Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 متجورات۔ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ 4۔ 2 صنوان۔ کے ایک معنی ملے ہوئے اور غیر صنوان۔ کے جداجدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صنوان، ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ 4۔ 3 یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] نباتات میں بیشمار مماثلتوں کے باوجود اختلاف۔ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کھیت ایک ہی جگہ واقع ہوتے ہیں۔ ان میں بیج ایک جیساڈالا جاتا ہے۔ پانی اسپر ایک ہی برستا ہے یا ایک ہی طرح کے پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ مگر ایک کھیت میں فصل اعلیٰ درجہ کی پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملے ہوئے کھیت میں فصل بھی کم ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ اسی طرح مثلاً کھجور کے دو درخت ہیں مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے، اوپر سے دو ہوگئے۔ اب ایک ہی جڑ زمین سے پانی کھینچ کر دونوں درختوں کو تر و تازہ رکھ رہی ہے اور انھیں بارآور ہونے میں تقویت پہنچا رہی ہے۔ مگر ایک درخت کے پھل کا ذائقہ الگ ہے اور دوسرے کا الگ۔ ایک کا پھل عمدہ ہوتا ہے اور دوسرے کا ناقص، کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور کونسی ایسی ہستی ہے جو اتنی مماثلتوں کے باوجود پھر ان کے پھلوں میں اختلاف واقع کردیتی ہے ؟ یا ایک ہی قطعہ زمین سے دو درخت ہیں، ایک کھجور کا ہے۔ دوسرا نیم کا ہے۔ دونوں کی جڑیں ایک ہی قطعہ زمین میں پانی کھینچ رہی ہیں کھجور کے پھل میں مٹھاس بھری جارہی ہے اور نیم یا بکائن کے درخت میں کڑواہٹ۔ کہ اس ایک ہی قطعہ زمین میں اتنی مٹھاس اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی کڑواہٹ موجود ہے کہ وہ بیک وقت دونوں درختوں کے پھلوں کو مٹھاس اور کڑواہٹ بہم پہنچا سکے ؟ غرض اگر یہ لوگ ایسی باتوں میں غور و فکر کریں تو معرفت الٰہی کے بیشمار دلائل مل سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ ۔۔ : ” قِطَعٌ“ ” قِطْعَۃٌ“ کی جمع ہے، بمعنی ٹکڑے۔” مُّتَجٰوِرٰتٌ“ ” جِوَارٌ“ (ہمسائیگی) سے باب تفاعل کا اسم فاعل ہے، یعنی ساری زمین ایک جیسی نہیں، کوئی ٹکڑا زرخیز زمین کا ہے کوئی شور کا، کوئی نرم زمین ہے کوئی پتھریلی اور یہ سب قطعے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں، اب اسی زمین میں کسی علاقے میں کوئی کھیتی اور پھل پیدا ہوتا ہے کسی میں کوئی، اور اسی میں انگوروں (اور دوسرے پھلوں) کے باغات ہیں (قرآن کا اختصار دیکھیے کہ صرف انگوروں کا ذکر کرکے باقی باغات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیے) اور کھیتی ہے (اس میں ہر کھیتی آگئی) اور کھجوروں کے درخت دو قسم کے ہیں (” صِنْوَانٌ“ ” صِنْوٌ“ کی جمع ہے، تثنیہ بھی یہی ہے، اس کا اصل معنی مثل ہے، جیسے فرمایا : ” عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ “ یعنی آدمی کا چچا اس کے باپ کی مثل ہے۔ کھجور کا تنا نیچے سے ایک ہو اور اوپر اس تنے سے کئی تنے نکلیں تو وہ ” صنوان “ ہے اور اگر یہ ایک ہی تنا رہے تو یہ ” وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ “ ہے ) اس قسم کے دوسرے درخت اس سے خود سمجھ لیں۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، پھر اسی زمین اور اسی پانی سے کوئی پھل کڑوا پیدا ہو رہا ہے کوئی میٹھا، کوئی بدمزہ کوئی مزیدار اور کوئی اس سے بھی بڑھ کر لذت والا۔ پھر دیکھیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قُبْضَۃٍ قَبَضَھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْھُمُ الْأَبْیَضُ وَالْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَالسَّھْلُ وَالْحَزْنُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ ) [ مسند أحمد : ٤؍ ٤٠٠، ح : ١٩٦٠١۔ ترمذی : ٢٩٥٥۔ أبوداوٗد : ٤٦٩٣، و صححہ الألبانی ] ” آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے لیے پوری روئے زمین سے اللہ تعالیٰ نے ایک مٹھی لی (جس میں سفید، سیاہ، سرخ ہر رنگ اور نرم، سخت، شور، زرخیز ہر قسم کی مٹی آگئی) اور آدم کی اولاد اسی کے مطابق کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی سیاہ، کوئی اس کے درمیان، کوئی نرم کوئی سخت اور کوئی خبیث کوئی طیب پیدا ہوتی ہے۔ “ ایک ہی زمین، ایک ہی پانی، ایک ہی باپ اور اسی کے نطفے سے بیشمار رنگا رنگ انسان پیدا ہوئے۔ - اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ : معلوم ہوا کوئی کمال کاریگر اور پوری قدرت والا مدبر ہے جس کے کرنے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختلف مقامات پر کیا ہے۔ عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس میں بیشمار نشانیاں ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لیے کوئی نشانی نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ یعنی پھر زمین میں بہت سے قطعے آپس میں ملے ہوئے ہونے کے باوجود مزاج اور خاصیت میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین ہے کوئی کھاری کوئی نرم کوئی سخت کوئی کھیتی کے قابل کوئی باغ کے قابل اور ان قطعات میں باغات ہیں انگور کے اور کھیتی ہے اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض ایسے ہیں کہ ایک تنے سے اوپر جا کردو تنے ہوجاتے ہیں اور بعض میں ایک ہی تنہ رہتا ہے۔- اور یہ سارے پھل اگرچہ ایک ہی زمین سے پیدا ہوتے ہیں ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے اور آفتاب وماہتاب کی شعاعیں اور مختلف قسم کی ہوائیں بھی ان سب کو یکساں پہونچتی ہیں مگر پھر بھی ان کے رنگ اور ذائقے مختلف اور چھوٹے بڑے کا نمایاں فرق ہوتا ہے۔- باوجود اتصال کے پھر یہ طرح طرح کے اختلافات اس بات کی قوی اور واضح دلیل ہے کہ یہ سب کاروبار کسی حکیم و مدبر کے فرمان کے تابع چل رہا ہے محض مادے کے تطورات نہیں جیسا کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں کیونکہ مادے کے تطورات ہوتے تو سب مواد کے مشترک ہونے کے باوجود یہ اختلاف کیسے ہوتا ایک ہی زمین سے ایک پھل ایک موسم میں نکلتا ہے دوسرا دوسرے موسم میں ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر مختلف قسم کے چھوٹے بڑے اور مختلف ذائقہ کے پھل پیدا ہوتے ہیں - اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ اس میں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور اس کی وحدت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ ہے کہ جو لوگ ان چیزوں میں غور نہیں کرتے وہ عقل والے نہیں گو دنیا میں ان کو کیسا ہی عقلمند سمجھا اور کہا جاتا ہو

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ۝- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر ) الجار - پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ - قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔- عنب - العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی:- وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ- [ الإسراء 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] ،- ( عن ن ب ) العنب - ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] اور انگوروں کے باغ ۔ - زرع - الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] - ( ز ر ع ) الزرع - اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ - صنو - الصِّنْوُ : الغصنُ الخارج عن أصل الشّجرة، يقال : هُمَا صِنْوَا نخلةٍ ، وفلانٌ صِنْوُ أبيه، والتّثنية : صِنْوَانِ ، وجمعه صِنْوَانٌ «1» . قال تعالی: صِنْوانٌ وَغَيْرُ صِنْوانٍ [ الرعد 4] .- ( ص ن و ) الصنو - کسی درخت کی جڑ سے جو مختلف شاخین پھوٹتی ہیں ان میں سے ہر ایک کو صنو کہاجاتا ہے محاورہ ہے فلان صنوا بیہ فلاں اس کے باپ کا حقیقی بھائی ہے ( کیونکہ باپ اور چچا ایک ہی اصل کی دوشاخیں ہوتی ہیں صنو کا تثنیہ صنوان اور جمع صنوان آتی ہے چناچہ کہاجاتا ہے ھما صنواتخلۃ وہ دونوں ایک ہی کھجور کی دو شاخیں ہیں ( یعنی ان کی اصل ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : صِنْوانٌ وَغَيْرُ صِنْوانٍ [ الرعد 4] بعض کھجوریں ایسی ہیں جو ایک ہی جڑ سے پھوٹتی ہیں اور بعض الگ الگ جڑوں سے .- سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منه کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے معیض کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ 1) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

زمین کے خطے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں - قول باری ہے (وفی الارض قطع متجاورات، اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے زمین شورا اور زمین شیریں مراد ہے۔ قول باری ہے (ونخیل صہنوان۔ کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) حضرت براء بن عازب (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ کھجور کے ایسے درخت جن کی جڑیں اکہری ہوں۔ قول باری ہے (یسقی بماء واحد و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر) آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان کی واضح ترین دلالت موجود ہے جو کہتے ہیں کہ پھلوں وغیرہ کی پیدائش کا دارومدار مٹی کی طبیعت ہوا اور پانی پر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اصحاب الطبائع کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اگر پیدا ہونے والے پھلوں کی پیدائش کا انحصار مٹی کی خصوصیت نیز پانی اور ہوا پر ہوتا تو پھر یہ ضروری ہوتا کہ تمام پھل ایک جیسے ہوتے اس لئے کہ ان کی پیدائش کا سبب اور موجب ایک جیسا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک مٹی کی یکساں خاصیت اس سے پیدا ہونے والے پھلوں کی یکسانیت کو واجد کرتی ہے اور یہ درست نہیں ہوتا کہ یکساں طبیعت اور خاصیت دو مختلف اور متضاد اقعال کے حدوث کی موجب بن جائے اگر ان اشیاء کا حدوث جن کے رنگ، مزے، خوشبوئیں اور شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یکساں طبیعت اور خاصیت کی ایجاد کا نتیجہ ہوتا تو موجب کی یکسانیت کے ہوتے ہوئے ان کا اختلاف اور تضاد محال ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان اشیاء کو وجود میں لانے والا اللہ تعالیٰ جو قادر، مختار اور حکیم ہے، جس نے ان اشیاء کو اپنے علم اور قدرت سے مختلف شکلوں اور خصوصیتوں والی بنا کر پیدا کیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) اور زمین میں پاس پاس مختلف قطعے ہیں کہ کھاری اور خراب زمین کا حصہ ہے اور اسی کے ساتھ صاف شیریں اور ٹھنڈی زمین کا حصہ ہے کہ یہ حصے ایک دوسرے سے ملحق ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور مختلف کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ نیچے سے ایک ہی جڑ ہے اور اوپر جا کر دس اور اس سے زیادہ اور کم جڑیں ہوجاتی ہیں اور بعض میں جڑیں جدا جدا نہیں ہوتیں بلکہ ایک ہی جڑ رہتی ہے، سب کو بارش یا نہر ہی کا پانی دیا جاتا ہے، اس کے باوجود ہم ایک کو دوسرے پر وزن اور لذت میں فوقیت دیتے ہیں اور ان مزوں اور رنگوں کے اختلافات ہیں ان حضرات کے لیے دلائل ہیں جو ان تمام چیزوں کی منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ )- ایک ہی زمین میں ایک ہی جڑ سے کھجور کے دو درخت اگتے ہیں ‘ دونوں کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن دونوں کے پھلوں کا اپنا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ - (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ )- یہ التذکیر بالآء اللّٰہ کا انداز ہے جس میں بار بار اللہ کی قدرتوں نشانیوں اور نعمتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :9 یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار خطے پیدا کر دیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں ، رنگ میں ، مادہ ترکیب میں ، خاصیتوں میں ، قوتوں اور صلاحیتوں میں ، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ان مختلف خطوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا ۔ دوسری مخلوقات سے قطع نظر ، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے ان خطوں کی گونا گونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں ، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں ، وہ یقینا کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمندانہ ارادے کا نتیجہ ہیں ۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کےلیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :10 کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :11 اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے ۔ ایک ہی زمین ہے ، مگر اس کےقطعے اپنے اپنے رنگوں ، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں ۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں ۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے ۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے ۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ میں فرمایا گیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانوں کو یکساں بنا سکتا تھا ، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگا رنگی کی متقاضی ہے ۔ سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامہ وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی پاس پاس ہونے کے باوجود زمین کے مختلف حصوں کی خصوصیات میں فرق ہوتا ہے زمین کا ایک قطعہ کاشت کے لائق ہے، مگر اس کے بالکل برابر والا کاشت کے لائق نہیں۔ ایک حصے سے میٹھا پانی نکل رہا ہے۔ مگر اس کے قریب ہی دوسرے حصے سے کھارا پانی بر آمد ہوتا ہے۔ ایک قطعہ نرم ہے اور دوسرا سنگلاخ۔ 8: یعنی کسی درخت سے زیادہ پھل نکلتے ہیں کسی سے کم، کسی کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے، اور کسی کا اتنا اچھا نہیں ہوتا۔