Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] علم غیب اور شہادت کی صورتیں :۔ یعنی ماضی، حال اور مستقبل اللہ کی نگاہوں میں یکساں حیثیت رکھتے ہیں، وہ پیش آنے والے حالات کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح گزرے ہوئے واقعات اور موجودہ حالات کو جانتا ہے یا وہ ان قوانین فطرت کو بھی اسی طرح جانتا ہے جنہیں ابھی تک انسان دریافت نہیں کرسکا یا وہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ جس طرح ان قوانین کو جانتا ہے جنہیں انسان دریافت کرچکا ہے یا کر رہا ہے۔ غرض غیب اور شہادت اتنے وسیع المفہوم الفاظ ہیں کہ ان میں بہت سے معانی کی گنجائش موجود ہے اور اس کے علم کی یہ لامحدود وسعت ہی اس کے سب سے بڑا اور عالی شان ہونے کی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۔۔ :” الْكَبِيْرُ “ میں بھی مبالغہ ہے اور ” الْمُتَعَالِ “ (جو اصل میں ” عَلَا یَعْلُوْ “ کے باب تفاعل سے ” مُتَعَالِوٌ“ تھا) میں حروف زیادہ ہونے سے معنی میں مبالغہ مراد ہے۔ ” مُتَعَالِوٌ“ کی ” واؤ “ کو ” یاء “ سے بدلا تو ” مُتَعَالِیٌ“ ہوا، پھر ” یاء “ کو آیات کے آخری الفاظ (جنھیں اصطلاح میں فاصلہ، فواصل کہتے ہیں) کی موافقت اور تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کی کبریائی اور بلندی کا بیحد و حساب ہونا بیان ہوا ہے، جو درحقیقت پچھلی بات ہی کی تاکید ہے۔ ” الْغَيْبِ “ مصدر ہے، بمعنی اسم فاعل، یعنی غائب جو حواس اور بدیہ عقل سے غائب ہو۔ ” وَالشَّهَادَةِ “ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی جو شاہد و حاضر ہے۔ اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لانے سے مبالغہ مقصود ہے، جیسے ” زَیْدٌ عَادِلٌ“ کے بجائے ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ کہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- وہ تمام پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے سب سے بڑا (اور) عالی شان ہے تم میں سے جو شخص کوئی بات چپکے سے کہے اور جو پکار کر کہے اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے اور جو دن میں چلے پھرے یہ سب (خدا کے علم میں) برابر ہیں (یعنی سب کو یکساں جانتا ہے اور جیسا تم میں سے ہر شخص کو جانتا ہے اسی طرح ہر ایک کی حفاظت بھی کرتا ہے چناچہ تم میں سے) ہر شخص ( کی حفاظت) کے لئے فرشتے (مقرر) ہیں جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے کچھ اس کے آگے اور کچھ اس کے پیچھے کہ وہ بحکم خدا ( بہت بلاؤں سے) اس کی حفاظت کرتے ہیں (اور اس سے کوئی یوں نہ سمجھ جائے کہ جب فرشتے ہمارے محافظ ہیں پھر جو چاہو کرو معصیت خواہ کفر کسی طرح عذاب نازل ہی نہ ہوگا یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ (ابتدا تو کسی کو عذاب دیتا نہیں چناچہ اس کی عادت ہے کہ وہ) کسی قوم کی (اچھی) حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی (صلاحیت کی) حالت کو نہیں بدل دیتے) مگر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جب وہ اپنی صلاحیت میں خلل ڈالنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مصیبت و عقوبت تجویز کی جاتی ہے) اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر مصیبت ڈالنا تجویز کرلیتا ہے تو پھر اس کے ہٹنے کی کوئی صورت ہی نہیں (وہ واقع ہوجاتی ہے) اور (ایسے وقت میں) کوئی خدا کے سوا ( جن کی حفاظت کا ان کو زعم ہے) ان کا مددگار نہیں رہتا ہے (حتی کہ فرشتے بھی ان کی حفاظت نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی تو حفاظت ان کے کام نہ آسکتی) وہ ایسا ( عظیم الشان) ہے کہ تم کو (بارش کے وقت) بجلی ( چمکتی ہوئی) دکھلاتا ہے جس سے (اس کے گرنے کا) ڈر بھی ہوتا ہے اور (اس سے بارش کی) امید بھی ہوتی ہے اور وہ بادلوں کو (بھی) بلند کرتا ہے جو پانی سے بھرے ہوتے ہیں اور رعد (فرشتہ) اس کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتا ہے اور (دوسرے) فرشتے بھی اس کے خوف سے ( اس کی تحمید و تسبیح کرتے ہیں) اور وہ (زمین کی طرف) بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہے گرا دیتا ہے اور وہ لوگ اللہ کے بارے میں (یعنی اس کی توحید میں باوجود اس کے ایسے عظیم الشان ہونے کے) جھگڑتے ہیں حالانکہ وہ بڑا شدید القوت ہے (جس سے ڈرنا