بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں ۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کر لے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے ۔ باوجود یکہ تھے بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے ۔ ؟ ( يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 ) 12- یوسف:12 ) کی دوسری قرآت ( آیت ترتع و نلعب ) بھی ہے ۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے ۔ ان کا جی خوش ہو گا ، دو گھڑی کھیل کود لیں گے ، ہنس بول لیں گے ، آزادی سے چل پھر لیں گے ۔ آپ بےفکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے ۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے ۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں ۔
11۔ 1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کردیا ہوگا۔
[١٠] بھائیوں کا باپ سے یوسف کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ :۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ یوسف کو اپنے ساتھ کیسے لے جائیں تاکہ اپنی تجویز پر عمل کرسکیں۔ سیدنا یعقوب کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یوسف کے حق میں ان کے بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں۔ اس غرض کے لیے پھر انھیں جھوٹ اور مکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ آخر ہم اس کے بھائی ہی ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجئے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے ریوڑ کو جنگل کی طرف لے جائیں۔ تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ وہاں اس کا دل بہلے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہوگا۔ ہم اس سے مانوس ہوں گے اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا ۔۔ : اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ کیسے لے جائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے جانے کی کوشش کرچکے تھے، مگر والد نے اجازت نہیں دی تھی اور یہ کہ والد کو پہلے بھی ان کے متعلق اعتبار نہ تھا کہ وہ یوسف کے خیر خواہ ہیں، یا انھیں کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔ اس مرتبہ دس کے دس بھائیوں نے منت، خوشامد اور دھونس دھاندلی کا ہر حربہ استعمال کرکے یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی۔ سب سے پہلے تو نہایت ادب اور منت کے ساتھ بات کی، ابتدا دیکھیے ” يٰٓاَبَانَا “ ” اے ہمارے باپ “ اس سے قریب تر رشتہ کون سا ہوگا جو درمیان میں لا کر درخواست کی جائے اور دل نرم نہ ہو، پھر ساتھ ہی دھونس دیکھیے ” آپ کو کیا ہے کہ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد ہی نہیں کرتے “ (گویا سارا قصور ابا جی کا ہے) ” حالانکہ بیشک ہم یقیناً اس کے خیر خواہ ہیں۔ “ ” اِنَّا “ کے ” اِنَّ “ اور ” لَنٰصِحُوْنَ “ کے لام کے ساتھ خیر خواہی کا یقین دلانا ملاحظہ فرمائیں، اہل عرب کے ہاں اس میں قسم کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ پھر یوسف کی مزید خیر خواہی کا ذکر ہوتا ہے کہ کبھی باہر جنگل میں جا کر اسے سیر و تفریح کا موقع ہی نہیں ملا۔ کل آپ اسے ہمارے ساتھ بھیجیں، جنگل کے پھل وغیرہ کھائے پیے گا، کھیلے کودے گا، خوش دل ہوگا۔ رہا جنگل اور صحرا میں وحشی جانوروں وغیرہ کا خطرہ تو اس کی فکر نہ کیجیے۔ ” بیشک “ ہم اس کی ” یقینا “ حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ وہی قسم کے مفہوم والے الفاظ ہیں جو انھوں نے اپنی خیر خواہی کا یقین دلاتے ہوئے کہے تھے کہ ” وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ “ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا پیشہ جنگل میں بکریاں وغیرہ چرانا تھا۔
پانچویں اور چھٹی آیت میں ہے کہ ان بھائیوں نے والد کے سامنے درخواست ان لفظوں میں پیش کردی کہ اباجان یہ کیا بات ہے کہ آپ کو یوسف کے بارے میں ہم پر اطمینان نہیں حالانکہ ہم اس کے پورے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں کل اس کو آپ ہمارے ساتھ (سیر و تفریح کے لئے) بھیج دیجئے کہ وہ بھی آزادی کے ساتھ کھائے پیئے اور کھیلے اور ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے،- بھائیوں کی اس درخواست سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی اس سے پہلے بھی ایسی درخواست کرچکے تھے جس کو والد بزرگوار نے قبول نہ کیا تھا اس لئے اس مرتبہ ذرا تاکید اور اصرار کے ساتھ والد کو اطمینان دلانے کی کوشش کی گئی ہے،
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ ١١- لاتامنا علی یوسف - ۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ تو ہم کو امین نہیں بناتا یوسف پر۔ یعنی یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا۔ اصل میں تامنا ( امن یامن سمع) تھا۔ نون نون میں مدغم کردیا گیا۔- نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب
(١١۔ ١٢) چناچہ سب نے اپنے باپ کے سامنے آکر گزارش کی اور کہا کہ ہم انکے خیرخواہ ہیں، آپ ان کو ہمارے ساتھ جنگل بھیجئے تاکہ وہ جائیں آئیں کھائیں اور کھیلیں اور ہم ان پر مشفق ومہربان ہیں۔
6: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اس سے پہلے بھی انہیں ساتھ لے جانے کی کوشش کرچکے تھے لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے منع فرما دیا تھا۔