Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کھل گئی تو خوش ہو کر کہا کہ انہیں میرے پاس بلا لاؤ کہ میں انہیں اپنے خاص مشیروں میں کر لوں ۔ چانچہ آپ تشریف لائے ۔ جب وہ آپ سے ملا ، آپ کی صورت دیکھی ۔ آپ کی باتیں سنیں ، آپ کے اخلاق دیکھے تو دل سے گرویدہ ہو گیا اور بےساختہ اس کی زبان سے نکل گیا کہ آج سے آپ ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہیں ۔ اس وقت آپ نے ایک خدمت اپنے لئے پسند فرمائی اور اس کی اہلیت ظاہر کی ۔ انسان کو یہ جائز بھی ہے کہ جب وہ انجان لوگوں میں ہو تو اپنی قابلیت بوقت ضرورت بیان کر دے ۔ اس خواب کی بنا پر جس کی تعبیر آپ نے دی تھی ۔ آپ نے یہی آرزو کی کہ زمین کی پیداوار غلہ وغیرہ جو جمع کیا جاتا ہے اس پر مجھے مقرر کیا جائے تاکہ میں محافظت کروں نیز اپنے علم کے مطابق عمل کر سکوں تاکہ رعایا کو قحط سالی کی مصیبت کے وقت قدرے عافیت مل سکے ۔ بادشاہ کے دل پر تو آپ کی امانت داری ، سچائی ، سلیقہ مندی اور کامل علم کا سکہ بیٹھ چکا تھا اسی وقت اس نے اس درخواست کو منظور کر لیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 جب بادشاہ ریان بن ولید یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہوگئی، تو اسے حکم دیا کہ انھیں میرے سامنے پیش کرو، میں انھیں اپنے لئے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔ 54۔ 2 مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] شاہ مصر کی یوسف (علیہ السلام) کو پیش کش :۔ بادشاہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت سے بہت متاثر ہوچکا تھا۔ آپ کی قید سے پہلے آپ کی پاکیزہ سیرت کا چرچا اس نے بھی سنا تھا۔ اس کے ساقی نے آپ کی بہت تعریف کی تھی۔ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں وہ آپ کے علم و فضل اور تدبر سے بہت مرعوب ہوا تھا اور اب موجودہ قضیہ میں آپ کی مکمل بریت نے اس کے دل میں آپ کی قدر و منزلت اور بھی بڑھا دی تھی۔ لہذا اس نے اپنے قاصد کو حکم دیا کہ وہ یوسف کو بلا لائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ میں اسے اپنا مدار المہام بنانا چاہتا ہوں۔ پھر جب آپ بادشاہ کے پاس تشریف لے آئے اور آپس میں گفتگو ہوئی تو آخر میں بادشاہ نے آپ سے کہا کہ آج سے ہی آپ ہمارے ہاں صاحب اقتدار ہیں اور ہمیں آپ کی دیانت و امانت پر پورا پورا اعتماد ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ : یہاں سے یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے، جب غلامی و قید ختم ہوئی اور آزادی اور حکومت و سلطنت عطا ہوئی۔ ” اَسْتَخْلِصْهُ “ یہاں بادشاہ ” اُخْلِصْہُ “ بھی کہہ سکتا تھا، جیسا کہ ( اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ ) [ یوسف : ٢٤ ] میں باب افعال استعمال ہوا ہے۔ ” اَسْتَخْلِصْهُ “ میں سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہیں کہ ” میں اس کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے خاص کرلوں۔ “ بادشاہ نے جب یوسف (علیہ السلام) سے اپنے خواب کی صحیح تعبیر سنی، پھر بلانے کے باوجود کئی سال بےگناہ قید رہ کر بھی اپنی بےگناہی ثابت ہونے سے پہلے قید خانے سے نکلنے سے انکار دیکھا، پھر تمام متعلقہ خواتین حتیٰ کہ عزیز کی بیوی سے ان کی پاک دامنی اور بےگناہی کی تصدیق سنی تو ان کی شخصیت کا اتنا مشتاق ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے اپنے لیے خاص کرلوں گا۔ پھر جب یوسف (علیہ السلام) نے بنفس نفیس اس سے گفتگو کی تو بادشاہ نے ان کے علم کی وسعت، اخلاق کی خوبی اور دوسرے اوصاف حسنہ کا عین الیقین ہونے کے بعد کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں مکین و امین، یعنی صاحب اقتدار اور امانت دار ہو۔ ” مَكِيْنٌ“ اس ” مَکَانَۃٌ“ (مرتبے) والے کو کہتے ہیں جو صرف ایک یا چند ایک کے سوا کسی کو حاصل نہ ہو۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال دیکھیے، جب وحی کے سلسلے میں جبریل (علیہ السلام) کا ذکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ۙاِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 19 ۝ ۙذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ 20 ۝ ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ ) [ التکویر : ١٩ تا ٢١ ] ” بیشک یہ یقیناً ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔ “ اور آپ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں جبریل (علیہ السلام) کو کیا مرتبہ حاصل ہے کہ بنی آدم کے تمام انبیاء و رسل کی طر فاللہ کی جانب سے انھیں رسول چنا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا، فرمایا : (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) [ النجم : ١٨ ] ” بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ ان سے بڑھ کر اللہ کا قرب رکھنے والا کوئی فرشتہ ہمیں معلوم نہیں۔ ” اَمِيْنٌ“ یعنی اپنی ذات، مملکت کے معاملات و اسرار اور سب لوگوں کے جان و مال اور ان کے درمیان عدل و انصاف میں تم ہمارے ہاں مکمل قابل اعتماد ہو، تمہاری امانت پر ہمیں پورا بھروسا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ الخ یعنی بادشاہ مصر نے جب یوسف (علیہ السلام) کے فرمانے کے مطابق عورتوں سے واقعہ کی تحقیق فرمائی اور زلیخا اور دوسری سب عورتوں نے حقیقت واقعہ کا اقرار کرلیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں ان کو اپنا مشیر خاص بنا لوں حکم کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کو اعزاز کے ساتھ جیل خانہ سے دربار میں لایا گیا اور باہمی گفتگو سے یوسف (علیہ السلام) کی صلاحیتوں کا پورا اندازہ ہوگیا تو بادشاہ نے کہا کہ آپ آج ہمارے نزدیک بڑے معزز اور معتمد ہیں - امام بغوی (رح) نے نقل کیا ہے کہ جب بادشاہ کا قاصد جیل میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس دوبارہ پہنچا اور بادشاہ کی دعوت پہنچائی تو یوسف (علیہ السلام) نے سب جیل والوں کے لئے دعا کی اور غسل کر کے نئے کپڑے پہنے جب دربار شاہی پر پہنچنے تو یہ دعاء کی حسبی ربی من دنیای وحسبی ربی من خلقہ عز جارہ وجل ثناہ ولآ الٰہ غیرہ۔ یعنی میری دنیا کے لئے میرا رب مجھے کافی ہے اور ساری مخلوق کے بدلے میرا رب میرے لئے کافی ہے جو اس کی پناہ میں آ گیا وہ بالکل محفوظ ہے اور اس کی بڑی تعریف ہے اور اسکے سوا کوئی معبود نہیں - جب دربار میں پہنچنے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اسی طرح دعاء کی اور عربی زبان میں سلام کیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور بادشاہ کیلئے دعاء عبرانی زبان میں کی بادشاہ اگرچہ بہت سی زبانیں جانتا تھا مگر عربی زبانوں سے واقف نہ تھا یوسف (علیہ السلام) نے بتلایا کہ سلام تو عربی زبان میں کیا گیا ہے اور دعا عبرانی زبان میں - اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) سے مختلف زبانوں میں باتیں کی یوسف (علیہ السلام) نے اس کو اسی زبان میں جواب دیا اور عربی اور عبرانی کی دو زبانیں مزید سنائیں جن سے بادشاہ واقف نہ تھا اس واقعہ نے بادشاہ کے دل میں یوسف (علیہ السلام) کی غیر معمولی وقعت قائم کر دی - پھر شاہ مصر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ سے اپنے خواب کی تعبیر بلاواسطہ سن لوں یوسف (علیہ السلام) نے پہلے اس کے خواب کی ایسی تفصیلات بتلائیں جو اب تک بادشاہ نے بھی کسی سے ذکر نہیں کی تھیں پھر تعبیر بتلائی - شاہ مصر نے کہا کہ مجھے تعبیر سے زیادہ اس پر حیرت ہے کہ یہ تفصیلات آپ کو کیسے معلوم ہوئیں اس کے بعد بادشاہ مصر نے مشورہ طلب کیا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے تو یوسف (علیہ السلام) نے مشورہ دیا کہ پہلے سات سال جن میں خوب بارشیں ہونے والی ہیں ان میں آپ زیادہ سے زیادہ کاشت کرا کر غلہ اگانے کا انتظام کریں اور سب لوگوں کو ہدایت کریں کہ اپنی اپنی زمینوں میں زیادہ سے زیادہ کاشت کریں اور جتنا غلہ حاصل ہوا اس میں سے پانچواں حصہ اپنے پاس ذخیرہ کرتے رہیں - اس طرح اہل مصر کے پاس قحط کے سات سال کے لئے بھی ذخیرہ جمع ہوجائے گا اور آپ ان کی طرف سے بےفکر ہوں گے حکومت کو جس قدر غلہ سرکاری محاصل سے یا سرکاری زمینوں سے حاصل ہو اس کو باہر کے لوگوں کے لئے جمع رکھیں کیونکہ یہ قحط دور دراز تک پھیلے گا باہر کے لوگ اس وقت آپ کے محتاج ہوں گے اس وقت آپ غلہ دے کر خلق خدا کی امداد کریں اور معمولی قیمت بھی رکھیں گے تو سرکاری خزانہ میں اتنا مال جمع ہوجائے گا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا شاہ مصر اس مشورہ سے بیحد مسرور و مطمئن ہوا مگر کہنے لگا کہ اس عظیم منصوبہ کا انتظام کیسے ہو اور کون کرے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِيْ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا كَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۝ ٥٤- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔- مكين - وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة .- ( مکین )- اس آيت میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ - امین :- امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔ امانۃ باب کرم مصدر سے ۔ بمعنی امانت دار ہونا۔ ا میں ہونا۔ اور امن باب سمع مصدر بمعنی امن میں ہونا۔ مطمئن ہونا۔ محفوظ ہونا سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے یہ رسول کی پانچویں صفت ہے اور وہ وہاں کا امین ہے۔ پر اعتماد ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وقال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفی فلماکلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین۔ بادشاہ نے کہا : ” انہیں میرے پاس لائو تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں “ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا :” اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے “ چونکہ یہ بادشاہ عقل اور سمجھ رکھتا تھا اس لیے وہ حضرت یوسف علیہ کے حسن و جمال اور پر وقار شخصیت سے اس طرح متاثر نہیں ہوا جس طرح عورتیں اپنی کم عقلی اور ناسمجھی کی بنا پر ان سے متاثر ہوگئی تھیں ، نیز ان عورتوں نے صرف آپ کے ظاہری حسن و جمال کو دیکھا تھا آپ کی عقل مندی اور سمجھ داری کی خوبیوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اس کے برعکس بادشاہ نے اس ظاہری کیفیت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی ، لیکن اسے ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملا تو وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے باطنی کمالات سے ان کے بیان اور علم کی روشنی میں پوری طرح آگاہ ہوگیا اور کہنے لگا انک الیوم لدینا مکین علیم حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جوابا ً جو کچھ اس سے کہا قرآن نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے میں حفاظت کرنیوالا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۔ آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے فضل و کمال کا ایسے شخص کے سامنے تذکرہ کرے جسے اس کا علم نہ ہو تو اسے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے اس کا یہ اقدام قول باری فلا تزکو انفسکم تم اپنی خود ستائی نہ کرو خود ستائی کی ممانعت کے ذیل میں نہیں آتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) یہ باتیں سن کر بادشاہ نے کہا کہ انکو (حضرت یوسف (علیہ السلام) کو) میرے پاس لاؤ میں ان کو عزیز سے لے کر خاص اپنے کام کے لیے رکھوں گا، چناچہ لوگ ان کو بادشاہ کے پاس لائے اور بادشاہ کے سامنے پھر انہوں نے خواب کی تعبیر بیان کی، بادشاہ نے ان سے کہا تم میرے نزدیک آج سے بڑے معزز ومعتبر اور صاحب امانت ہو (بادشاہ کو انتظام قحط کی فکر ہوئی )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ)- آج سے آپ کا شمار ہمارے خاص مقربین میں ہوگا اور اس لحاظ سے مملکت کے اندر آپ کا ایک خاص مقام ہوگا۔ آپ کی امانت و دیانت پر ہمیں پورا پورا بھروسا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :47 یہ بادشاہ کی طرف سے گویا ایک کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جاسکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: بادشاہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے جو باتیں کیں، ان کی تفصیل بعض روایات میں اس طرح آئی ہے کہ اس نے پہلے تو خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف (علیہ السلام) سے سننے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے خواب کی کچھ ایسی تفصیلات اس سے بیان کیں جو بادشاہ نے اب تک کسی اور کو نہیں بتائی تھیں، اس پر وہ نہایت حیرت زدہ ہوا، پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط کے سالوں کا انتظام کرنے کے لئے بھی بڑی مفید تجویزیں پیش کیں، جو اسے بہت پسند آئیں اور اسے آپ کی نیکی کا اطمینان ہوگیا، اس موقع پر اس نے آپ سے کہا کہ آپ پر چونکہ ہمیں پورا بھروسہ ہوچکا ہے، اس لئے آپ کا شمار حکومت کے معتمد افراد میں ہوگا، نیز جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط کے اثرات سے بچنے کی تدبیر بتائی تو بادشاہ نے پوچھا کہ اس کا انتظام کون کرے گا اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے پیشکش کی کہ میں یہ ذمہ داری لینے کو تیار ہوں۔