چاہئے مگر یہ لوگ ڈرتے نہیں اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور وہ ایسا مجیب الدعوات ہے) کہ سچا پکارنا اسی کے لئے خاص ہے (کیونکہ اس کو قبول کرنے کی قدرت ہے) اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ ( اپنے حوائج و مصائب میں) پکارتے ہیں وہ (بوجہ عدم قدرت کے) ان کی درخواست کو اس سے زیادہ منظور نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی درخواست کو منظور کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوتا ہو (اور اس کو اشارہ سے اپنی طرف بلا رہا ہو) تاکہ وہ (پانی) اس کے منہ تک (اڑ کر) آجاوے اور وہ ( از خود) اس کے منہ تک ( کسی طرح) آنیوالا نہیں (پس جس طرح پانی ان کی درخواست قبول کرنے سے عاجز ہے اسی طرح ان کے معبود عاجز ہیں اس لئے) کافروں کی (ان سے) درخواست کرنا محض بےاثر ہے اور اللہ ہی (ایسا قادر مطلق ہے کہ اسی) کے سامنے سب سرخم کئے ہوئے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں (بعضے) خوشی سے اور (بعضے) مجبوری سے (خوشی سے یہ کہ باختیار خود عبادت کرتے ہیں اور مجبوری کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق میں جو تصرف کرنا چاہتے ہیں وہ اس کی مخالفت نہیں کرسکتا) اور ان (زمین والوں) کے سائے بھی ( سرخم کئے ہیں) صبح اور شام کے وقتوں میں (یعنی سایہ کو جتنا چاہیں بڑھائیں جتنا چاہیں گھٹائیں اور صبح وشام کے وقت چونکہ دراز ہونے اور گھٹنے کا زیادہ ظہور ہوتا ہے اس لئے تخصیص کی گئی ورنہ سایہ بھی بایں معنی ہر طرح مطیع ہے)- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ سے پہلے اللہ جل شانہ کی مخصوص صفات کمال کا سلسلہ چل رہا ہے جو در حقیقت توحید کے دلائل ہیں اس آیت میں فرمایا،- عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَال غیب سے مراد وہ چیز ہے جو انسانی حواس سے غائب ہو یعنی نہ آنکھوں سے اس کو دیکھا جاسکے نہ کانوں سے سنا جاسکے نہ ناک سے سونگھا جاسکے نہ زبان سے چکھا جاسکے نہ ہاتھوں سے چھو کر معلوم کیا جاسکے - شہادت اس کے بالمقابل وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی حواس مذکورہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کی خاص صفت کمال یہ ہے کہ وہ ہر غیب کو اس طرح جانتا ہے جس طرح حاضر و موجود کو جانتا ہے - الکبیر کے معنی بڑا اور متعال کے معنی بالا و بلند مراد ان دونوں لفظوں سے یہ ہے وہ مخلوقات کی صفات سے بالا وبلند اور اکبر ہے کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ کے لئے اجمالی طور بڑائی اور کبریائی کا تو اقرار کرتے تھے مگر اپنے قصور فہم سے اللہ تعالیٰ کو بھی عام انسانوں پر قیاس کر کے اللہ کے لئے ایسی صفات ثابت کرتے تھے جو اس کی شان سے بہت بعید ہیں جیسے یہود و نصارٰی نے اللہ کے لئے بیٹا ثابت کیا کسی نے اللہ کے لئے انسان کی طرح جسم اور اعضاء ثابت کئے کسی نے جہت اور سمت کو ثابت کیا حالانکہ وہ ان تمام حالات وصفات سے بالا و بلند اور منزہ ہے قرآن کریم نے ان کی بیان کردہ صفات سے برات کے لئے بار بار فرمایا سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْن یعنی پاک ہے اللہ ان صفات سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں - پہلے جملہ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ میں نیز اس سے پہلی آیت اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ میں اللہ جل شانہ کے کمال علمی کا بیان تھا اس دوسرے جملے الْكَبِيْرُ الْمُتَعَال میں کمال قدرت و عظمت کا ذکر ہے کہ ان کی طاقت وقدرت انسانی تصورات سے بالاتر ہے اس کے بعد کی آیت میں بھی اسی کمال علمی اور کمال قدرت کو ایک خاص انداز سے بیان فرمایا ہے :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ ۝- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) اور وہ تمام ان باتوں کو جو بندوں سے پوشیدہ ہیں اور جو انکو معلوم ہیں اللہ تعالیٰ سب کو جاننے والا ہے اور کہا گیا ہے کہ غیب سے رماد وہ چیزیں ہیں جو ہونے والی ہیں اور شہادۃ سے مراد وہ ہیں جو ہو چکیں اور کہا گیا ہے کہ غیب سے مراد مادر میں لڑکے وغیرہ کا وجود اور شہادۃ سے اس کا خروج مراد ہے، وہ سب سے بڑا ہے اس سے بڑی اور بلند اور کوئی چیز نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani