قرآن حکیم کی صفات جلیلہ اللہ تعالیٰ اس پاک کتاب قرآن کریم کی تعریفیں بیان فرما رہا ہے اگر سابقہ کتابوں میں کسی کتاب کے ساتھ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جانے والے اور زمین پھٹ جانے والی اور مردے جی اٹھنے والے ہو تے تو یہ قرآن جو تمام سابقہ کتابوں سے بڑھ چڑھ کر ہے ان سب سے زیادہ اس بات کا اہل تھا اس میں تو وہ معجز بیانی ہے کہ سارے جنات وانسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت نہ بنا کر لا سکے ۔ یہ مشرکین اس کے بھی منکر ہیں تو معاملہ سپرد رب کرو ۔ وہ مالک کل کہ ، تمام کاموں کا مرجع وہی ہے ، وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا ۔ اس کے بھٹکائے ہوئے کی رہبری اور اس کے راہ دکھائے ہوئے کی گمراہی کسی کے بس میں نہیں ۔ یہ یاد رہے کہ قرآن کا اطلاق اگلی الہامی کتابوں پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ وہ سب سے مشتق ہے ۔ مسند میں ہے حضرت داؤد پر قرآن اس قد رآسان کر دیا گیا تھا کہ ان کے حکم سے سواری کسی جاتی اس کے تیار ہونے سے پہلے ہی وہ قرآن کو ختم کر لیتے ، سوا اپنے ہاتھ کی کمائی کے وہ اور کچھ نہ کھاتے تھے ۔ پس مراد یہاں قرآن سے زبور ہے ۔ کیا ایماندار اب تک اس سے مایوس نہیں ہوئے کہ تمام مخلوق ایمان نہیں لائے گی ۔ کیا وہ مشیت الہٰی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں ۔ رب کی یہ منشاہی نہیں اگر ہوتی تو روئے زمین کے لوگ مسلمان ہو جاتے ۔ بھلا اس قرآن کے بعد کس معجزے کی ضرورت دنیا کو رہ گئی ؟ اس سے بہتر واضح ، اس سے صاف ، اس سے زیادہ دلوں میں گھر کرنے والا اور کون سا کلام ہو گا ؟ اسے تو اگر بڑے سے بڑے پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ بھی خشیت الہٰی سے چکنا چور ہو جاتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کو ایسی چیز ملی کہ لوگ اس پر ایمان لائیں ۔ میری ایسی چیز اللہ کی یہ وحی ہے پس مجھے امید ہے کہ سب نبیوں سے زیادہ تابعداروں والا میں ہو جاؤں گا ۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ ہی چلے گئے اور میرا یہ معجزہ جیتا جاگتا رہتی دنیا تک رہے گا ، نہ اس کے عجائبات ختم ہوں نہ یہ کثرت تلاوت سے پرانا ہو نہ اس سے علماء کا پیٹ بہر جائے ۔ یہ فضل ہے دل لگی نہیں ۔ جو سرکش اسے چھوڑ دے گا اللہ اسے توڑ دے گا جو اس کے سوا اور میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کافروں نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ یہاں کے پہاڑ یہاں سے ہٹوا دیں اور یہاں کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے اور جس طرح سیلمان علیہ السلام زمین کی کھدائی ہوا سے کراتے تھے آپ بھی کرا دیجئے یا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے آپ بھی کر دیجئے اس پر یہ آیت اتری قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قرآن کے ساتھ یہ امور ظاہر ہوتے تو اس تمہارے قرآن کے ساتھ بھی ہوتے سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تاکہ تم سب کو آزما لے اپنے اختیار سے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ۔ کیا ایمان والے نہیں جانتے ؟ یا لیئس کے بدلے دوسری جگہ یتبیتن بھی ہے ایمان دار ان کی ہدایت سے مایوس ہو چکے تھے ۔ ہاں اللہ کے اختیار میں کسی کا بس نہیں وہ اگر چاہے تمام مخلوق کو ہدایت پر کھڑا کر دے ۔ یہ کفار برابر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے اللہ کے عذاب برابر ان پر برستے رہتے ہیں یا ان کے آس پاس آ جاتے ہیں پھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) یعنی ہم نے تمہارے آس پاس کی بہت سی بستیوں کو ان کی بد کرداریوں کی وجہ سے غارت وبرباد کر دیا اور طرح طرح سے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں کہ لوگ برائیوں سے باز رہیں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ۭوَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 13 ۔ الرعد:41 ) کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آ رہے ہیں کیا اب بھی اپنا ہی غلبہ مانتے چلے جائیں گے ؟ تحل کا فاعل قارعہ ہے یہی ظاہر اور مطابق روانی عبارت ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قارعہ پہنچے یعنی چھوٹا سا لشکر اسلامی یا تو خود ان کے شہر کے قریب اتر پڑے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ وعدہ ربانی آ پہنچے اس سے مراد فتح مکہ ہے ۔ آپ سے ہی مروی ہے کہ قارعہ سے مراد آسمانی عذاب ہے اور آس پاس اترنے سے مراد انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے لشکروں سمیت ان کی حدود میں پہنچ جانا ہے اور ان سے جہاد کرنا ہے ۔ ان سب کا قول ہے کہ یہاں وعدہ الہٰی سے مراد فتح مکہ ہے ۔ لیکن حسن بصری رحمتۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں کی نصرت وامداد کا ہے وہ کبھی ٹلنے والا نہیں انہیں اور ان کے تابعداروں کو ضرور بلندی نصیب ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ولا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ ان اللہ عزیز ذو انتقام ) یہ غلظ گمان ہرگز نہ کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے ۔ اللہ غلب ہے اور بدلہ لینے والا ۔
