81۔ 1 جب فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ کرلیا تو بولے، اے لوط گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تک تو کیا، اب یہ تجھ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب رات کے ایک حصے میں، سوائے بیوی کے، اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جا صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہلاک کردیا جائے گا۔
[٩١] مشٹنڈوں کا اندھا ہونا :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی زبان سے ایسے بےبسی کے الفاظ سن کر فرشتے چپ نہ رہ سکے اور کہنے لگے کہ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ آپ کے پروردگار کے فرستادہ فرشتے ہیں اور فکر نہ کرو یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمہارا بھی کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد سیدنا جبریل نے لوط کو ایک علیحدہ جگہ بٹھلا دیا اور صرف اپنا بازو تھوڑا سا ان ملعونوں کی طرف بڑھایا تو سب کے سب اندھے ہوگئے انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بھاگو یہاں سے۔ یہ لوط کے مہمان تو بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں اور جب وہ بھاگنے لگے تو ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔- [ ٩٢] سیدنا لوط اور مومنوں کو نکلنے کی ہدایت اور بیوی کا پیچھے رہنا :۔ جب یہ لوگ سیدنا لوط کے گھر سے دفع ہوگئے تو فرشتوں نے لوط کو اللہ تعالیٰ کے پروگرام سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ صبح کے وقت ان پر عذاب آنے والا ہے اور صبح ہونے میں تھوڑا ہی وقت باقی رہ گیا ہے لہذا جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرو اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی کیونکہ وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا مبادا کسی کو یہ خیال آجائے کہ دیکھیں تو سہی ان پر کیسے عذاب آتا ہے اور وہ بھی کہیں عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔
قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ ۔۔ : قوم کے بدمعاش جب باز نہ آئے بلکہ دیواریں پھلانگ کر یا دروازہ توڑ کر اندر آگئے تو فرشتے نے پر مارا، جس سے سب اندھے ہو کر بھاگ اٹھے۔ سورة قمر میں اس کی طرف اشارہ ہے، فرمایا : (وَلَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ فَطَمَسْـنَآ اَعْيُنَهُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَنُذُرِ ) [ القمر : ٣٧ ] ” اور بلاشبہ یقیناً انھوں نے اسے اس کے مہمانوں سے بہکانے کی کوشش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں، پس چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ “ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب فرشتوں نے دیکھا کہ لوط (علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو نہ روک سکنے کی وجہ سے سخت رنجیدہ ہیں تو انھوں نے ظاہر کردیا کہ ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ وہ تھا جو انھوں نے ان بدکاروں کی آنکھیں مٹا کر کیا، مزید تسلی یہ دی کہ یہ لوگ کبھی آپ کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے۔ - فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ ۔۔ : یعنی رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ صرف گھر والوں کو لے کر نکلنے کا حکم اس لیے دیا کہ کوئی اور شخص ان کے سوا مسلمان ہی نہیں ہوا تھا۔ دیکھیے سورة ذاریات ( ٣٥، ٣٦) ۔- اِلَّا امْرَاَتَكَ : اس کی دو تفسیریں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ” فَاَسْرِ بِاَھْلِک “ سے استثنا ہے، یعنی اپنی بیوی کے سوا دوسرے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ۔ دوسری یہ کہ تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے، مگر تمہاری بیوی مڑ کر دیکھے گی اور اپنے کفر اور قوم کی ہمدردی کی وجہ سے ان پر عذاب دیکھ کر آہ و پکار کرے گی تو اسے بھی وہی عذاب آپہنچے گا جو ان کو پہنچا۔ پہلا معنی زیادہ قریب ہے۔ (واللہ اعلم) قدرتی بات ہے کہ انسان کو اپنے دشمن کی جلد از جلد بربادی کی خواہش ہوتی ہے، فرشتوں نے بتایا کہ ان پر عذاب صبح کے وقت آئے گا۔ لوط (علیہ السلام) کے مزید جلدی کے مطالبے پر انھوں نے کہا : (اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ) ” کیا صبح واقعی قریب نہیں ہے ؟ “ صبح کا وقت شاید اس لیے مقرر کیا گیا ہو کہ وہ آرام کا وقت ہوتا ہے اور لوگ کچھ کچھ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ آرام کے وقت عذاب زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں عذاب دیکھنے والوں کے لیے باعث عبرت بھی ہوتا ہے۔ (آلوسی) ” اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ “ پر شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ “ (موضح)
اس وقت فرشتوں نے بحکم ربانی حضرت لوط (علیہ السلام) کو کہا (آیت) فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ ، یعنی آپ رات کے آخری حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جائے۔ اور یہ ہدایت کردیجئے کہ ان میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، بجز آپ کی بیوی کے کیونکہ اس پر تو وہی عذاب پڑنے والا ہے جو قوم پر پڑے گا۔- اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بیوی کو ساتھ نہ لیں، اور یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ بیوی ہونے کی حیثیت سے وہ آپ کے اہل میں داخل ہو کر ساتھ چلے گی مگر وہ آپ کے اس حکم پر عمل نہ کرے گی جو آپ اپنے اہل عیال کو دیں گے کہ کوئی مڑ کر نہ دیکھے، بعض روایات میں ہے کہ یونہی ہوا کہ یہ بیوی بھی ساتھ چلی مگر جب قوم پر عذاب آنے کا دھماکہ سنا تو پیچھے مڑ کر دیکھا اور قوم کی تباہی پر اظہا افسوس کرنے لگی، اسی وقت ایک پتھر آیا جس نے اس کا بھی خاتمہ کردیا۔ (قرطبی و مظہری) ۔