بھائیوں کی واپسی اور معذرت چپ چاپ ننھے بھیا پر ، اللہ کے معصوم نبی پر ، باپ کی آنکھ کے تارے پر ظلم وستم کے کے پہاڑ توڑ کر رات ہوئے باپ کے پاس سرخ رو ہو نے اور اپنی ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے غمزدہ ہو کر روتے ہوئے پہنچے اور اپنے ملال کا یوسف کے نہ ہو نے کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم نے تیر اندازی اور ڈور شروع کی ۔ چھوٹے بھائی کو اسباب کے پاس چھوڑا ۔ اتفاق کی بات ہے اسی وقت بھیڑیا آگیا اور بھائی کا لقمہ بنا لیا ۔ چیڑ پھاڑ کر کھا گیا ۔ پھر باپ کو اپنی بات صحیح طور پر جچانے اور ٹھیک باور کرانے کے لیے پانی سے پہلے بند باندھتے ہیں کہ ہم اگر آپ کے نزدیک سچے ہی ہوتے تب بھی یہ واقعہ ایسا ہے کہ آپ ہمیں سچا ماننے میں تامل کرتے ۔ پھر جب کہ پہلے ہی سے آپ نے اپنا ایک کھٹکا ظاہر کیا ہو اور خلاف ظاہر واقع میں ہی اتفاقا ایسا ہی ہو بھی جائے تو ظاہر ہے کہ آپ اس وقت تو وہ ہمیں سچا مان ہی نہیں سکتے ۔ ہیں تو ہم سچے ہی لیکن آپ بھی ہم پر اعتبار نہ کرنے میں ایک حد تک حق بجانب ہیں ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہی ایسا انوکھا ہے ہم خود حیران ہیں کہ ہو کیا گیا یہ تو تھا زبانی کھیل ایک کام بھی اسی کے ساتھ کر لائے تھے یعنی بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کے خون سے حضرت یوسف کا پیراہن داغدار کر دیا کہ بطور شہادت کے ابا کے سامنے پیش کریں گے کہ دیکھو یہ ہیں یوسف بھائی کے خون کے دھبے ان کے کرتے پر ۔ لیکن اللہ کی شان چور کے پاؤں کہاں؟ سب کچھ تو کیا لیکن کرتا پھاڑنا بھول گئے ۔ اس کے لیے باپ پر سب مکر کھل گیا ۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضبط کیا اور صاف لفظوں میں گو نہ کہا تاہم بیٹوں کو بھی پتہ چل گیا کہ ابا جی کو ہماری بات جچی نہیں فرمایا کہ تمہارے دل نے یہ تو ایک بات بنادی ہے ۔ خیر میں تو تمہاری اس مذبوحی حرکت پر صبر ہی کروں گا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس دکھ کو ٹال دے ۔ تم جو ایک جھوٹی بات مجھ سے بیان کر رہے ہو اور ایک محال چیز پر مجھے یقین دلا رہے ہو اور اس پر میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں اور اس کی مدد شامل حال رہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ کرتا دیکھ کر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تعجب ہے بھیڑیا یوسف کو کھا گیا اس کا پیراہن خون آلود ہو گیا مگر کہیں سے ذرا بھی نہ پھٹا ۔ خیر میں صبر کروں گا ۔ جس میں کوئی شکایت نہ ہو نہ کوئی گھبراہٹ ہو ۔ کہتے ہیں کہ تین چیزوں کا نام صبر ہے اپنی مصیبت کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔ اپنے دل کا دکھڑا کسی کے سامنے نہ رونا اور ساتھ ہی اپنے نفس کا پاک نہ سمجھا ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس موقعہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی پوری حدیث کو بیان کیا ہے جس میں آپ پر تہمت لگائے جانے کا ذکر ہے ۔ اس میں آپ نے فرمایا ہے واللہ میری اور تمہاری مثال حضرت یوسف کے باپ کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری ان باتوں پر اللہ ہی سے مدد چاہی گئی ہے ۔
وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً : اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد انھیں دن کی روشنی میں باپ کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ دن کے وقت چہرے کے اثرات، جسم کا اضطراب اور زبان کا لڑکھڑانا ہی سب کچھ ظاہر کردیتا ہے۔ اس لیے وہ عشاء کے وقت باپ کے پاس آئے۔ اکثر جرائم کے وقوع اور انھیں چھپانے کا ذریعہ رات کا اندھیرا ہی بنتا ہے، اس لیے ہم سب کو حکم ہوا کہ کہو : (وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ) [ الفلق : ٣ ] ” اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے (پناہ مانگتا ہوں) ۔ “- يَّبْكُوْنَ : ” روتے ہوئے “ معلوم ہوا ہر رونے والا سچا نہیں ہوتا۔ میں نے ایک عالم کا قول پڑھا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے رونے کے بعد سے ہمارا اعتبار رونے والوں سے اٹھ گیا ہے، اللہ جانے کون سچا رو رہا ہے اور کون جھوٹا۔ حسین (رض) کی بہن زینب (رض) نے کوفے والوں کو روتے پیٹتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں ؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ لوگ حسین (رض) اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر رو رہے ہیں تو وہ بےساختہ کہنے لگیں کہ یہ لوگ ہم پر رو رہے ہیں تو ہمیں قتل کرنے والے کون ہیں ؟ (یعنی کیا وہ کوفہ سے باہر کی کوئی مخلوق تھی ؟ یہی تو قتل کرنے والے تھے) ۔
(آیت) وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ یعنی عشاء کے وقت یہ بھائی روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہونچے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان کے رونے کی آواز سن کر باہر آئے پوچھا کیا حادثہ ہے کیا تمہاری بکریوں کے گلہ پر کسی نے حملہ کیا ہے ؟ اور یوسف کہاں ہے ؟
وَجَاۗءُوْٓا اَبَاہُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ١٦ۭ- عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- بكي - بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58]- ( ب ک ی ) بکی - یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔
ہر روتا ہوا شخص مظلوم ہی نہیں ، ظالم بھی ہوسکتا ہے - قول باری ہے وجائوا اباھم عشا ئً یبکون ۔ شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے ۔ روایت کے مطابق ایک دفعہ شعبی دارالقضاء میں مقدمات کی سماعت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص روتا ہوا آیا اور دعویٰ کیا کہ فلاں شخص نے اس پر ظلم کیا ہے۔ شعبی کے پاس موجود ایک شخص نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخص واقعی مظلوم ہو ۔ یہ سن کر شعبی نے کہا کہ برادران یوسف بھی خیانت کرنے اور ظلم ڈھانے کے بعد شام کے وقت اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے تھے اور جھوٹ بیان دیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیاکھا گیا ہے۔ بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے سانحہ پر رونے کا اظہار اپنے آپ کو خیانت کے الزام سے بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کیا تھا نیز رو دھو کر انہوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ بھی ان کے غم میں شریک ہیں ، نیز حضرت یعقوب (علیہ السلام) جس خو ف کا اظہار کیا تھا کہ کہیں یوسف کو بھیڑیا نہ کھاجائے اس کے متعلق بھائیوں نے اپنے جھوٹے آنسوئوں کی ذریعے باپ کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی چناچہ باپ سے انہوں نے کہا انا ذھبنا نستبق وترکنا یوسف عند متاعنافاکلہ الذنب وما انت بمومن لنا ہمدوڑ کر مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ یعنی ہم تیر اندازی کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے۔ ایک قول کے مطابق ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے۔ قول باری ہے وما انت بمومن لنا یعنی آپ ہمیں سچا نہیں تسلیم کریں گے، اپنی بات پکی کرنے کے لیے یہ لوگ خون لگا ہوا قمیص بھی لے آئے اور کہا کہ اس پر یوسف کا خون لگا ہوا ہے۔
(١٦۔ ١٧) ادھر وہ لوگ ظہر کے بعد یعنی شام کو اپنے باپ کے پاس یوسف (علیہ السلام) پر روتے ہوئے پہنچے اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو کھیل کود اور شکار میں لگ گئے اور یوسف کو ہم نے اپنی چیزوں کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا، چناچہ جس چیز کا آپ کو ڈر تھا وہی ہوا اور آپ کیوں ہم پر یقین کریں گے چاہے ہم کیسے ہی سچے کیوں نہ ہوں۔