کنویں سے بازار مصر تک بھائی تو حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے ۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گذر گئے ۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا ۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لے بھیجا ۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا ، حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے ۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیا رہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آگیا ۔ دوسری قرأت اس کی یابشرای بھی ہے ۔ سدی کہتے ہیں بشریٰ سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے ۔ لیکن سدی کا یہ قول غریب ہے ۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہو سکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یائے اضافت ساقط ہے ۔ اسی کی تائید قرآت یا بشرای سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے یانفس اصبری اور یا غلام اقبل اضافت کے حرف کو ساقط کر کے ۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی ۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپا لیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے ، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور حضرت یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں ۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے ۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف علیہ السلام کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بےخبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی ۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کردوں لیکن میرے کام حکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بےفکر رہو ، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کردوں گا ۔ جیسے کہ یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا ۔ یہاں تک کا آخر انجام حضرت یوسف کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا ۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا ۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا ۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا ۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کر دیا تھا ۔ پس اگر انہیں اس کی بےرغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا حضرت یوسف کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے ۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے ۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی ۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن علیہ السلام تھا ۔ پس آپ تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے ۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا ۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول ۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے ۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے ۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لئے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے ، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے ۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کو بازار میں لیجا کر بیچنے لگے ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہو جائے گا ۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان ۔