- فرشتوں نے یہ بھی بتلا دیا کہ (آیت) اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ، یعنی ان پر صبح ہوتے ہی عذاب آجائے گا حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اور بھی جلد عذاب آجائے، اس پر فرشتوں نے کہا (آیت) اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ، یعنی صبح تو کچھ دور نہیں ہوا چاہتی ہے۔- پھر اس عذاب کا واقعہ قرآن نے اس طرح بیان فرمایا کہ جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے ان بستیوں کے اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر ایسے پتھر برسائے جن پر ہر ایک کے نام کی علامت لگی ہوئی تھی۔- روایات میں ہے کہ یہ چار بڑے بڑے شہر تھے جن میں یہ لوگ بستے تھے، انہیں بستیوں کو قرآن کریم میں دوسری جگہ، مؤ تفکات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو جبرئل امین نے اپنا پَر ان سب شہروں کی زمین کے نیچے پہنچا کر سب کو اس طرح اوپر اٹھا لیا کہ ہر چیز اپنی جگہ رہی، پانی کے برتن سے پانی بھی نہیں گرا، آسمان کی طرف سے کتوں اور جانوروں اور انسانوں کی آوازیں آرہی تھیں ان سب بستیوں کو آسمان کی طرف سیدھا اٹھانے کے بعد اوندھا کرکے پلٹ دیا، جو ان کے عمل خبیث کے مناسب حال تھا۔
قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ فَاَسْرِ بِاَہْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَ ٠ۭ اِنَّہٗ مُصِيْبُہَا مَآ اَصَابَہُمْ ٠ۭ اِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ ٠ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ٨١- وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - سری - السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] 232-- بسرو حمیر أبوال البغال به - «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی:- سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ- [ الإسراء 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة .- ( س ر ی و ) السریٰ- کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - لفت - يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] أي : تصرفنا، - ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا - ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔
(٨١) تو کہنے لگے اے لوط ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہم تو کیا آپ تک انکی رسائی نہیں ہوسکتی کہ آپ کو کچھ تکلیف پہنچائیں۔ ہم ہی ان کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں۔- تو آپ رات کے کسی حصہ میں یعنی سحر کے وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے کسی اور مقام پر چلے جائیے اور آپ میں سے کوئی پیچھے نہ رہے مگر ہاں آپ کی بیوی واعلہ مسلمان نہ ہونے کے باعث نہ جائے گی اس پر بھی وہ عذاب نازل ہوگا جو اوروں پر ہوگا انکی ہلاکت کا وقت صبح کا وقت ہے۔- تب لوط (علیہ السلام) نے فرمایا جبریل (علیہ السلام) ابھی ہوجائے، جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کیا صبح کا وقت قریب نہیں کیوں کہ جبریل امین (علیہ السلام) تو اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے سامنے ابھی تک یہ منظر نہیں آیا تھا۔
آیت ٨١ (قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ )- فرشتوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے آپ کو تسلی دی کہ آپ اطمینان رکھیں یہ لوگ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ ہلایا تو وہ سب نابکار اندھے ہوگئے۔- (فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ)- یعنی یہاں سے جاتے ہوئے آپ لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں کی طرف کسی قسم کی کوئی توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔- (اِلَّا امْرَاَتَكَ ۭ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَآ اَصَابَهُمْ )- یعنی جب آپ اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکلیں گے تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہیں جائیں گے۔ آپ ( علیہ السلام) کی اس بیوی کا ذکر سورة التحریم میں حضرت نوح کی مشرک بیوی کے ساتھ اس طرح ہوا ہے : (ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ 10) ” اللہ کافروں کے لیے مثال بیان کرتا ہے نوح کی بیوی اور لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی۔ وہ دونوں عورتیں ہمارے دو برگزیدہ بندوں کے تحت تھیں لیکن انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی چناچہ ان کے شوہر انہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکے۔ اور (ان دونوں عورتوں سے) کہہ دیا گیا کہ تم بھی (جہنم میں) داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ “- (اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ )- فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا کہ اب آپ لوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ آپ فوری طور پر اپنی بچیوں کو لے کر یہاں سے نکل جائیں صبح ہوتے ہی ان بستیوں پر عذاب آجائے گا۔ اور صبح ہونے میں اب دیر ہی کتنی ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :89 جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں ، یہ دعا حضرت موسیٰ نے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی اور اس وقت کی تھی جب پے دَر پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بد دعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کر نے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :90 جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ مین حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں ، اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ، پھر وہ نادان لوگ آخر کار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامتِ حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عمومًا لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