حوف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨ ) 7- الاعراف:158 ) ، میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟
1۔ 1 جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 57 ۔ الحدید :9) سورة الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ :257) ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔ 1۔ 2 یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کرلیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کرلے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کرسکے۔
[١] ہدایت اور اللہ کا اذن ؟ روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایا اس لیے صراط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ ٹیڑھی یا باطل کی راہیں لاتعداد ہوسکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے ان سب راستوں کو تاریکیوں سے تعبیر کیا۔ گویا اس کتاب قرآن کریم کو اتارنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ اور یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگوں کے پروردگار کو بھی انھیں راہ راست پر لانا منظور ہو۔ اور اس منظوری کا قانون یہ ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے اللہ یقیناً ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور یہی اس کی منظوری یا اذن ہوتا ہے لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کریں انھیں اللہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشتا۔
الۗرٰ : حروف مقطعات کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔- كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ :” كِتٰبٌ“ کو ” الۗرٰ “ کی خبر بنائیں تو معنی ہوگا کہ ” الۗرٰ “ ایک کتاب ہے، یعنی وہ حروف تہجی جن سے تمہارا کلام وجود میں آتا ہے، انھی سے یہ کتاب وجود میں آئی ہے، اگر مقابلے کی ہمت ہے تو آؤ انھی حروف سے تم صرف ایک سورت ہی بنادو ۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسے مبتدا محذوف ” ھٰذَا “ کی خبر بنالیں، پھر معنی ہوگا، یہ ایک کتاب ہے۔ ” نازل کیا “ کے لفظ سے اس کا بلندی سے اترنا اور اللہ تعالیٰ کا بلندی پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کو نہ لامکان کہہ سکتے ہیں اور نہ ہر جگہ میں کہہ سکتے ہیں، بلکہ وہ بلند ہے، عرش پر ہے۔ ” ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا “ سے اس کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔- لِتُخْرِجَ النَّاسَ : یعنی یہ کتاب آپ پر نازل کی، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نکالیں۔ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث جو کتاب یعنی قرآن ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور رسول کو محض ڈا کیا قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر اس میں بار بار رسول کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، مثلاً دیکھیے آل عمران (٣١، ٣٢) ۔- مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ : یعنی کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف۔ ” اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ “ یہ ” اِلی النُّوْرِ “ ہی سے بدل ہے اور اسی کی وضاحت ہے، یعنی وہ نور کیا ہے، اس عزیز وحمید کا راستہ ہے جس کا نام نامی اللہ ہے، وہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا اکیلا مالک ہے۔ لفظ ” الظُّلُمٰتِ “ کو جمع اور ” النُّوْرِ “ کو واحد لانے سے صاف ظاہر ہے کہ نور یعنی راہ ہدایت صرف ایک ہے یعنی اسلام، جبکہ تاریکیاں اور گمراہیاں بیشمار ہیں جو سب کی سب کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔ - بِاِذْنِ رَبِّھِمْ : اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی سیدھی راہ کی طرف لاسکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لاسکتا ہے۔ ابوطالب، آزر، ابن نوح اور نوح و لوط (علیہ السلام) کی بیویاں اس کی واضح مثالیں ہیں کہ رب کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے کفر کے اندھیروں سے نہیں نکل سکے۔- وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ : ” وَيْلٌ“ پر تنوین تعظیم کی ہے، معنی ہے بڑی ہلاکت، یعنی دنیا میں بھی ان کے لیے بربادی ہی بربادی ہے۔ ( دیکھیے توبہ : ٥٥۔ طٰہٰ : ١٢٤ تا ١٢٧) اور قیامت کے دن تو ان کی اس سے بھی بڑھ کر شامت آنے والی ہے۔ دنیا میں کفار کے لیے ” وَيْلٌ“ کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ خودکشی کی شرح آپ سب سے زیادہ کفار میں پائیں گے، خصوصاً جو ان میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مثلاً جاپان وغیرہ۔