19۔ 1 وارد اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلے کے لئے پانی وغیرہ انتظام کرنے کی غرض سے قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ دیکھ کر قافلے کو ٹھیرایا جاسکے یہ وراد (جب کنویں پر آیا اور اپنا ڈول نیچے لٹکایا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کی رسی پکڑ لی، وارد نے ایک خوش شکل بچہ دیکھا تو اسے اوپر کھنچ لیا اور بڑا خوش ہوا۔ 19۔ 2 بضاعۃ سامان تجارت کو کہتے ہیں اسروہ کا فاعل کون ہے ؟ یعنی یوسف کو سامان تجارت سمجھ کر چھپانے والا کون ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے برادران یوسف (علیہ السلام) کو فاعل قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب ڈول کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) بھی کنویں سے باہر نکل آئے تو وہاں یہ بھائی بھی موجود تھے، تاہم انہوں نے اصل حقیقت کو چھپائے رکھا، یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا بھائی ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی قتل کے اندیشے سے اپنا بھائی ہونا ظاہر نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے انھیں فروختنی قرار دیا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر لایا۔ چناچہ اس وارد نے اہل قافلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر یہ بات سیاق سے میل کھاتی نظر نہیں آتی۔ ان کے برخلاف امام شوکانی نے اسروہ کا فاعل وارد اور اس کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے کہ انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بچہ کنویں سے نکلا ہے کیونکہ اس طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت میں شریک ہوجاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر یہ بتلایا کہ کنویں کے مالکوں نے یہ بچہ ان کے سپرد کیا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بیچ دیں۔ مگر اقرب ترین بات یہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چھپالیا کہ کہیں اس کے عزیز واقارب اس کی تلاش میں نہ آپہنچیں۔ اور یوں لینے کے دینے پڑجائیں کیونکہ بچہ ہونا اور کنویں میں پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کہیں قریب ہی کا رہنے والا ہے اور کھیلتے کودتے آ گرا ہے۔ 19۔ 3 یعنی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الہی بروئے کار آئے۔ علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقیناً ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انھیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انھیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف (علیہ السلام) کو مہت دی تھی۔ اور پھر بالآخر میں نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز و لاچار کر کے اس کے دربار میں کھڑا کردیا اے پیغمبر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور سرداران قریش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چناچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آپہنچا۔
[١٧] قافلہ والوں کا یوسف کو کنوئیں سے نکالنا :۔ برادران یوسف، یوسف (علیہ السلام) کو اس طرح ٹھکانے لگانے کے بعد اس کی خبر اور نگہداشت بھی رکھتے تھے۔ اتفاق سے ایک آدھ دن ہی بعد ایک قافلہ کا جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ایک آدمی کو پانی کی تلاش میں بھیجا جب وہ اس کنویں پر پہنچا اور پانی حاصل کرنے کی خاطر اپنا ڈول اس کنویں میں ڈالا تو یوسف اس ڈول میں بیٹھ گئے اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پانی کھینچنے والے نے جب ڈول اوپر کھینچا تو اس میں پانی کے بجائے ایک خوبصورت لڑکا دیکھا، جسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں اور خوشی سے فوراً اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ آہا۔ یہ تو خوبصورت لڑکا مل گیا ہے۔ ان دنوں بردہ فروشی کا عام رواج تھا اور یہ قافلہ بھی تجارتی قافلہ تھا۔ انھیں ایسے خوبصورت لڑکے کا اس طرح مل جانا ان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ لہذا قافلہ والوں نے اس واقعہ کو مشہور کرنا مناسب نہ سمجھا کہ مبادا یہ واقعہ سن کر اس بچے کا کوئی دعویدار اٹھ کھڑا ہو۔