31۔ 1 امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ہر آسمانی کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے، جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) ، جانور کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور اتنی دیر میں ایک مرتبہ قرآن کا ورد کرلیتے (صحیح بخاری) یہاں ظاہر بات ہے قرآن سے مراد زبور ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر پہلے کوئی آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کر پہاڑ رواں دواں ہوجاتے یا زمین کی مسافت طے ہوجاتی یا مردے بول اٹھتے تو قرآن کریم کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی، کیونکہ یہ اعجاز و بلاغت میں پچھلی کتابوں سے فائق ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس قرآن کے ذریعے سے معجزات ظاہر ہوتے، تب بھی کفار ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، معجزوں پر نہیں۔ اسی لئے فرمایا، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ 31۔ 2 جو ان کے مشاہدے یا علم میں ضرور آئے گا تاکہ وہ عبرت پکڑ سکیں۔ 31۔ 3 یعنی قیامت واقعہ ہوجائے، یا اہل اسلام کو قطعی فتح و غلبہ حاصل ہوجائے۔
[٤١] حسی معجرات دکھلانے بےسود ہیں :۔ لفظ قُطّعت آیا ہے اور قطع ارض کے معنی فاصلہ طے کرنا اور قَطّع بمعنی ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور بمعنی پھاڑ دینا یا شق کردینا ہے اور یہ سب معنی یہاں مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی فاصلے فوراً طے کرا دیئے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا شق ہوجاتی اور اس آیت میں قریش کے ان حسی معجزات کے مطالبوں کا ذکر ہے جو وہ گاہے گاہے کرتے رہتے تھے مثلاً ایک یہ کہ یہ جو مکہ کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔ یہ یہاں سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ ہمارے لیے زمین کشادہ ہوجائے، دوسرا یہ کہ یہ زمین پھٹ جائے اور اس سے چشمے جاری ہوں تاکہ ہمارے لئے پانی کی قلت دور ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ ہمارے مرے ہوئے آباؤ اجداد میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر ہمارے سامنے آئے اور اس بات کی تصدیق کرے جو تم ہمیں دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق بتاتے رہتے ہو تو تب ہم تمہاری تصدیق کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس پر عمل پیرا ہونے سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوجاتے تو یہی قرآن ہوسکتا تھا۔ مگر تم لوگ پھر بھی ایمان نہ لاتے اور اگر ہم تمہیں ان میں سے کوئی معجزہ دکھا بھی دیں تو تم پھر بھی اسے جادو کا کرشمہ ہی کہہ دو گے۔ ایمان پھر نہیں لاؤ گے۔- [٤٢] کفار کے بار بار کسی ایسے حسی معجزہ کے مطالبہ پر بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو بہتر ہوگا۔ یہ کافر لوگ ایمان لے آئیں تو ہماری مشکلات میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔ اس بات کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ فی الواقع ایسا معجزہ دکھانا، اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ ہر طرح کے امور پر صرف اسی کا اختیار و تصرف ہے۔ مگر مومنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ایسا معجزہ دکھانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ پہلے یہ بتلائی گئی کہ یہ کافر ایسا معجزہ دیکھ بھی لیں تو ایمان نہیں لائیں گے بلکہ ان کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوگا اور یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر مطلوب یہی ہوتا کہ کافر ایسا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں تو اللہ انھیں ایسا معجزہ دکھائے بغیر بھی یہ قدرت رکھتا ہے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کردے مگر ایسے ایمان کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ قدر و قیمت تو اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی سے اور سوچ سمجھ کر ایمان لائے۔- [٤٣] لفظ تَحُلُ کو اگر واحد مونث غائب کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے اور اگر اسے واحد مذکر حاضر کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا۔ یا آپ ان کافروں کے گھروں کے پاس اتریں گے اور اس سے مراد مکہ کی فتح ہوگا جیسا کہ ( وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ ) 90 ۔ البلد :2) میں بھی مذکور ہے۔ اس آیت میں خطاب صرف مکہ کے کافروں سے نہیں بلکہ تمام کافروں سے ہے۔ اور پہلے معنی کے لحاظ سے ان مصائب سے مراد قحط، غزوہ بدر میں کافروں کی شکست فاش اور دوسرے مصائب ہیں اور اللہ کے وعدہ سے مراد فتح مکہ ہے جس کے نتیجہ میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو ان کے گھروں کے قریب پڑنے والی مصیبت سے مراد صلح حدیبیہ جو انجام کے لحاظ سے کافروں کے حق میں بہت بری ثابت ہوئی اور اللہ کے وعدہ سے مراد بہرحال مکہ کی فتح ہے۔
وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ : ” قُرْاٰنًا “ نکرہ ہے، کوئی قرآن، یعنی پڑھی جانے والی کوئی کتاب۔ ” لو “ شرطیہ ہے، اس کا جواب محذوف ہے، جو آیت کے سیاق وسباق سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے اور قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر موجود بھی ہے۔ تفاسیر میں دو جواب مذکور ہیں اور دونوں درست ہیں، ایک تو یہ کہ اگر واقعی کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے سے پہاڑ چلائے جاتے، یا اس کے ذریعے سے زمین قطع کی جاتی، یا اس کے ذریعے سے مردوں سے کلام کیا جاتا تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، کیونکہ یہ ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں۔ ان تین چیزوں کا خصوصاً ذکر اس لیے کیا کہ قرآن مجید کے معجزے کے بعد، جس کے چیلنج کے مقابلے میں سب لاجواب ہوچکے تھے، اب وہ لوگ خصوصاً انھی تین چیزوں کے دکھانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب لاجواب ہونے کے باوجود یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائے تو اگر کوئی ایسا قرآن بھی آجائے جس سے ان کے مطالبے پورے ہوں، پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، کیونکہ تمام کام تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور یہ لوگ جب عناد کی وجہ سے اس قرآن پر ایمان نہ لا کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نشانہ بن چکے ہیں، جو سب معجزوں سے بڑا معجزہ ہے، تو اپنے مطلوبہ معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان کو ایمان لانے کی توفیق کیسے ملے گی اور کہاں سے ملے گی۔ جب کوئی جان بوجھ کر آنکھیں ہی بند کرلے تو کوئی اسے کس طرح دکھا سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ) [ الأنعام : ١١١ ] ” اور اگر واقعی ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لا جمع کرتے تو بھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے اور لیکن ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔ “ اس آیت سے ” لَوْ “ کا جواب صراحت کے ساتھ معلوم ہو رہا ہے۔ - دوسرا جواب اس ” لَوْ “ کا یہ ہے کہ ان صفات کا حامل اگر کوئی قرآن ہوتا تو وہ یہی قرآن تھا، جیسا کہ فرمایا : (لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ) [ الحشر : ٢١ ] ” اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقیناً تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا۔ “ اس میں اس قرآن کی عظمت کا بیان ہے کہ تم جو مطالبے کر رہے ہو قرآن کے لیے ان میں سے کوئی بھی پورا کرنا مشکل نہیں، مگر سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ایسا کرنا اس کی حکمت کے خلاف ہے، کیونکہ اس کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں تمہیں عذاب سے ملیامیٹ کردیا جاتا، جیسا کہ پہلی امتوں کے ساتھ ہوا۔ - اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : مفسرین نے ” اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ “ کے دو معنی لکھے ہیں، ایک معنی ہے کہ ” أَفَلَمْ یَعْلَمْ “ کہ کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انھیں معلوم نہیں ہوا کہ جن نشانیوں کا یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر ہے، کیونکہ اسے ہر چیز کا اختیار ہے، مگر اس توقع پر ان نشانیوں کا دکھانا بےسود ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ یہ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ” اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا ابھی مسلمان ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔۔ - اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا : یعنی ہدایت تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے جو ان نشانات کے دکھائے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ (شوکانی)- وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : یعنی یہ کفار مکہ نشانیوں کو دیکھ کر مان لینے والے نہیں ہیں۔ یہ مانیں گے تو اس طرح کہ ان کے کرتوتوں کی سزا میں آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ان پر نازل ہوتی رہے، جیسے قتل، قید، قحط یا بیماری وغیرہ۔ چناچہ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی، ان پر پڑے یا ہمسائے پر، جب تک سارے عرب ایمان میں آجائیں۔ وہ آفت یہی تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ سے۔ “ (موضح)- اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ : یعنی وہ آفت ان کے آس پاس والوں پر اترے گی اور وہ ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں گے۔ - اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ : چناچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا، قریش میں سے بعض لوگ مارے گئے اور بعض قید ہوئے، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا، یعنی مکہ فتح ہوا۔
خلاصہ تفسیر - اور (اے پیغمبر اور مسلمانو ان کافروں کی عناد کی یہ کیفیت ہے کہ قرآن کی جو موجودہ حالت ہے کہ اس کا معجزہ ہونا غور وفکر پر موقوف ہے بجائے اس کے) اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس کے ذریعہ سے پہاڑ (اپنی جگہ سے) ہٹا دیئے جاتے یا اس کے ذریعے سے زمین جلدی جلدی طے ہوجاتی یا اس کے ذریعہ سے مردوں کے ساتھ کسی کو باتیں کرا دی جائیں (یعنی مردہ زندہ ہوجاتا اور کوئی اس سے باتیں کرلیتا اور یہ وہ معجزے ہیں جن کی فرمائش اکثر کفار کیا کرتے تھے بعضے مطلقا بعضے اس طرح سے کہ قرآن کو بحالت موجودہ تو ہم معجزہ مانتے نہیں البتہ اگر قرآن سے ان خوارق کا ظہور ہو تو ہم اس کو معجزہ مان لیں مطلب یہ کہ قرآن سے ایسے ایسے معجزات کا بھی ظہور ہوتا جس سے دونوں طرح کے لوگوں کی فرمائش پوری ہوجاتی یعنی جو نفس خوارق مذکورہ کے مسدعی تھے اور جو ان کا ظہور قرآن سے چاہتے تھے) تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے (کیونکہ یہ اسباب مؤ ثر حقیقی نہیں) بلکہ سارا اختیار اللہ ہی کو ہے ( وہ جس کو توفیق عطا فرماتے ہیں وہی ایمان لاتا ہے اور انکی عادت ہے کہ طالب کو توفیق دیتے ہیں اور معاند کو محروم رکھتے ہیں اور چونکہ بعضے مسلمانوں کا جی چاہتا تھا کہ ان معجزات کا ظہور ہوجاوے تو شاید ایمان لے آویں اس لئے آگے ان کا جواب ہے کہ) کیا (یہ سن کر کہ یہ معاند ہیں ایمان نہ لاویں گے اور یہ کہ سب اختیار خدا ہی کو ہے اور یہ کہ اسباب مؤ ثر حقیقی نہیں ہیں کیا یہ سن کر) پھر بھی ایمان والوں کو اس بات میں دل جمعی نہیں ہوئی کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو تمام (دنیا بھر کے) آدمیوں کو ہدایت کردیتا (مگر بعض حکمتوں سے مشیت نہیں ہوئی تو سب ایمان نہ لاویں گے جس کی بڑی وجہ عناد ہے پھر ان معاندین کے ایمان لانے کی فکر میں کیوں لگے ہیں) اور (جب محقق ہوگیا کہ یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے تو اس امر کا خیال آسکتا ہے کہ پھر ان کو سزا کیوں نہیں دی جاتی اس کے متعلق ارشاد ہے کہ) یہ (مکہ کے) کافر تو ہمیشہ (آئے دن) اس حالت میں رہتے ہیں کہ ان کے (بد) کرداروں کے سبب ان پر کوئی نہ کوئی حادثہ پڑتا رہتا ہے (کہیں قتل کہیں قید کہیں ہزیمت و شکست) یا (بعض حادثہ اگر ان پر نہیں بھی پڑتا مگر) ان کی بستی کے قریب نازل ہوتا رہتا ہے (مثلا کسی قوم پر آفت آئی اور ان کو خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں ہم پر بھی بلا نہ آوے) یہاں تک کہ (اسی حالت میں) اللہ تعالیٰ کا وعدہ آ جاوے گا (یعنی آخرت کے عذاب کا سامنا ہوجاوے گا جو کہ مرنے کے بعد شروع ہوجاوے گا اور) یقینا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے (پس عذاب کا وقوع ان پر یقینی ہے گو بعض اوقات کچھ دیر سے سہی) اور (ان لوگوں کا یہ معاملہ تکذیب و استہزاء کچھ آپ کے ساتھ خاص نہیں اور اسی طرح ان کے عذاب میں توفیق ہونا کچھ ان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پہلے رسل اور ان کی امتوں کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے چنانچہ) بہت سے پیغمبروں کے ساتھ جو کہ آپ سے قبل ہوچکے ہیں (کفار کی طرف سے) استہزاء ہوچکا ہے پھر میں ان کافروں کو مہلت دیتا رہا پھر میں نے ان پر داروگیر کی سو (سمجھنے کی بات ہے کہ) میری سزا کس طرح کی تھی (یعنی نہایت سخت تھی جب اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوگئی وہی مختار کل ہیں تو اس سے معلوم اور ثابت ہونے کے بعد) پھر (بھی) کیا جو (خدا) ہر شخص کے اعمال پر مطلع ہوا اور ان لوگوں کے شرکاء برابر ہو سکتے ہیں اور (باوجود اس کے) ان لوگوں نے خدا کے لئے شرکاء تجویز کئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہئے کہ (ذرا) ان (شرکاء) کے نام تو لو ( میں بھی سنو کون ہیں اور کیسے ہیں) کیا (تم حقیقتا ان کو شرکاء سمجھ کر دعوی کرتے ہو تو تم پر یہ لازم آتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو کہ دنیا (بھر) میں اس (کے وجود) کی خبر اللہ تعالیٰ کو نہ ہو (کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی کو موجود جانتے ہیں جو واقع میں موجود ہو اور معدوم کو موجود نہیں جانتے کیونکہ اس سے علم کا غلط لازم آتا ہے گو انکشاف میں دونوں یکساں ہیں غرض ان کو حقیقی شریک کہنے سے یہ محال لازم آتا ہے پس ان کا شریک ہونا بھی محال ہے) یا (یہ کہ ان کو حقیقۃ شریک نہیں بلکہ) محض ظاہری لفظ کے اعتبار ان کو شریک کہتے ہو (اور مصداق واقعی اس کا کہیں نہیں ہے اگر یہ شق ثانی ہے تو ان کے شریک نہ ہونے کو از خود تسلیم کرتے ہو پس مطلوب کہ بطلان اشراک ہے دونوں شقوں پر ثابت ہوگیا اول شق میں دلیل سے دوسری شق میں تمہاری تسلیم سے اور یہ تقریر باوجودیکہ اعلیٰ درجہ میں کافی ہے مگر یہ لوگ نہ مانیں گے) بلکہ ان کافروں کو اپنے مغالطہ کی باتیں (جس سے تمسک کر کے مبتلائے شرک ہیں) مرغوب معلوم ہوتی ہیں اور (اسی وجہ سے) یہ لوگ راہ (حق) سے محروم رہ گئے ہیں اور (اصل وہی بات ہے جو اوپر (بل للہ الامر) سے مفہوم ہوچکی ہے یعنی) جس کو خدا تعالیٰ گمراہی میں رکھے اس کو کوئی راہ پر لانے والا نہیں (البتہ وہ اسی کو گمراہ رکھتا ہے جو باوجود وضوح حق کے عناد کرتا ہے)- معارف و مسائل :- مشرکین مکہ کے سامنے اسلام کی حقانیت کے واضح دلائل اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے کی کھلی ہوئی نشانیاں آپ کی زندگی کے ہر شعبہ سے پھر حیرت انگیز معجزات سے پوری طرح روشن ہوچکی تھیں اور ان کا سردار ابوجہل یہ کہہ چکا تھا کہ بنو ہاشم سے ہمارا خاندانی مقابلہ ہے ہم ان کی اس برتری کو کیسے قبول کرلیں کہ خدا کا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے آیا اس لئے وہ کچھ بھی کہیں اور کیسی ہی نشانیاں دکھلائیں ہم ان پر کسی حال ایمان نہیں لائیں گے اسی لئے وہ ہر موقع پر اس ضد کا مظاہرہ لغو قسم کے سوالات اور فرمائشوں کے ذریعہ کیا کرتے تھے آیات مذکورہ بھی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہیں تفسیر بغوی میں ہے کہ مشرکین مکہ جن میں ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ ابن امیہ کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اس نے کہا کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی قوم اور ہم سب آپ کو رسول