خلاصہ تفسیر :- الۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ (اس کے ذریعہ سے) تمام لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (مرتبہ تبلیغ میں کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف یعنی ذات غالب ستودہ صفات کی راہ کی طرف لاویں (روشنی میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راہ بتلا دیں) جو ایسا خدا ہے کہ اس کی ملک ہے جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے اور (جب یہ کتاب خدا کا راستہ بتلاتی ہے تو) بڑی خرابی یعنی بڑا سخت عذاب ہے ان کافروں کو جو (اس راہ کو نہ تو خود قبول کرتے ہیں بلکہ) دنیوی زندگانی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں (اس لئے دین کی جستجو نہیں کرتے) اور (نہ دوسروں کو یہ راہ اختیار کرنے دیتے ہیں بلکہ) اللہ کی (اس) راہ (مذکور) سے روکتے ہیں اور اس میں کجی (یعنی شبہات) کے متلاشی رہتے ہیں (جن کے ذریعہ سے دوسروں کو گمراہ کرسکیں) ایسے لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں (یعنی وہ گمراہی حق سے بڑی دور ہے)- معارف و مسائل :- سورۃ اور اس کے مضامین :- یہ قرآن کریم کی چودہویں سورة سورة ابراہیم شروع ہوتی ہے یہ سورة مکی ہے قبل از ہجرت نازل ہوئی بجز چند آیات کے جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ مدنی ہیں یا مکی۔- اس سورة کے شروع میں رسالت ونبوت اور ان کی کچھ خصوصیات کا بیان ہے پھر توحید کا مضمون اور اس کے شواہد کا ذکر ہے اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا ہے اور اسی مناسبت سے سورة کا نام سورة ابراہیم رکھا گیا ہے۔- الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ۔ الۗرٰ ان حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے متعلق بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس میں اسلم اور بےغبار طریقہ سلف صالحین کا ہے کہ اس میں ایمان و یقین رکھیں کہ جو کچھ اس کی مراد ہے وہ حق ہے لیکن اس کے معانی کی تحقیق وتفتیش کے درپے نہ ہوں۔- كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ میں نحوی ترکیب کے لحاظ سے زیادہ واضح اور صاف بات یہ ہے کہ اس کو لفظ ھذا محذوف کی خبر قرار دی جائے اور جملہ کے معنی یہ ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں نازل کرنے کی نسبت حق تعالیٰ شانہ کی طرف اور خطاب کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنے میں دو چیزوں کی طرف اشارہ پایا گیا ایک یہ کہ یہ کتاب نہایت عظیم المرتبہ ہے کہ اس کو خود ذات حق تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے دوسرے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالی مرتبہ ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کو اس کا پہلا مخاطب بنایا ہے لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ۔ لفظ ناس عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے اس سے مراد تمام عالم کے موجود اور آئندہ آنے والے انسان ہیں الظُّلُمٰتِ ظلمۃ کی جمع ہے جس کے معنی اندھیرے کے معروف و مشہور ہیں یہاں الظُّلُمٰتِ سے مراد کفر و شرک اور بداعمالیوں کی ظلمت ہے اور نور سے مراد ایمان کی روشنی ہے اسی لئے لفظ ظلمت کو بصیغہ جمع لایا گیا کیونکہ کفر و شرک کی بہت سی انواع و اقسام ہیں اسی طرح برے اعمال بھی بیشمار ہیں اور لفظ نور کو بصیغہ مفرد لایا گیا کیونکہ ایمان اور حق واحد ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہ کتاب ہم نے اس لیے آپ کی طرف نازل کی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ تمام عالم کے انسانوں کو کفر و شرک اور برے کاموں کی اندھیریوں سے نجات دلا کو ایمان اور حق کی روشنی میں لے آئیں ان کے رب کی اجازت سے یہاں لفظ رب لانے میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام انسانوں پر یہ انعام کہ اپنی کتاب اور پیغمبر کے ذریعہ ان کو اندھیروں سے نجات دلائیں اس کا سبب اور منشاء بجز اس لطف و مہربانی کے اور کچھ نہیں جو تمام انسانوں کے خالق ومالک نے اپنی شان ربوبیت سے ان پر مبذول کر رکھی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق لازم ہے نہ کسی کا زور اس پر چلتا ہے - ہدایت صرف خدا کا فعل ہے :- اس آیت میں اندھیری سے نجات دے کر روشنی میں لانے کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل قرار دیا گیا ہے حالانکہ ہدایت دنیا حقیقت میں حق تعالیٰ ہی کا فعل ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ یعنی آپ باختیار خوش خود کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہدایت دیتا ہے اسی لئے اس آیت میں بِاِذْنِ رَبِّھِمْ کا لفظ بڑھا کر یہ شبہ ختم کردیا گیا کیونکہ معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ یہ کفر و شرک کی اندھیریوں سے نکل کر ایمان وعمل صالح کی روشنی میں لانا اگرچہ اصل حقیقت کی رو سے آپ کے ہاتھ میں نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حکم و اجازت سے آپ کرسکتے ہیں ،- احکام و ہدایات :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم اور نوع انسانی کو برائیوں کی اندھیریوں سے نکالنے اور روشنی میں لانے کا واحد ذریعہ اور انسان و انسانیت کو دنیا وآخرت کی بربادی اور ہلاکت سے نجات دلانے کا واحد راستہ قرآن کریم ہے جتنا لوگ اس کے قریب آئیں گے اسی انداز سے اس دنیا میں بھی امن وامان اور عافیت و اطمینان نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی فلاح و کامیابی حاصل ہوگی اور جتنا اس سے دور ہوں گے اتنا ہی دونوں جہاں کی خرابیوں بربادیوں مصیبتوں اور پریشانیوں کے غار میں گریں گے - آیت کے الفاظ میں یہ نہیں کھولا گیا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے ذریعہ کس طرح لوگوں کو اندہیریوں سے نجات دے کر روشنی میں لائیں گے لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ کسی کتاب کے ذریعہ کسی قوم کو درست کرنے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تعلیمات و ہدایات کو اس قوم میں پھیلایا جائے اور ان کو اس کا پابند کیا جائے - قرآن کریم کی تلاوت بھی مستقل مقصد ہے :- مگر قرآن کریم کی ایک مزید خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت اور بغیر سمجھے ہوئے اس کے الفاظ کا پڑھنا بھی بالخاصہ انسان کے نفس پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کو برائیوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے کم از کم کفر و شرک کے کیسے ہی خوب صورت جال ہوں قرآن پڑھنے والا اگرچہ بےسمجھے ہی پڑھتا ہو ان کے دام میں نہیں آسکتا ہندوؤں کی تحریک شدھی سنگٹھن کے زمانے میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے ان کے دام میں صرف کچھ وہ لوگ آئے جو قرآن کی تلاوت سے بھی بیگانہ تھے آج عیسائی مشنریاں مسلمانوں کے ہر خطہ میں طرح طرح کے سبز باغ اور سنہرے جال لئے پھرتی ہیں لیکن ان کا اگر کوئی اثر پڑتا ہے تو صرف ان گھرانوں پر جو قرآن کی تلاوت سے بھی غافل ہیں خواہ جاہل ہونے کی وجہ سے یا نئی تعلیم کے غلط اثر سے۔- شاید اسی معنوی اثر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم میں جہاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بتلائے گئے ہیں وہاں تعلیم معانی سے پہلے تلاوت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کاموں کے لئے بھیجا گیا ہے پہلا کام قرآن مجید کی تلاوت ہے اور ظاہر ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے معانی سمجھے جاتے ہیں ان کی تلاوت نہیں ہوتی دوسرا کام لوگوں کو برائیوں سے پاک کرنا اور تیسرا کام قرآن کریم اور حکمت یعنی سنت رسول کی تعلیم دینا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جس کے معانی سمجھ کر اس پر عمل کرنا تو اصل مقصد ہی ہے اور اس کا انسانی زندگی کی اصلاح میں مؤ ثر ہونا بھی واضح ہے اس کے ساتھ اس کے الفاظ کی تلاوت کرنا بھی غیر شعوری طور پر انسان کے نفس کی اصلاح میں نمایاں اثر رکھتا ہے۔- اس آیت میں باذن خداوندی اندہیریوں سے نکال کر روشنی میں لانے کی نسبت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کر کے یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اگرچہ ہدایت کا پیدا کرنا حقیقۃ حق تعالیٰ کا فعل ہے مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ کے بغیر اس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا قرآن کریم کا مفہوم اور تعبیر بھی وہی معتبر ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول یا عمل سے بتلا دی ہے اس کے خلاف کوئی تعبیر معتبر نہیں۔