11۔ 1 معقبات، ، معقبۃ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔ 11۔ 2 اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة انفال آیت 53 کا حاشیہ۔
[١٦] حفاظت کرنے والے فرشتے اور باطنی اسباب :۔ یعنی اس دنیا میں صرف ظاہری اسباب ہی کارفرما نہیں بلکہ بہت سے باطنی اسباب بھی ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا اور اس بات کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شدید حادثہ سے دوچار ہوتا ہے کہ بظاہر اس کا جانبر ہونا ناممکن نظر آتا ہے لیکن وہ اس حادثہ سے بالکل محفوظ رہتا ہے اور ایسے موقعوں پر بےاختیار ہماری زبانوں پر یہ الفاظ آجاتے ہیں۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے انہی غیر مرئی اسباب کی اس آیت میں وضاحت کی گئی کہ یہ محض اتفاقات نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ فرشتے ہوتے ہیں جو ایسے خوفناک موقعوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں اور اس مدت تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہیں آجاتا اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر انسان کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔- [١٧] اس جملہ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورة انفال کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ۔- [١٨] قوموں کے عروج وزوال کا قانون :۔ قوموں کے عروج وزوال کے قانون میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مجموعی حیثیت سے کوئی قوم اخلاقی انحطاط کی انتہائی پستیوں تک پہنچ کر معاصی کے ارتکاب میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دنیوی لحاظ سے تہذیب و تمدن کے بلند درجہ تک پہنچ چکی ہو۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی اصلاح کرلے تو خیر ورنہ آہستہ آہستہ اس دنیا سے نیست و نابود کردی جاتی ہے۔ پھر اسے اس کے زوال اور انحطاط سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور نہ ہی اسے کچھ مدت کے لیے اس عذاب کو ٹال سکتی ہے۔
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ ۔۔ : ” مُعَقِّبٰتٌ“ (باری باری ایک دوسرے کے بعد آنے والے) یہ ملائکہ کی صفت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نگرانی و حفاظت کا جو انتظام کر رکھا ہے اس کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان پر کتنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، کیونکہ دو فرشتے تو نیک و بدعمل لکھنے والے دائیں اور بائیں ہیں۔ (ق : ١٧، ١٨) حفاظت کرنے والوں کی تعداد یہاں بیان نہیں فرمائی جو چاروں طرف سے انسان کی ہر آفت و مصیبت سے حفاظت کرتے ہیں، سوائے اس مصیبت کے جو اللہ نے اس کے لیے لکھی ہے۔ فرشتوں کی ایک اور قسم کے متعلق عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ ، قَالُوْا وَ إِیَّاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَإِیَّايَ إِلاَّ أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِيْ عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلاَ یَأْمُرُنِيْ إِلاَّ بِخَیْرٍ ) [ مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان۔۔ : ٢٨١٤ ]” تم میں سے جو بھی شخص ہے اس کے ساتھ اس کا ایک قرین (ساتھ رہنے والا) جنوں سے مقرر کیا گیا ہے اور ایک قرین فرشتوں سے۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ آپ کے ساتھ بھی (جن مقرر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(ہاں) میرے ساتھ بھی، مگر اللہ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو وہ تابع ہوگیا ہے، سو وہ مجھے خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ باری والے فرشتے صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتے ہیں، ان وقتوں میں آنے اور جانے والوں کی ملاقات ان دونوں نمازوں میں ہوتی ہے۔ [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر : ٥٥٥۔ مسلم : ٦٣٢ ] اس حقیقت کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ - اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ ۔۔ : یعنی جب تک نیکی کے بجائے برائی اور اطاعت کے بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں، البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی مثال کے ساتھ سورة انفال (٥٣، ٥٤) میں بیان فرمائی۔ مزید مثال کے لیے دیکھیے سورة نحل (١١٢) اور سبا (١٥ تا ١٧) واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے، افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی اچھی یا بری حالت کا تعین اسی لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کا ؟ رہے افراد تو ضروری نہیں کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو، بلکہ ایک بےگناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جیسا کہ زینب بنت جحش (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ ، قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قصۃ یأجوج و مأجوج : ٣٣٤٦ ] ” اے اللہ کے رسول کیا نیک لوگوں کے ہم میں موجود ہونے کے باوجود ہم ہلاک ہوجائیں گے ؟ “ فرمایا : ” ہاں جب خباثت (گناہ) زیادہ ہوجائے۔ “ - وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا ۔۔ : ہم چاہے کتنی سائنسی تدبیریں اور حفاظت کا بندوبست کرلیں، یا کسی پیر، بزرگ، بت یا جن یا فرشتے کی پناہ پکڑ لیں، اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مقابلے میں کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔
(آیت) لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ مُعَقِّبٰتٌ- معقبۃ کی جمع ہے اس جماعت کو جو دوسری جماعت کے پیچھے متصل آئے اس کو معقبہ یا متعقبہ کہا جاتا ہے مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ کے لفظی معنی ہیں دونوں ہاتھ کے درمیان مراد انسان کے سامنے کی جہت اور سمت ہے وَمِنْ خَلْفِهٖ پیچھے کی جانب مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ میں من بمعنی باء سببیت کے لئے ہے بامر اللہ کے معنی میں آیا ہے بعض قراءتوں میں یہ لفظ بامر اللہ منقول بھی ہے (روح) - معنی آیت کے ہیں کہ ہر شخص خواہ اپنے کلام کو چھپاتا ہے یا ظاہر کرنا چاہتا ہے اسی طرح اپنے چلنے پھرنے کو رات کی تاریکیوں کے ذریعہ مخفی رکھنا چاہے یا کھلے بندوں سڑکوں پر پھرے ان سب انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے فرشتوں کی جماعتیں مقرر ہیں جو ان کے آگے اور پیچھے سے احاطہ کئے رہتے ہیں جن کی خدمت اور ڈیوٹی بدلتی رہتی ہے اور یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں ان کے ذمہ یہ کام سپرد ہے کہ وہ بحکم خداوندی انسانوں کی حفاظت کریں۔- صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ فرشتوں کی دو جماعتیں حفاظت کے لئے مقرر ہیں ایک رات کے لئے دوسری دن کے لئے اور یہ دونوں جماعتیں صبح اور عصر کی نمازوں میں جمع ہوتی ہیں صبح کی نماز کے بعد یہ رخصت ہوجاتے ہیں دن کے محافظ کام سنبھال لیتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد یہ رخصت ہوجاتے ہیں رات کے فرشتے ڈیوٹی پر آجاتے ہیں - ابوداؤد کی ایک حدیث میں بروایت علی مرتضی (رض) مذکور ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ کچھ حفاظت کرنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی دیوار وغیرہ نہ گر جائے یا کسی گڑھے اور غار میں نہ گر جائے یا کوئی جانور یا انسان اس کو تکلیف نہ پہونچائے البتہ جب حکم الہی کسی انسان کو بلا و مصیبت میں مبتلا کرنے کے لئے نافذ ہوجاتا ہے تو محافظ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں (روح المعانی)- ابن جریر کی ایک حدیث سے بروایت عثمان غنی (رض) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان محافظ فرشتوں کا کام صرف دنیاوی مصائب اور تکلیفوں ہی سے حفاظت نہیں بلکہ وہ انسان کو گناہوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں انسان کے دل میں نیکی اور خوف خدا کے الہام سے غفلت برت کر گناہ میں مبتلا ہی ہوجائے تو وہ اس کی دعاء اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ جلد توبہ کر کے گناہ سے پاک ہوجائے پھر اگر وہ کسی طرح متنبہ نہیں ہوتا تب وہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ کا کام لکھ دیتے ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ یہ محافظ فرشتے دین و دنیا دونوں کی مصیبتوں اور آفتوں سے انسان کی سوتے جاگتے حفاظت کرتے رہتے ہیں حضرت کعب احبار (رض) فرماتے ہیں کہ اگر انسان سے یہ حفاظت خداوندی کا پہرہ ہٹا دیا جائے تو جنات ان کی زندگی وبال کردیں لیکن یہ سب حفاظتی پہرے اسی وقت تک کام کرتے ہیں جب تک تقدیر الہی ان کی حفاظت کی اجازت دیتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ ہی کسی بندہ کو مبتلا کرنا چاہیں تو یہ حفاظتی پہرا ہٹ جاتا ہے۔