تسلیم کرلیں اور آپ کی پیروی کریں تو ہمارے چند مطالبات ہیں اپنے قرآن کے ذریعہ ان کو پورا کر دیجئے تو ہم سب اسلام قبول کرلیں گے،- مطالبات میں ایک تو یہ تھا کہ شہر مکہ کی زمین بڑی تنگ ہے سب طرف پہاڑوں سے گھری ایک طولانی زمین ہے جس میں نہ کاشت اور زراعت کی گنجائش ہے نہ باغات اور دوسری ضروریات کی آپ معجزہ کے ذریعہ ان پہاڑوں کو دور ہٹا دیجئے تاکہ مکہ کی زمین فراخ ہوجائے آخر آپ ہی کے کہنے کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے گئے تھے جب وہ تسبیح پڑھتے تو پہاڑ بھی ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے آپ اپنے قول کے مطابق اللہ کے نزدیک داؤد (علیہ السلام) سے کمتر تو نہیں ہیں - دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح سیلمان (علیہ السلام) کے لئے آپ کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کر کے زمین کے بڑے بڑے فاصلوں کو مختصر کردیا تھا آپ بھی ہمارے لئے ایسا ہی کردیں کہ ہمیں شام و یمن وغیرہ کے سفر آسان ہوجائیں - تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیتے تھے آپ ان سے کچھ کم تو نہیں آپ بھی ہمارے لئے ہمارے دادا قصی کو زندہ کر دیجئے تاکہ ہم ان سے یہ دریافت کرسکیں کہ آپ کا دین سچا ہے یا نہیں (مظہری بحوالہ بغوی وابن ابی حاتم وابن مردویہ)- مذکور الصدر آیات میں ان معاندانہ مطالبوں کا یہ جواب دیا گیا :- (آیت) وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى ۭ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا - اس میں تسییر جبال سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانا اور قطعت بہ الارض سے مراد مختصر وقت میں بڑی مسافت قطع کرنا اور کلم بہ الموتیٰ سے مردوں کو زندہ کر کے کلام کرنا مراد ہے اور لوحرف شرط کا جواب بقرینہ مقام محذوف ہے یعنی لما آمنوا جیسا کہ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ایسا ہی مضمون اور اس کا یہی جواب مذکور ہے (آیت) وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤ ْمِنُوْٓا۔ اور معنی یہ ہیں کہ اگر قرآن کے ذریعہ بطور معجزہ کے ان کے یہ مطالبات پورے کردیئے جائیں تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں کیونکہ وہ ان مطالبات سے پہلے ایسے معجزات کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو ان کے مطلوبہ معجزات سے بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا پہاڑوں کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے اور تسخیر ہو اسے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے اسی طرح بےجان کنکریوں کا آپ کے دست مبارک میں بولنا اور تسبیح کرنا کسی مردہ انسان کے دوبارہ زندہ ہو کر بولنے سے کہیں زیادہ عظیم معجزہ ہے لیلۃ المعراج میں مسجد اقصٰی اور پھر وہاں سے آسمانوں کا سفر اور بہت مختصر وقت میں واپسی تسخیر ہوا اور تخت سلیمانی کے اعجاز سے کتنا زیادہ عظیم ہے مگر یہ ظالم یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی جب ایمان نہ لائے تو اب ان مطالبات سے بھی ان کی نیت معلوم ہے کہ محض دفع الوقتی ہے کچھ ماننا اور کرنا نہیں ہے مشرکین کے ان مطالبات کا مقصد چونکہ یہی تھا کہ ہمارے مطالبات پورے نہ کئے جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو ان کاموں پر قدرت نہیں یا پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات اللہ تعالیٰ کے یہاں مسموع اور مقبول نہیں جس سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں اس لئے اس کے بعد ارشاد فرمایا بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا یعنی اللہ ہی کے لئے اختیار سب کا سب مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مطالبات کا پورا نہ کرنا اس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مصالح عالم کو وہی جاننے والے ہیں انہوں نے اپنی حکمت سے ان مطالبات کو پورا کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ مطالبہ کرنے والوں کی ہٹ دھرمی اور بدنیتی ان کو معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ سب مطالبے پورے کردیئے جائیں گے جب بھی یہ ایمان نہ لائیں گے۔- اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین نے جب مشرکین مکہ کے یہ مطالبات سنے تو یہ تمنا کرنے لگے کہ بطور معجزہ کے یہ مطالبات پورے کردیئے جائیں تو بہتر ہے سارے مکہ والے مسلمان ہوجائیں گے اور اسلام کو بڑی قوت حاصل ہوجائے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا اہل ایمان ان مشرکین کی حیلہ جوئی اور معاندانہ بحثوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود اب تک ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے کہ ایسی تمنائیں کرنے لگے جب کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا جو سب ہی انسانوں کو ایسی ہدایت دیدیتا کہ وہ مسلمان بنے بغیر نہ رہ سکتے مگر حکمت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ سب کو اسلام و ایمان پر مجبور کردیا جائے بلکہ حکمت یہی تھی کہ ہر شخص کا اپنا اختیار باقی رہے اپنے اختیار سے اسلام کو قبول کرے یا کفر کو۔ - (آیت) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِم حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قارعہ کے معنی مصیبت اور آفت کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان مشرکین کے مطالبات تو اس لئے منظور نہیں کئے گئے کہ ان کی بدنیتی اور ہٹ دھرمی معلوم تھی کہ پورے کرنے پر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں یہ تو اللہ کے نزدیک اسی کے مستحق ہیں کہ ان پر دنیا میں بھی آفتیں اور مصیبتیں آئیں جیسا کہ اہل مکہ پر کبھی قحط کی مصیبت آئی کبھی اسلامی غزوات بدر واحد وغیرہ میں ان پر قتل اور قید ہونے کی آفت نازل ہوئی کسی پر بجلی گر گئی کوئی اور کسی بلاء میں مبتلا ہوا اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ یعنی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ مصیبت براہ راست ان پر نہیں آئے گی بلکہ ان کے قریب والی بستیوں پر آئے گی جس سے ان کو عبرت حاصل ہو اور ان کو اپنا انجام بد بھی نظر آنے لگے۔- (آیت) حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَاد یعنی ان مصائب وآفات کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ٹل نہیں سکتا مراد اس وعدہ سے فتح مکہ کا وعدہ ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں پر مختلف قسم کی آفتیں آتی رہیں گی یہاں تک کہ آخر میں مکہ مکرمہ فتح ہوگا اور یہ سب لوگ مغلوب و مقہور ہوجائیں گے - آیت مذکورہ میں اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ سے معلوم ہوا کہ جس قوم اور بستی کے قرب و جوار پر کوئی عذاب یا آفت و مصیبت آتی ہے تو اس میں حق تعالیٰ شانہ کی یہ حکمت بھی مستور ہوتی ہے کہ آس پاس کی بستیوں کو بھی تنبیہ ہوجائے اور وہ دوسروں سے عبرت حاصل کر کے اپنے اعمال درست کرلیں تو یہ دوسروں کا عذاب ان کے لئے رحمت بن جائے ورنہ پھر ایک دن ان کا بھی وہی انجام ہونا ہے جو دوسروں کا مشاہدہ میں آیا ہے۔- آج ہمارے ملک میں قرب و جوار میں روز روز کسی جماعت کسی بستی پر مختلف قسم کی آفتیں آتی رہتی ہیں کہیں سیلاب کی تباہ کاری کہیں ہوا کے طوفان کہیں زلزلہ کا عذاب کہیں کوئی اور آفت قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق یہ صرف ان بستیوں اور قوموں ہی کی سزا نہیں ہوتی بلکہ قرب و جوار کے لوگوں کو بھی تنبیہ ہوتی ہے پچھلے زمانہ میں اگرچہ علم وفن کی اتنی ٹیپ ٹاپ نہ تھی مگر لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف تھا کسی جگہ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو خود وہ لوگ بھی اور اس کے قرب و جوار والے بھی سہم جاتے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اپنے گناہوں سے تائب ہوتے اور استغفار، صدقہ و خیرات کو ذریعہ نجات سمجھتے تھے اور آنکھوں سے مشاہدہ ہوتا تھا کہ ان کی مصیبتیں بڑی آسانی سے ٹل جاتی تھیں آج ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ مصیبت کے وقت بھی خدا ہی یاد نہیں آتا اور سب کچھ یاد آتا ہے دنیا کے عام غیر مسلموں کی طرح ہماری نظریں بھی صرف مادی اسباب پر جم کر رہ جاتی ہیں مسبب الاسباب کی طرف توجہ کی اس وقت بھی توفیق کم لوگوں کو ہوتی ہے اسی کا نتیجہ اس طرح کے مسلسل حوادث ہیں جن سے دنیا ہمیشہ دو چار رہتی ہے۔- حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَاد یعنی ان کفار و مشرکین پر دنیا میں بھی مختلف عذابوں اور آفتوں کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آ پہنچنے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے کبھی خلاف نہیں کرتے۔- وعدہ سے مراد اس جگہ فتح مکہ ہے جس کا وعدہ حق تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہوا تھا اور مطلب آیت کا یہ ہوا کہ آخر میں تو مکہ فتح ہو کر ان سب مشرکین کو زیر و زبر اور مغلوب و مقہور ہونا ہی ہے اس سے پہلے بھی ان کے ان کے جرائم کی کچھ کچھ سزا ان کو ملتی رہے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وَعْدُ اللّٰهِ سے مراد اس جگہ روز قیامت ہو جس کا وعدہ سب پیغمبروں سے کیا ہوا ہے اور ہمیشہ سے کیا ہوا ہے اس روز تو ہر کافر مجرم اپنے کئے کی پوری پوری سزا بھگتے گا مذکور الصدر واقعہ میں مشرکین کے معاندانہ سوالات اور ان کی ہٹ دھرمی سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج و تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا اس لئے اگلی آیت میں آپ کی تسلی کے لئے فرمایا گیا۔
وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى ۭ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا ۭاَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا ۭ وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ 31 ۧ- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ، قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَما يَئِسَ الْكُفَّارُ [ الممتحنة 13] ، إِنَّهُ لَيَؤُسٌ كَفُورٌ- [هود 9] وقوله : أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الرعد 31] قيل : معناه : أفلم يعلموا «1» ، ولم يرد أنّ اليَأْسَ موضوع في کلامهم للعلم، وإنما قصد أنَّ يَأْسَ الذین آمنوا من ذلک يقتضي أن يحصل بعد العلم بانتفاء ذلك، فإذا ثبوت يَأْسِهِمْ يقتضي ثبوت حصول علمهم .- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَما يَئِسَ الْكُفَّارُ [ الممتحنة 13] جس طرح کافروں کو مردوں کو بھی آخرت ( کے آنے ) کے امید نہیں ۔ إِنَّهُ لَيَؤُسٌ كَفُورٌ [هود 9] تونا امید ( اور) ناشکرا ( ہوجاتا ) ہے اور آیت کریمہ : أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الرعد 31] تو کیا مومنوں کو اس سے اطمینان نہیں ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے لکھا ہے کہ یہاں اس کے معنی کے ہیں یعنی کیا انہوں نے اس بات کو جان نہیں لیا مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اس کے حقیقی معنی ہیں بلکہ یہ اس کے لازم معنی ہیں کیونکہ کسی چیز کے انتفاء کا علم اس سے ناامید ہونے کو مستلزم ہوتا ہے لہذا یہاں بھی ( بلحاظ قرآئن ) یہ کہہ سکتے ہیں ک ییئس بمعنی یعلم ہے ۔- زال - مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا .- ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا - اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ - وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110]- وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ - قرع - القَرْعُ : ضرب شيء علی شيء، ومنه : قَرَعْتُهُ بِالْمِقْرَعَةِ. قال تعالی: كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة 4] ، الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة 1-2 ]- ( ق ر ع ) القرع - ( ف ) کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز ہر مارنے کے ہیں اسی سے قرعیتہ بالمقر عۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کورے سے سر زنش کرنے کے ہیں اور قیامت کے حادثہ کو قارعۃ کہا گیا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة 4]( وہی ) کھڑ کھڑا نے والی ( جس کو ثمود اور عاد ( دونوں نے جھٹلا یا ۔ الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة 1- 2] کھڑ کھڑانے والی کیا ہے ۔- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا خُلف - والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔
(٣١) اگلی آیت عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان لوگوں نے اپنے باہم مشورہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ مکہ مکرمہ کے پہاڑ اپنے قرآن کی طاقت سے دور کردو اور اس مقام پر پانی کے چشمے پیدا کردو جیسا کہ تم کہتے ہو کہ داؤد (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ نرم کردیا گیا تھا اور جیسا کہ بقول آپ کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا مسخر تھی، اسی طریقہ سے ہمارے لیے بھی ہوا کو مسخر کردو کہ ہم اس پر سوار ہو کر ملک شام چلے جایا کریں اور پھر آجایا کریں اور جیسا کہ آپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے، آپ بھی ہمارے مردوں کو زندہ کر دو ، سو اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن کے علاوہ کوئی قرآن ایسا ہوتا جس کے ذریعے سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیے جاتے تو اس کے ذریعے سے زمین جلدی طے ہوجاتی یا اس کے ذریعے سے مردہ زندہ کردیے جاتے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن کے ذریعے سے ہوتیں بلکہ ان تمام چیزوں کے کرنے کا سارا اختیار خاص اللہ ہی کو ہے۔- پھر بھی ان لوگوں کو جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تھے ان کے دل کو یہ بات نہ لگی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو اپنے دین سے سرفراز فرما دیتا ، آسمانی کتب اور رسولوں کے منکر یعنی کفار مکہ تو ہمیشہ اس حالت میں رہتے ہیں کہ ان کے کفر کی وجہ سے کوئی نہ کوئی حادثہ حملہ آوری یا بجلی وغیرہ ان پر یا ان کے ساتھیوں پر ان کے شہر مکہ کے قریب عسفان تک نازل ہوتا ہی رہتا ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں مکہ مکرمہ فتح ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے یعنی مکہ مکرمہ فتح ہوگا یا یہ کہ قیامت قائم ہوگی۔- شان نزول : (آیت) ” ولو ان قرانا سیرت “۔ (الخ)- امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کفار مکہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو ہمارے پہلے بوڑھے جو مرچکے ہیں ان کو زندہ کرکے دکھلاؤ تاکہ ہم ان سے بات چیت کریں اور ہم سے ان پہاڑوں یعنی مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کو جو ہم سے بالکل ملے ہوئے دور کردو، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ،- اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطیہ عوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، کاش آپ ہمارے لیے مکہ کے پہاڑوں کو ہٹا دیتے تاکہ ہم پر زمین وسیع ہوجاتی اور ہم اس میں کھیتی وغیرہ کرتے جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) اپنی قوم کے لیے زمین کو ہوا کے ذریعے کاٹ کردیتے تھے اسی طرح آپ بھی ہمارے لیے زمین کو کاٹ دیجئے یا ہمارے مردوں کو زندہ کردیجیے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے لیے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