وَجَاۗءَتْ سَيَّارَةٌ ۔۔ : یہ قافلہ مصر کی طرف جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف (علیہ السلام) پر یہ احسان ہوا کہ قافلے والوں کی توجہ کنویں سے پانی لانے کی طرف ہوگئی اور یوسف (علیہ السلام) کو باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔ یہاں بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ ڈول والے نے ڈول لٹکایا تو یوسف (علیہ السلام) اس کے ساتھ لٹک گئے اور اوپر آگئے۔ - وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً :” بِضَاعَةً “ کا معنی سامان تجارت ہے، یعنی قافلے والوں پر لازم تھا کہ وہ اردگرد اعلان کرتے، یا یوسف (علیہ السلام) کے بتانے کے مطابق انھیں ان کے والد کے پاس پہنچا دیتے، مگر وہ ظالم بےدین تھے۔ انھوں نے زبردستی غلام بنا کر سامان تجارت کے طور پر چھپالیا کہ مصر جا کر فروخت کریں گے، حالانکہ کسی آزاد کو غلام بنانا یا اسے فروخت کرنا حرام ہے۔ اس سارے سلسلۂ کلام میں یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ صاف ظاہر ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے نکلنے پر اہل قافلہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سامان تجارت کے طور پر انھیں چھپالیا، کسی کو خبر تک نہیں ہونے دی۔ - ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ بھائیوں کا یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینکنا آخر ان کی عظمت و رفعت کا ذریعہ بن گیا۔ آپ بھی اپنے خاندان کے لوگوں کے ظلم وستم سے بددل نہ ہوں۔ یہ سب بھی آخر کار برادران یوسف کی طرح آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
وَجَاۗءَتْ سَيَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ سیارہ کے معنی قافلہ وارد سے مراد وہ لوگ ہیں جو قافلہ سے آگے رہتے ہیں قافلہ کی ضروریات پانی وغیرہ مہیا کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے ادلاء کے معنی کنویں میں ڈول ڈالنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ اتفاقا ایک قافلہ اس سر زمین پر آ نکلا تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہ قافلہ ملک شام سے مصر جا رہا تھا راستہ بھول کر اس غیر آباد جنگل میں پہنچ گیا اور پانی لانے والوں کو کنویں پر بھیجا،- لوگوں کی نظر میں یہ اتفاقی واقعہ تھا کہ شامی قافلہ راستہ بھول کر یہاں پہنچا اور اس غیرآباد کنویں سے سابقہ پڑا لیکن راز کائنات کا جاننے والا جانتا ہے کہ یہ سب واقعات ایک مربوط اور مستحکم نظام کی ملی ہوئی کڑیاں ہیں یوسف (علیہ السلام) کا پیدا کرنے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا ہی قافلہ کو راستہ سے ہٹا کر یہاں لاتا ہے اور اس کے آدمیوں کو اس غیرآباد کنویں پر بھیجتا ہے یہی حال ہے ان تمام حالات و واقعات کا جن کو عام انسان اتفاقی حوادث سمجھتے ہیں اور فلسفہ والے ان کو بخت و اتفاق کہا کرتے ہیں جو درحقیقت نظام کائنات سے ناواقفیت پر مبنی ہوتا ہے ورنہ سلسلہ تکوین میں کوئی بخت و اتفاق نہیں حق سبحانہ وتعالیٰ جس کی شان فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ہے مخفی حکمتوں کے تحت ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں کہ ظاہری وقائع سے ان کا جوڑ سمجھ میں نہیں آتا تو انسان ان کو اتفاقی حوادث قرار دیتا ہے،- بہرحال ان کا آدمی جس کا نام مالک بن دعبربتلایا جاتا ہے اس کنویں پر پہنچا، ڈول ڈالا یوسف (علیہ السلام) نے قدرت کی امداد کا مشاہدہ کیا اس ڈول کی رسی پکڑ لی پانی کے بجائے ڈول کے ساتھ ایک ایسی ہستی کا چہرہ سامنے آ گیا جس کی آئندہ ہونے والی عظمت شان سے بھی قطع نظر کی جائے تو موجودہ حالت میں بھی اپنے حسن و جمال اور معنوی کمالات کے درخشاں نشانات ان کی عظمت کے لئے کچھ کم نہ تھے ایک عجیب انداز سے کنویں کی گہرائی سے برآمد ہونے والے اس کم سن حسین اور ہونہار بچہ کو دیکھ کر پکار اٹھا يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ ارے بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا ہے صحیح مسلم میں شب معراج کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یوسف (علیہ السلام) سے ملا تو دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کے حسن میں سے آدھا ان کو عطا فرمایا ہے اور باقی آدھا سارے جہان میں تقسیم ہوا ہے،- وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً یعنی چھپا لیا اس کو ایک مال تجارت سمجھ کر مطلب یہ ہے کہ شروع میں تو مالک بن دعبریہ لڑکا دیکھ کر تعجب سے پکار اٹھا مگر پھر معاملہ پر غور کر کے یہ قرار دیا کہ اس کا چرچا نہ کیا جائے اس کو چھپا کر رکھے تاکہ اس کو فروخت کر کے رقم وصول کرے اگر پورے قافلہ میں اس کا چرچا ہوگیا تو سارا قافلہ اس میں شریک ہوجائے گا۔- اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے حقیقت واقعہ کو چھپا کر ان کو ایک مال تجارت بنا لیا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ یہودا روزانہ یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں کھانا پہونچانے کے لئے جاتے تھے تیسرے روز جب ان کو کنویں میں نہ پایا تو واپس آ کر بھائیوں سے واقعہ بیان کیا یہ سب بھائی جمع ہو کر وہاں پہنچنے تحقیق کرنے پر قافلہ والوں کے پاس یوسف (علیہ السلام) برآمد ہوئے تو ان سے کہا یہ لڑکا ہمارا غلام ہے بھاگ کر یہاں آ گیا ہے تم نے بہت برا کیا کہ اس کو اپنے قبضہ میں رکھا مالک بن دعبریہ اور ان کے ساتھی سہم گئے کہ ہم چور سمجھے جائیں گے اس لئے بھائیوں سے ان کے خریدنے کی بات چیت ہونے لگی - تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ برادران یوسف نے خود ہی یوسف کو ایک مال تجارت بنا لیا اور فروخت کردیا واللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان کی سب کارگزاریاں معلوم تھیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ کو سب معلوم تھا کہ برادران یوسف کیا کریں گے اور ان سے خریدنے والا قافلہ کیا کرے گا، اور وہ اس پر پوری قدرت رکھتے تھے کہ ان سب کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیں لیکن تکوینی حکمتوں کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے ان منصوبوں کو چلنے دیا،- ابن کثیر نے فرمایا کہ اس جملہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم جو کچھ آپ کے ساتھ کر رہی ہے یا کرے گی وہ سب ہمارے علم وقدرت سے باہر نہیں اگر ہم چاہیں تو ایک آن میں سب کو بدل ڈالیں لیکن تقاضائے حکمت یہی ہے کہ ان لوگوں کو اس وقت اپنی قوت آزمائی کرنے دی جائے اور انجام کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر غالب کر کے حق کو غالب کیا جائے گا، جیسا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کیا گیا
وَجَاۗءَتْ سَـيَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَہٗ ٠ۭ قَالَ يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ ٠ۭ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ١٩- ورد - الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر،- ( ور د ) الورود - ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو - دلو - دَلَوْتُ الدَّلْوَ : إذا أرسلتها، وأدلیتها أي : أخرجتها، وقیل : يكون بمعنی أرسلتها ( قاله أبو منصور في الشامل) قال تعالی: فَأَدْلى دَلْوَهُ [يوسف 19] واستعیر للتّوصّل إلى الشیء قال تعالی: وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] ، والتَّدَلِّي : الدّنوّ والاسترسال، قال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] .- ( دل و )- دلوت الدلو ۔ کے معنی کنویں میں ڈول ڈالنے کے ہیں اور ادلی تھا کے معنی ڈول بھر کر نکالنے کے ابو منصور نے لکھا ہے کہ ۔ اولیٰ کے معنی ڈول کنویں میں ڈالنے کے آجاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ - فَأَدْلى دَلْوَهُ [يوسف 19] اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا - اسی سے بطور استعارہ ادلیٰ کے معنی کسی چیز تک پہچنے کے لئے ذریعہ بنانا بھی آجاتے ہیں۔ قرآن میں ہے ؛ وَتُدْلُوا بِها إِلَى الْحُكَّامِ [ البقرة 188] اور نہ ان اموال کے ذریعہ درشوت دیکر حکام تک رسائی حا صل کرو ۔ اتدلی ( تفعل ) قریب ہونا اور اترانا قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - غلم - الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ.- ( غ ل م ) الغلام - اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔- سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - بضع - البِضَاعَة : قطعة وافرة من المال تقتنی للتجارة، يقال : أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا . قال تعالی: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] وقال تعالی: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88]- ( ب ض ع ) البضاعۃ - ۔ مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