- اسی کا بیان اگلی آیت میں اس طرح کیا گیا ہے :- (آیت) اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ- یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت امن و عافیت کو آفت و مصیبت میں اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اعمال و احوال کو برائی اور فساد میں تبدیل نہ کرلے اور جب جب وہ اپنے حالات کو سرکشی اور نافرمانی سے بدلتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز بدل دیتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی کسی کا برا چاہیں اور عذاب دینا چاہیں تو نہ پھر کوئی اس کو ٹال سکتا ہے اور نہ کوئی حکم ربانی کے خلاف ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے،- حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی حفاظت کے لئے فرشتوں کا پہرہ لگا رہتا ہے لیکن جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اور اس کی اطاعت چھوڑ کر بدعملی بدکرداری اور سرکشی ہی اختیار کرلے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا حفاظتی پہرہ اٹھا لیتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کا قہر و عذاب ان پر آتا ہے جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔- اس تشریح سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں تغیر احوال سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اطاعت اور شکر گذاری چھوڑ کر اپنے حالات میں بری تبدیلی پیدا کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز رحمت و حفاظت کا بدل دیتے ہیں - اس آیت کا جو عام طور پر یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ کسی قوم میں اچھا انقلاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک وہ خود اس اچھے انقلاب کے لئے اپنے حالات کو درست نہ کرے اسی مفہوم میں یہ شعر مشہور ہے۔- خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی - نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا - یہ بات اگرچہ ایک حد تک صحیح مگر آیت مذکورہ کا یہ مفہوم نہیں اور اس کا صحیح ہونا بھی ایک عام قانون کی حیثیت سے ہے کہ جو شخص خود اپنے حالات کی اصلاح کا ارادہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی امداد ونصرت کا وعدہ نہیں بلکہ یہ وعدہ اسی حالت میں ہے جب کوئی خود بھی اصلاح کی فکر کرے جیسا کہ آیت کریمہ والَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہدایت کے راستے جب ہی کھلتے ہیں جب خود ہدایت کی طلب موجود ہو لیکن انعامات الہیہ اس قانون کے پابند نہیں بسا اوقات اس کے بغیر بھی عطا ہوجاتے ہیں - داد حق را قابلیت شرط نیست - بلکہ شرط قابلیت داد ہست - خود ہمارا وجود اور اس میں بیشمار نعمتیں نہ ہماری کوشش کا نتجیہ ہیں نہ ہم نے کبھی اس کے لئے دعا مانگی تھی کہ ہمیں ایسا وجود عطا کیا جائے جس کی آنکھ ناک کان اور سب قوی واعضا درست ہوں یہ سب نعمتیں بےمانگے ہی ملی ہیں - مانبودیم و تقاضا مانبود - لطف تو ناگفتہ مامی شنود - البتہ انعامات کا استحقاق اور وعدہ بغیر اپنی سعی کے حاصل نہیں ہوتا اور کسی قوم کو بغیر سعی وعمل کے انعامات کا انتظار کرتے رہنا خود فریبی کے مرادف ہے۔
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11- تَّعْقيبُ :- أن يأتي بشیء بعد آخر، يقال : عَقَّبَ الفرسُ في عدوه . قال : لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] ، أي : ملائكة يتعاقبون عليه حافظین له . وقوله : لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] ، أي : لا أحد يتعقّبه ويبحث عن فعله،- ( ع ق ب ) العقب والعقیب - التعقیب ایک چیز کے بعد دوسری لانا ۔ عقب الفرس فی عدوہ گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی قرآن میں ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے ۔- خلف - خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے چو کیدار ہیں ۔- تَّغْيِيرُ- يقال علی وجهين :- أحدهما : لتغيير صورة الشیء دون ذاته . يقال : غَيَّرْتُ داري : إذا بنیتها بناء غير الذي كان .- والثاني : لتبدیله بغیره .- نحو : غَيَّرْتُ غلامي ودابّتي : إذا أبدلتهما بغیرهما . نحو : إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد 11]- ( غ ی ر ) تغییر - تغییر کا لفظ بھی دوطرح استعمال ہوتا ہے ایک صرف کسی چیز کی صورت کو بدلنا جیسے غیرت داری یعنی میں نے اپنے گھر کی شکل و صورت بدل دی۔ دوم کسی دوسری چیز سے تبدیل کرلینا جیسے غیرت غلامی وداتبی ویعنی میں نے اپنا غلام یا جانور دوسرے سے تبدیل گرلیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد 11] خدا اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے
(١١) ہر ایک شخص کی حفاظت کے لیے کچھ فرشتے بھی مقرر ہیں، جن کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے کہ رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے آجاتے ہیں اور دن کے چلے جاتے ہیں اور رات کے آجاتے ہیں کہ وہ خدا کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تقدیر کے مطابق ان کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب اور اس کی ہلاکت تجویز کرلیتا ہے تو پھر ان سے فیصلہ خداوندی کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کے سوا پھر کوئی ان سے عذاب خداوندی کو ہٹانے والا نہیں اور نہ اس کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ ہے۔
آیت ١١ (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ )- یہ مضمون اس سے پہلے ہم سورة الانعام (آیت ٦١) میں بھی پڑھ چکے ہیں : (وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہارے اوپر محافظ بھیجتا ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ یہ فرشتے اللہ کی مشیت کے مطابق ہر وقت انسان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے۔- (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ )- آپ اپنی باطنی کیفیت کو بدلیں گے ‘ اس کے لیے محنت کریں گے تو اللہ کی طرف سے بھی آپ کے معاملے میں تبدیلی کردی جائے گی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس آیت کی ترجمانی ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے : - خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی - نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :18 یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اللہ تعالی ہر شخص کو ہر حال میں براہ راست خود دیکھ رہا ہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے ، بلکہ مزید برآں اللہ کے مقرر کیے ہوئے نگران کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پورے کارنامہ زندگی کا ریکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایسے خدا کی خدائی میں جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار کی طرح زمین پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی نہیں جس کے سامنے وہ اپنے نامہ اعمال کے لیے جواب دہ ہوں ، وہ دراصل اپنی شامت آپ بلاتے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :19 یعنی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ کے ہاں کوئی پیر یا فقیر ، یا کوئی اگلا پچھلا بزرگ ، یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ ہی کرتے رہو ، وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تمہیں تمہارے برے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا ۔
15: ’’نگراں‘‘ سے یہاں مراد فرشتے ہیں۔ اس آیت نے واضح فرما دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کی حفاظت کے لئے کچھ فرشتے مقرّر فرما رکھے ہیں جو باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’مُعَقِّبٰتْ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’باری باری آنے والے‘‘ اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آئی ہے کہ فرشتوں کی ایک جماعت دن کے وقت اِنسانوں کی نگرانی پر مأمور ہے، اور دوسری جماعت رات کے وقت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ یہ فرشتے مختلف حادثات سے اِنسانوں کی حفاظت کرتے ہیں، البتہ جب اﷲ تعالیٰ کا حکم ہی یہ ہو کہ کسی شخص کو کسی تکلیف میں مبتلا کیا جائے تو یہ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں (تفصیل کے لئے دکھئے معارف القران)۔ 16: اِنسانوں کی حفاظت پر جو فرشتے مقرّر ہیں، اس سے کسی کو یہ غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حفاظت کا یہ انتظام کر رکھا ہے تو اِنسان کو بے فکر ہوجانا چاہئے۔ اور گناہ ثواب کی پروا بھی نہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ فرشتے حفاظت کرلیں گے۔ آیت کے اس حصے میں اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یوں تو اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو بدحالی سے خود بخود نہیں بدلتا، لیکن جب وہ نافرمانی پر کمر باندھ کر اپنی حالت خود بدل ڈالیں تو پھر اﷲ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے۔ اور اسے کوئی دور نہیں کرسکتا، چنانچہ وہ نگراں فرشتے بھی ایسی صورت میں کام نہیں دیتے۔