروسہ نہ کرنے کا کون امر باعث ہوسکتا ہے حالانکہ اس نے (ہمارے حال پر بڑا فضل کیا کہ) ہم کو ہمارے (منافع دارین کے) راستے بتلادیئے (جس کا اتنا بڑا فضل ہو اس پر تو ضرور بھروسہ کرنا چاہئے) اور (ضرر خارجی سے تو یوں بےفکر ہوگئے رہا ضرر داخلی کہ تمہاری مخالفت کا غم وحزن ہوتا ہو) تم نے (عناد و خلاف کرکے) جو کچھ ہم کو ایذا پہنچائی ہے ہم اس پر صبر کریں گے (پس اس سے بھی ہم کو ضرر رکھنا چاہئے اور (ان تمام تر اتمام حجت کے بعد بھی کفار نرم نہ ہوئے بلکہ) ان کفار نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی سر زمین سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (پھر آنا اس لئے کہا کہ سکوت قبل بعثت سے وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کا اعتقاد بھی ہم ہی جیسا ہوگا) پس ان رسولوں پر ان کے رب نے (تسلی کے لئے) وحی نازل فرمائی کہ (یہ بیچارے تم کو کیا نکالیں گے) ہم (ہی) ان ظالموں کو ضرور ہلاک کردیں گے اور ان کے (ہلاک کرنے کے) بعد تم کو اس سر زمین میں آباد رکھیں گے (اور) یہ (وعدہ آباد رکھنے کا کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں بلکہ) ہر اس شخص کے لئے (عام) ہے جو میرے روبرو کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے (مراد یہ کہ جو مسلمان ہو جس کی علامت خوف قیامت اور خوف وعید ہے سب کیلئے یہ وعدہ عذاب سے نجات دینے کا عام ہے) اور (پیغمبروں نے جو یہ مضمون کفار کو سنایا کہ تم نے دلائل کے فیصلہ کو نہ مانا اب عذاب سے فیصلہ ہونے والا ہے یعنی عذاب آنے والا ہے تو) کفار (چونکہ جہل مرکب وعناد میں غرقاب تھے اس سے بھی نہ ڈرے بلکہ کمال بیباکی سے وہ) فیصلہ چاہنے لگے (جیسا آیت فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ وامثالھا سے معلوم ہوتا ہے) اور (جب وہ فیصلہ آیا تو) جتنے سرکش (اور) ضدی لوگ تھے وہ سب (اس فیصلہ میں) بےمراد ہوئے (یعنی ہلاک ہوگئے اور جو ان کی مراد تھی کہ اپنے کو اہل حق سمجھ کر فتح و ظفر چاہتے تھے وہ حاصل نہ ہوئی
اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ ټ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ړ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ ۭ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرَدُّوْٓا اَيْدِيَهُمْ فِيْٓ اَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوْٓا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَاِنَّا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی تقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔
(٩) کفار مکہ کیا تم لوگوں کو قوم نوح، قوم ہود، اور قوم صالح اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی خبر نہیں پہنچی کہ تکذیب کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کیسے ہلاک کیا جن کی تفصیلی طور پر تعداد اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ان کے پیغمبر ان کے پاساوامر و نواہی اور معجزات لے کر آئے تو ان کفار نے جو احکام انبیاء کرام لے کر آئے تھے ان کو رد کردیا یا یہ کہ اپنے ہاتھ ان کے منہ کے سامنے کردیے اور کہنے لگے خاموش ہوجاؤ ورنہ ہم خاموش کردیں گے اور رسولوں سے کہنے لگے کہ جو کتاب اور توحید دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جس کتاب اور توحید کی طرف تم بلا رہے ہو، ہم تو اس کی جانب سے بہت بڑے شبہ میں ہیں۔
(وَقَالُوْٓا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَاِنَّا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ )- یہاں تمام رسولوں کو ایک جماعت فرض کر کے ان کا ذکر اکٹھے کیا جا رہا ہے کیونکہ سب نے اپنی اپنی قوم کو ایک جیسی دعوت دی اور اس دعوت کے جواب میں سب رسولوں کی قوموں کا رد عمل بھی تقریباً ایک جیسا تھا۔ ان سب اقوام نے اپنے رسولوں کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو ان باتوں کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات لاحق ہیں جن کی وجہ سے ہم سخت الجھن میں پڑگئے ہیں ۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :15 ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ان کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانوں پر ہاتھ رکھے ، یا دانتوں میں انگلی دبائی ۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے ، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :16 ”یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے ۔ یہ دعوت حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اس کی مخالفت ۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اسے رد کریں اور کتنا ہی زور اس کی مخالفت میں لگائیں ، دعوت کی سچائی ، اس کی معقول دلیلیں ، اس کی کھر کھری اور بے لاگ باتیں ، اس کی دل موہ لینے والی زبان ، اس کے داعی کی بے داغ سیرت ، اس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب ، اور اپنے صدق مقال کے عین مطابق ان کے پاکیزہ اعمال ، یہ ساری چیزیں مل جل کر کٹے سے کٹے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں ۔ داعیان حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے ۔
5: اس سے مراد وہ قومیں بھی ہوسکتی ہیں جن کی تاریخ محفوظ نہیں رہ سکی اور وہ بھی جن کا اجامعلی حال تو معلوم ہے لیکن ان کی تعداد اور ان کے تفصیلی حالات کا کسی کو پتہ نہیں۔ 6: یہ ایک محاورہ ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ انہیں زبردستی بولنے اور تبلیغ کرنے سے روکا۔