قول باری ہے قال یا بشری ھذ ا غلام واسروہ بضاعۃ ً وہ پکار اٹھا ۔ مبارک ہو۔ یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپالیا ۔ قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ جب سقے نے کنوئیں میں ڈول ڈالا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) ڈول کے ساتھ لٹک گئے ۔ سقے نے انہیں دیکھ کر پکارکر کہا کہ مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ ڈول ڈالنے والے نے اپنے ساتھیوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ اسے ایک غلام ہاتھ آیا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ جس شخص کو سقے نے پکار کر خوشخبری سنائی تھی اس کا نام بشری تھا۔- قول باری واسروہ بضاعۃ کی تفسیر میں مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ ڈول ڈالنے والے اور اس کے ساتھیوں نے قافلے کے باقی ماندہ تاجروں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو چھپاکر رکھ لیا تا کہ وہ ان کی قیمت فروخت میں کمی کے ذریعے شرکت کے دعویدار نہ بن جائیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ برادران یوسف نے انہیں چھپالیا تھا اور یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ یہ ان کا بھائی ہے۔ حضرت یوسف نے بھی بھائیوں کی اس بات پر اس ڈر سے خاموشی اختیار کرلی تھی کہ کہیں وہ انہیں قتل نہ کردیں۔ بضاعت مال کے ایک حصے کو کہتے ہیں جو بغرض تجارت رکھاجائے۔ قول باری اوا سروہ بضاعۃ کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے دل میں حضرت یوسف کو بغر ض تجارت پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ شعبہ نے یونس سے ، انہوں نے عبید سے ، انہوں نے حسن سے ، اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں جو کہیں سے کسی کے ہاتھ آگیا تھا یعنی لقیط ، فیصلہ دیا تھا کہ یہ آزا د ہے۔ اس موقعہ پر آپ نے یہ تلاوت فرمائی تھی ۔ واشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ وکانوا فیہ من الزھدین ۔ آخر کار انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔- جو بچہ کہیں سے پڑا مل جائے وہ کس کی ولاء ہے ؟- زہری نے ابو جمیلہ سنین سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں مجھے ایک بچہ ملا جسے کسی نے پھینک دیا تھا، میں اسے لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس آیا تو آپ نے ضرب المثل کے طور پر یہ فقرہ کہا عسی الغویر ابو سا یعنی ہوسکتا ہے کہ بچے کی اس صورت حال میں تمہارا ہاتھ ہو ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ ابو جمیلہ پر ایسا الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ یہ بچہ آزاد ہے، اس کی ولاء تمہیں یعنی ابو جمیلہ کو حاصل ہوگی اور اس کی راعت ہمارے ذمے ہوگی ۔ حضرت عمر (رض) کے قول عسی الغویر ابوسا کی تشریح یہ ہے، غور غار کی تصغیر ہے۔ یہ ایک مثل ہے جس کے معنی ہیں ۔ شاید یہ مصیبت غار کی جانب سے آئی ہو۔ حضرت عمر (رض) نے دراصل اس شخص پر الزام لگایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ شاید اس ہاتھ آنے والے بچے کے معاملہ میں بایں معنی تمہارا دخل ہو کہ یہ تمہارے نطفے سے ہو لیکن جب لوگوں نے اس شخص کی بےگناہی کی گواہی دی تو آپ نے اسے اس بچے کو رکھ لینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی اولاد تمہارے لیے ہوگی ۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ولاء سے یہاں پرورش اور سرپرستی مراد لی ہو اور اس کی سرپرستی کا حق اس شخص کے لیے ثابت کردیا ہو جس طرح اس بچے کے غلام ہونے کی صورت میں اسے آزاد کردینے پر اس شخص کے لیے اس کی ولاء کا ثبوت ہوجاتا اس لیے کہ اس شخص نے اس بچے کو اپنے ساتھ لا کر اسے زندہ رکھ کر اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر کے بڑی نیکی کی تھی۔- حضرت عمر (رض) نے اسے بتایا تھا کہ وہ بچہ آزاد ہے۔ اب یا تو حضرت عمر (رض) نے یہ بات یہ خبر دینے کے طور پر کہی تھی کہ یہ بچہ اصل کے اعتبار سے آزاد ہے اور اس پر کوئی غلامی نہیں ہے یا یہ کہ آپ نے اپنی طرف سے اس پر آزادی واقع کردی تھی ، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ اس بچے پر حضرت عمر (رض) کی ملکیت نہیں تھی۔ اور نہ ہی وہ بچہ حضرت عمر (رض) کا غلام تھا۔ جس کی بنا پر آپ اسے آزاد کردیتے ۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت عمر (رض) نے یہ خبر دی تھی کہ یہ بچہ اصل کے اعتبار سے آزاد ہے اس پر غلامی کا اجراء نہیں ہوسکتا۔ اور جب وہ اصل کے اعتبار سے آزاد تھا تو اس کی ولاء کسی انسان کے لیے ثابت نہیں ہوسکتی ۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر (رض) کی اپنے قول لک ولاء ہ سے یہ مراد تھی کہ پرورش اور نگہداشت کے سلسلے میں اسے تمہاری سرپرستی حاصل ہوگی ۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ اولاد زنا کے متعلق انہوں نے فرمایا تھا۔ انہیں آزاد کردو اور ان کے ساتھ احسان کرو۔ اس قول کے معنی یہ ہیں کہ ان پر آزاد ہونے کا حکم لگائو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کوئی اپنے والد کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا ۔ الایہ کہ وہ اپنے والد کو کسی کا غلام پائے اور اسے خریدکر آزاد کردے۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ بیٹے کی ملکیت میں آتے ہی باپ کو آزادی مل جاتی ہے بیٹے کو اسے نئے سرے سے آزاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مغیرہ نے ابراہیم تخعی سے لقیط بچہ جو کہیں سے کسی کو مل جائے کے بارے میں جو کسی شخص کے ہاتھ آ جائے روایت کی ہے کہ اگر اس شخص نے اپنا غلام بنانے کا ارادہ کرلیا ہو تو وہ اس کا غلام بن جائے گا اور اگر اس نے اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت کی ہو تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک بےمعنی سی بات ہے اس لیے کہ اگر وہ اصل کے اعتبار سے آزاد ہوگا تو اسے اٹھانے والے شخص کی نیت کی بنا پر وہ غلام نہیں بنے گا اور اگر وہ غلام ہوگا تو اٹھانے والے کی نیت ثواب کی بنا پر آزاد نہیں ہوگا۔ نیز انسانوں میں اصل اور بنیادی چیز آزادی ہے اور یہ بات واضح ہے آپ نہیں دیکھتے کہ ہمیں جو شخص دارالسلام میں کاروبار اور تصرفات کرتے ہوئے نظر آئے گا ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ یہ آزاد ہے اور اسے غلام قرار نہیں دیں گے۔- البتہ اگر کوئی ثبوت مہیا ہوجائے جس سے اس کا غلام ہونا ثابت ہوجائے یا وہ خود اپنے غلام ہونے کا اقرارکر لے تو یہ اور بات ہوگی ، نیز لقیط یا تو کسی آزاد عورت کا بیٹا ہوگا یا لونڈی کا اگر پہلی صورت ہوگی تو وہ آزاد ہوگا اور اسے غلام بنا لینا درست نہیں ہوگا اگر دوسری صورت ہوگی تو وہ اٹھانے والے انسان کے سوا کسی اور کا غلام ہوگا اس صورت میں ہمیں اسے اس شخص کی ملکیت میں دے دیناجائز نہیں ہوگا ۔ ان تمام صورتوں میں یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ لقیط اس شخص کا غلام قرار دیا جائے جس نے اسے اٹھایا ہو نیز غلامی کی حالت اس پر طاری ہوتی ہے جبکہ اصل کے اعتبار سے اس میں آزادی ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کسی چیز کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ یہ فلاں شخص کی ملکیت ہے لیکن ایک اور شخص اس چیز کی ملکیت کا دعویٰ کرلے تو ہم اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کریں گے اس لیے کہ وہ ایسی چیز کا دعویٰ کر رہا ہے جو اس پر طاری ہوئی ہے۔ لقیط کو اٹھانے والے شخص کے حق میں اس کی غلامی کے ثبوت کی بھی یہی کیفیت ہوگی اور اس طرح غلامی ثابت نہیں ہوگی ۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے، لقطہ یعنی گرے پڑے مال یا جنس کو اٹھا لینے کی صورت میں اٹھانے والے کے لیے اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی حالانکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ یہ چیز کسی کی ملکیت ہے اور اصل کے اعتبار سے یہ مملوکہ شے ہے اس لیے لقیط کی صورت میں جسکی غلامی کے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں ہے یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ اسے اٹھانے والے کی ملکیت قرار نہ دی جائے اور یہ چیز اس کی غلامی کی موجب نہ بنے۔