آیت ٣١ (وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى)- یہاں پھر حسی معجزوں کے بارے میں مشرکین کے مطالبے کا جواب دیا جا رہا ہے۔ سورة الانعام میں یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی ایسا قرآن اتارا ہوتا جس کی تاثیر سے طرح طرح کے حسی معجزات کا ظہور ہوتا تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ یہ قرآن ہر اس شخص کے لیے سراپا معجزہ ہے جو واقعی ہدایت کا خواہش مند ہے۔ یہ طالبانِ حق کے دلوں کو گداز کرتا ہے ان کی روح کو تازگی بخشتا ہے ان کے لاشعور کے اندر خوابیدہ ایمانی حقائق کو جگاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہدایت کا تمام سامان اس قرآن کے اندر موجود پاتے ہیں۔- (بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا ۭاَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا)- اہل ایمان کو تو یہ یقین ہے تاکہ اگر اللہ چاہتا تو دنیا کے تمام انسانوں کو ہدایت دے سکتا تھا اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یہ ضرور اسی کی مشیت ہے۔ لہٰذا اس یقین سے ان کو تو دل جمعی اور اطمینان حاصل ہوجانا چاہیے۔- (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ )- ان لوگوں کے کرتوتوں کی پاداش میں ان پر کوئی نہ کوئی آفت اور مصیبت نازل ہوتی رہے گی۔ وہ مسلسل خوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوجائے۔
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :47 اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے ۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش ان لوگوں کو کوئی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے ۔ پھر جب وہ محسوس کرتےتھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی ۔ اس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں ان سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبول حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں ، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں ، کائنات کے آثار میں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی میں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے انقلاب حیات میں نور حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے؟ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :48 یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی ان کے دکھانے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوا لینا ، اور ہدایت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر وبصیرت کی اصلاح ہو ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :49 یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی ۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا ۔
27: اس آیت میں ان چند معجزات کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کی فرمائش مکہ مکرَّمہ کے کافر لوگ کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مکہ مکرَّمہ کے ارد گرد جو پہاڑ ہیں، ان کو یہاں سے ہٹادو، اور یہاں کی زمین کو شق کرکے یہاں سے دریا نکال دو، اور ہمارے باپ داداوں کو زندہ کرکے ان سے ہماری بات کروادو۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر بالفرض یہ بے ہودہ مطالبات پورے کر بھی دیئے جاتے، تب بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے، کیونکہ یہ فرمائشیں حق طلبی کے جذبے سے نہیں، صرف ضد کی وجہ سے کی جارہی ہیں، سورۂ بنی اسرائیل (۱۷۔ ۹۰ تا ۹۳) میں اسی قسم کی کچھ اور فرمائشیں بھی مذکور ہیں جو کفار کیا کرتے تھے، اور اسی سورت کی آیت نمبر : ۵۹ میں فرمائشی معجزات نہ دکھانے کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جب کوئی قوم کسی خاص معجزے کی فرمائش پر وہ معجزہ دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتی تو اس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ پچھلی امتوں عاد اور ثمود وغیرہ کے ساتھ یہی ہوا ہے، اﷲ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنے فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے، اور ابھی ان کو ہلاک کرنا منظور نہیں ہے، اس لئے بھی ایسے معجزات نہیں دِکھائے جارہے ہیں۔ 28: کبھی کبھی مسلمانوں کو یہ خیال ہوتا تھا کہ جو معجزات یہ لوگ مانگ رہے ہیں، اگر وہ ان کو دکھا دیئے جائیں توشاید یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ یہ آیت ان مسلمانوں کو ہدایت دے رہی ہے کہ انہیں اب اس بات سے اپنا ذہن فارغ کرلینا چاہئے، اور یہ سوچنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی ہے کہ وہ ان سب کو اپنی قدرت سے زبردستی مسلمان کردے، لیکن چونکہ دُنیا کی اس امتحان گاہ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی عقل استعمال کرکے اپنے اختیار سے ایمان لائے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس معاملے میں اپنی قدرت کو اِستعمال نہیں کیا، البتہ ایسے دلائل واضح کردیئے ہیں کہ اگر اِنسان ان پر انصاف سے غور کرے، اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے تو اُس کو حقیقت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگنی چاہئے۔ اس کے بعد کافروں کی ہر فرمائش پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 29: بعض مسلمانوں کو کبھی یہ خیال بھی ہوتا تھا کہ جب یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، تو اِن پر ابھی کوئی عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ اِس آیت میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ان لوگوں پر چھوٹی چھوٹی مصیبتیں تو اِس دُنیا میں بھی پڑتی رہتی ہیں، مثلا کبھی قحط آجاتا ہے، کبھی کوئی اور بلا نازل ہوجاتی ہے، اور بعض اوقات ان کی قریبی بستیوں پر ایسی مصیبتیں آجاتی ہیں جن سے یہ لوگ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کو اصل عذاب اس وقت ہوگا جب قیامت آنے کا وعدہ پورا ہوگا۔