- (آیت) صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَافِي السَّمٰوٰتِ وَمَافِي الْاَرْضِ اس آیت کے شروع میں جو ظلمت ونور کا ذکر آیا ہے ظاہر ہے کہ یہ وہ اندہیری اور روشنی نہیں جو عام آنکھوں سے نظر آئے اس لئے اس کو واضح کرنے کے لئے اس جملے میں ارشاد فرمایا کہ وہ روشنی اللہ کا راستہ ہے جس پر گامزن ہونے والا نہ اندھیرے میں چلنے والے کی طرح بھٹکتا ہے نہ اس کو لغزش ہوتی ہے نہ وہ مقصد تک پہنچنے میں ناکام ہوتا ہے اللہ کے راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان خدا تک پہنچ سکے اور اس کی رضا کا درجہ حاصل کرسکے۔- اس جگہ لفظ اللہ تو بعد میں لایا گیا اس سے پہلے اس کی دو صفتیں عزیز اور حمید ذکر کی گئی ہیں عزیز کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے قوی اور غالب کے ہیں اور حمید کے معنی وہ ذات جو حمد کی مستحق ہو ان دو صفتوں کو اصل نام حق سے پہلے لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ جس ذات قدوس کی طرف لے جانے والا ہے وہ قوی اور غالب بھی ہے اور ہر حمد کی مستحق بھی اس لئے اس پر چلنے والا نہ کہیں ٹھوکر کھائے گا نہ اس کی کوشش رائیگاں ہوگی بلکہ اس کا منزل مقصود پر پہنچنا یقینی ہے شرط یہ ہے کہ اس راستہ کو نہ چھوڑے۔
الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ظلم - الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - نور - النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
(١) الر۔ یعنی میں اللہ ہوں جو کچھ تم کہہ رہے ہو اور کر رہے ہو میں سب سے باخبر ہوں یا یہ کہ ایک قسم ہے، یہ ایک کتاب ہے جس کو جبریل امین کے ذریعے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ اہل مکہ کو اپنے پروردگار کے حکم سے کفر سے ایمان کی طرف لائیں اور اس اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں جو ایمان نہ لانے والوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔
الۗرٰ - اس مقام پر حروف مقطعات کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مکی سورتوں کے اس سلسلے کے پہلے ذیلی گروپ کی تینوں سورتوں (یونس ، ہود اور یوسف) کا آغاز الۗرٰ سے ہو رہا ہے ‘ جبکہ دوسرے ذیلی گروپ کی پہلی سورة (الرعد) ا آمآرٰ سے اور دوسری دونوں سورتیں (ابراہیم اور الحجر) پھر الۗرٰ سے ہی شروع ہورہی ہیں۔- (كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ )- قرآن کریم میں اندھیرے کے لیے لفظ ” ظُلُمات “ ہمیشہ جمع اور اس کے مقابلے میں ” نُور “ ہمیشہ واحد استعمال ہوا ہے۔ چونکہ کسی فرد کی ہدایت کے لیے فیصلہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ آپ کا انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہ عمل اللہ کے حکم اور اس کی منظوری سے ہوگا۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :1 یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو ۔ بخلاف اس کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا ، چاہے وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تم ان کو اپنے رب کے اذن یا اس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلغ ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو ، راہ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اس کے بس میں نہیں ہے ۔ اس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اس کے اذن پر ہے ۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے ، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا ۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو ، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو ، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو ، کھلی آنکھوں سے دیکھے ، کھلے کانوں سے سنے ، صاف دماغ سے سوچے ، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :2 حمید کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے ، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے ۔ محمود کسی شخص کو اسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو ۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے ، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات ، سزاوار حمد اور مستحق تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا ، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اپنی ذات میں آپ محمود کیا ہے ۔