- حماد بن سلمہ نے عطا خراسانی سے اور انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کرلیا ، عورت کے ہاں چار ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوگیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اسکی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ عورت کو اس کا مہر ملے گا اس لیے کہ مرد نے اس کی شرمگاہ اپنے لیے حلال کرلی تھی اور بچہ مرد کا مملوک ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک شاذ روایت ہے اس پر کسی کا عمل نہیں ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ ہے کہ وہ بچہ ولد زنا تھا ۔ اگر وہ کسی آزاد عورت کا بچہ ہوتا تو آزاد قرار دیا جاتا ۔ فقہاء کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ولد زنا اور لقیط دونوں آزاد ہوتے ہیں۔
(١٩۔ ٢٠) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی باتوں کی تصدیق نہیں کی کیوں کہ انہوں نے پہلی دفعہ کہا تھا کہ ان کو ڈاکوؤں نے مار ڈالا (کرتہ کہیں سے پھٹا ہوا نہیں تھا) اور ادھر مدین سے مسافروں کا ایک قافلہ آنکلا جو مصر جارہا تھا، چناچہ وہ راستہ بھول کر غلط راستہ پر آگئے بالآخر گشت کرتے کرتے مدین اور مصر کے درمیان دونوں کی زمینوں میں آئے وہاں کنواں تھا، چناچہ اس سرزمین پر ٹھہر گئے، اور یہاں ہر ایک قوم نے اپنے اپنے آدمیوں کو پانی کی تلاش میں بھیجا، اتفاق سے عربوں میں سے ایک شخص مالک بن دعر نامی جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اس کنوئیں پر آپہنچے جس میں یوسف (علیہ السلام) تھے اور اس نے اپنا ڈول ڈالا، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ڈول کو پکڑ لیا تو وہ کنوئیں سے ڈول نہ کھینچ سکا تو اس نے کنوئیں کے اندر جھانکا۔ اچانک ایک لڑکے پر نظر پڑی جس نے ڈول کو پکڑ رکھا ہے، اس نے اپنے ساتھیوں کو پکارا کہ میرے ساتھیوں بڑی خوشخبری ہے وہ کہنے لگے مالک کیا ہے اس نے کہا کہ یہ بڑا اچھا لڑکا ہے، چناچہ اور ساتھی جمع ہوئے اور سب نے مل کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکال لیا اور نکال کر قوم سے چھپالیا اور قوم سے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ مال تجارت ہے ہم نے پانی والوں سے مصر میں بیچنے کے لیے اس کو لیا ہے۔- اور اللہ تعالیٰ کو ان کی سب کارگزاریاں معلوم تھیں۔- غرض کہ وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی پہنچ گئے اور انہوں نے ان کو مالک بن دعر سے بہت ہی کم قیمت یعنی بیس درہم یا بتیس درہم بیچ ڈالا، یا یہ کہ قافلہ والوں نے انکو بیچ ڈالا اور یوسف (علیہ السلام) کے بدلے جو انہوں نے قیمت لی وہ اس کے کچھ محتاج تو تھے نہیں یا یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان کے کچھ قدر دان تو تھے نہیں کیوں کہ ان کی قدر ومنزلت کو نہیں پہچانا یا یہ کہ قافلہ والے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قدردان نہیں تھے۔
آیت ١٩ (وَجَاۗءَتْ سَيَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ )- جب قافلے چلتے تھے تو ایک آدمی قافلے کے آگے آگے چلتا تھا۔ وہ قافلے کے پڑاؤ کے لیے جگہ کا انتخاب کرتا اور پانی وغیرہ کے انتظام کا جائزہ لیتا۔ قافلے والوں نے اس ڈیوٹی پر مامور شخص کو بھیجا کہ وہ جا کر پانی کا کھوج لگائے۔ اس شخص نے باؤلی دیکھی تو پانی نکالنے کی تدبیر کرنے لگا۔- (فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ )- حضرت یوسف نے اس کے ڈول کو پکڑ لیا۔ اس نے جب ڈول کھینچا اور حضرت یوسف کو دیکھا تو :- (قَالَ يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ ۭ وَاَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً )- کہ بہت خوبصورت لڑکا ہے بیچیں گے تو اچھے دام ملیں گے۔
11: روایات میں ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ ایک پتھر پر جا بیٹھے تھے۔ جب قافلے کے اس آدمی نے پانی نکالنے کے لیے ڈول کنویں میں ڈالا تو وہ اس ڈول میں سوار ہوگئے اس نے ڈول کھینچا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ وہ الفاظ نکلے جو اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں۔