Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر مخلوق کا روزی رساں ہر ایک چھوٹی بڑی ، کشکی تری کی مخلوق کا روزی رساں ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی ان کے چلنے پھرنے آنے جانے ، رہنے سہنے ، مرنے جینے اور ماں کے رحم میں قرار پکڑنے اور باپ کی پیٹھ کی جگہ کو جانتا ہے ۔ امام بن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں فاللہ اعلم ۔ یہ تمام باتیں اللہ کے پاس کی واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جسے فرمان ہے ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور اپنے پروں پر اڑنے والے پرند سب کے سب تم جیسی ہی امتیں ہیں ، ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے ۔ اور فرمان ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) یعنی غیب کی کنجیاں اسی اللہ کے پاس ہیں ۔ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ خشکی تری کی تمام چیزوں کا اسے علم ہے جو پتہ جھڑتا ہے اس کے علم میں ہے کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور کوئی تر و خشک چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب میں نہ ہو

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔ 6۔ 2 مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے تفسیر ابن کثیر امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] اللہ کی رزاقیت :۔ یعنی صرف انسانوں کا نہیں بلکہ زمین پر چلنے والے جانوروں حتیٰ کہ کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کا رزق بھی اللہ کے ذمے ہے اور یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ ہر جاندار کو رزق اسے اس کے مقام پر پہنچائے۔ اس آیت سے جہاں اللہ کی کمال رزاقیت کا اندازہ ہوتا ہے وہاں اس کے وسعت علم کا بھی اندازہ ہوتا ہے اللہ کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ آسمان سے بارش برساتا ہے جس سے زمین میں سے ہر طرح کی نباتات اگتی ہیں۔ پھر اسی نباتات، فصلوں اور پھلوں وغیرہ سے ہر جاندار کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزی مہیا ہوتی ہے اور ہر جاندار کی جملہ ضروریات زندگی اسی زمین سے مہیا ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ جتنی بھی مخلوق پیدا فرماتا ہے تو اس کے مطابق زمین بھی اپنے نئے سے نئے خزانے اگلتی جارہی ہے اور آئندہ بھی اگلتی چلی جائے گی۔ لیکن اس رزق کے حصول کے لیے اس نے اسباب و وسائل اختیار کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے اور جب کوئی انسان یا جاندار اسباب اختیار کرنے سے عاجز ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔- محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی اور قحط کے اسباب :۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے تو قحط سے یا بعض دوسری وجوہ سے انسان ہزاروں کی تعداد میں مر کیوں جاتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قحط تو اللہ کا عذاب ہے جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے انسانوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور دوسری وجوہ بعض انسانوں کی دوسروں پر ظلم و زیادتی اور معاشی وسائل کی ناہموار تقسیم کی بنا پر ایسے حادثات وجود میں آتے ہیں اور یہ سب کچھ انسانوں کے کسب اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانداروں کے رزق میں کمی یا کوتاہی کا تصور بھی ممکن نہیں۔- ماہرین معاشیات کی کوتاہ بینی :۔ آج عالمی سطح پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وسائل رزق اس کا ساتھ نہیں دے رہے لہذا خاندانی منصوبہ بندی اور اولاد پر کنٹرول ضروری ہے اس سلسلہ میں آج کے ماہر معاشیات کی کوتاہ فہمی اور فطرت سے جنگ کے نتیجہ میں ان کی ناکامی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں ایسے محکمے قائم کیے جارہے ہیں شرح پیدائش نسبتاً بڑھتی جارہی ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ لوگ بھی پہلے سے زیادہ آسودہ اور خوشحال ہیں جس کا اندازہ ہر شخص اپنی پچاس سال پہلے کی زندگی سے کرسکتا ہے ان مادہ پرست ماہرین کے فکر کی اصل وجہ محض اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر عدم توکل ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زمین کے خزانوں میں اضافہ فرما رہا ہے صدیوں سے بنجر پڑی ہوئی زمینیں آباد ہو رہی ہیں زمین سال میں دو کی بجائے چار چار فصلیں دینے لگی ہے کہیں تیل دریافت ہو رہا ہے کہیں جلانے کی گیسیں اور کہیں دوسری معدنیات نیز انسان حصول رزق کے نئے سے نئے وسائل بھی دریافت کر رہا ہے اور سب باتیں اس آیت کا جیتا جاگتا مصداق ہیں۔ مادہ پرست ماہرین معاشیات یہ تو اندازہ کرلیتے ہیں کہ اتنے سال بعد موجودہ شرح پیدائش کے مطابق دنیا کی آبادی اتنی ہوجائے گی لیکن اس دوران اللہ تعالیٰ جو نئے نئے وسائل رزق مہیا کرتا ہے اس کا وہ کچھ اندازہ نہیں کرسکتے لہذا ان کے اکثر اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اس مادہ پرستی اور محض مادی وسائل پر نظر رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل اٹھ جاتا ہے جو اس آیت کا مقصود اصلی ہے۔- اللہ پر توکل کی فضیلت :۔ چناچہ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں (ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی قلۃ الطعام)- [٩] قرآن کے الفاظ ہیں مستقر (قرار گاہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) اور مستودع اس گودام کو بھی کہتے ہیں جہاں کوئی چیز ذخیرہ کی جاتی ہے یا امانتیں بطور حفاظت رکھی جاتی ہیں ان دونوں الفاظ کی تعبیر میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے ان میں سے ہم ابن عباس (رض) کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کسی نے اس دنیا میں زندگی (کا اکثر حصہ) بسر کیا ہو اور مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ دفن ہوا اور ہر جاندار کے ان دونوں مقامات کا اللہ کو پوری طرح علم ہے۔- [١٠] لوح محفوظ ہی کتاب مبین ہے :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- عمران بن حصین کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی (بخاری، کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی المائ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ ۔۔ :” دَاۗبَّةٍ “ ” دَبَّ یَدِبُّ دَبِیْبًا “ سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی آہستہ چلنا ہے۔ ہر جان دار خواہ مذکر ہو یا مؤنث، عاقل ہو یا غیر عاقل، سب پر ” دَاۗبَّةٍ “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ) [ النور : ٤٥] ” اور اللہ نے ہر چلنے والا (جان دار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے پیٹ پر یا دو یا چار ٹانگوں پر چلنے والے تمام جانداروں کو ” دَابَّۃٍ “ فرمایا۔ - پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور احاطے کا بیان تھا کہ انسان کے ظاہر اور پوشیدہ احوال ہی نہیں، وہ تو دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ اس آیت میں اسی پر دلیل پیش کی ہے کہ ہر جان دار کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے روزی پہنچ رہی ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا علم وسیع نہ ہوتا تو روزی کا یہ بندوبست کیسے ممکن تھا ؟ مگر اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رزق اللہ کے ذمے ہے تو انسان اس کی کمائی اور تلاش کے لیے محنت نہ کرے، بلکہ رزق کے تمام خزانے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، مگر انسان کو محنت کا حکم ہے اور اسے وہ اسباب اختیار کرنا لازم ہے جن سے رزق حاصل ہوتا ہے، لیکن اس محنت اور ان اسباب پر بھروسا جائز نہیں، تمام اسباب مہیا کرنے کے بعد بھی بھروسا اور توکل صرف اللہ پر لازم ہے، کیونکہ وہ نہ چاہے تو تمام اسباب کے باوجود بندہ رزق سے محروم رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو بندہ کوئی سبب بھی مہیا نہ کرسکے تو وہ اسباب کے بغیر بھی روزی دے سکتا ہے۔ مگر حکم یہی ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو۔ عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا ) [ ترمذی، الزہد، باب فی التوکل علی اللّٰہ : ٢٣٤٤ ] ” اگر تم اللہ پر توکل (بھروسا) کرو جیسا اس پر توکل کا حق ہے تو یقیناً تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں، شام کو آتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ “ اس حدیث میں صبح نکلنا کسب ہے اور یہ فکر نہ کرنا کہ کل کو کیا کھائیں گے، توکل ہے۔ بہرحال اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِعْقِلْھَا وَ تَوَکَّلْ ) [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب حدیث اعقلھا و توکل۔۔ : ٢٥١٧، عن أنس (رض) ]” اونٹنی کا گھٹنا باندھ اور توکل کر۔ “ ابو امامہ باہلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ رُوْحَ الْقُدْسِ نَفَثََ فِیْ رَوْعِيْ أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتَّی تَسْتَکْمِلَ أَجَلَھَا وَتَسْتَوْعِبَ رِزْقَھَا فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ وَلَا یَحْمِلَنَّ أَحَدَکُمُ اسْتِبْطَاء الرِّزْقِ أَنْ یَّطْلُبَہُ بِمَعْصِیَۃِِ اللّٰہِ فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یُنَالُ مَا عِنْدَہٗ إِلاَّ بِطَاعَتِہٖ ) [ صحیح الجامع : ٢٠٨٥ ] ” بیشک روح القدس (جبریل (علیہ السلام ) نے میرے دل میں وحی کی کہ کوئی جان اس وقت تک فوت نہیں ہوگی جب تک اپنی مقررہ مدت پوری نہ کرلے اور اپنا پورا رزق حاصل نہ کرلے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (رزق کی) تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرو اور رزق ملنے میں دیر ہوجانا تم میں سے کسی کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ وہ اسے اللہ کی نافرمانی کے ذریعے تلاش کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ (نعمت اور جنت) ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ “ یہ ذہن بھی غلط ہے کہ تلاش اور کوشش کے بغیر رزق نہیں ملتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق وہ ہے جسے اسباب اختیار کیے بغیر رزق مل رہا ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٦٠) ۔- وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا : یہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم ہی کا مزید بیان ہے۔ ” مُسْتَقَرٌّ“ اور ” مُسْتَوْدَعٌ“ کی تفسیر اگرچہ لوگوں نے مختلف بیان کی ہے، مگر الفاظ کے پیش نظر واضح مطلب یہی نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ تمام جگہیں بھی جانتا ہے جہاں انسان نے کچھ مدت کے لیے ٹھہرنا ہے، خواہ باپ کی پشت ہو یا ماں کا رحم، یا زمین کا کوئی حصہ جہاں اس نے زندگی میں ٹھہرنا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ جگہیں بھی جانتا ہے جن کے سپرد انسان نے مرنے کے بعد ہونا ہے، خواہ وہ زمین میں کھودی ہوئی جگہ ہو یا کسی جانور کا پیٹ یا جو جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کے سپرد ہونے کے لیے لکھی ہے اور وہ سب کچھ اس کے لیے قبر ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو موت اور قبر دینے کا ذکر فرمایا ہے : (ۙثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ ) [ عبس : ٢١ ] ” پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں رکھوایا۔ “ پھر قیامت کو زندہ ہو کر اسے دوزخ کے سپرد ہونا ہے یا جنت کے، یہ سب اس کے لیے ” مُسْتَوْدَعٌ“ (سونپے جانے کی جگہ) ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جان دار کی زندگی کے ہر حال کو بھی جانتا ہے اور موت کے بعد کے تمام حالات کو بھی۔ ” کِتٰبْ مُّبِیْن “ سے مراد لوح محفوظ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کوئی ( رزق کھانے والا) جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو ( اور رزق رسانی کے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے سو) وہ ہر ایک کی زیادہ رہنے کی جگہ کو اور چند روز رہنے کی جگہ کو جانتا ہے ( اور ہر ایک کو وہاں ہی رزق پہنچاتا ہے، اور گو سب چیزیں علم الہٰی میں تو ہیں ہی مگر اس کے ساتھ ہی) سب چیزیں کتاب مبین ( یعنی لوح محفوظ) میں ( بھی منضبط و مندرج) میں ( عرض واقعات ہر طرح محفوظ ہیں، آگے تخلیق کا مع اس کی بعض حکمتوں کے بیان ہے جس سے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کی بھی تائید ہوتی ہے، کیونکہ ابتدائی تخلیق دلیل ہے اس پر کہ وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے) اور وہ ( اللہ) ایسا ہے کہ سب آسمان اور زمین کو چھ دن ( کی مقدار) میں پیدا کیا اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا ( کہ یہ دونوں چیزیں پہلے سے پیدا ہوچکی تھیں اور یہ پیدا کرنا اس لئے ہے) تاکہ تم کو آزماوے کہ ( دیکھیں) تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے ( مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کیا، تمہارے حوائج و منافع اس میں پیدا کئے تاکہ تم ان کو دیکھ کر توحید پر استدلال کرو اور ان سے منتفع ہو کر منعم کا شکر اور خدمت کہ عبادت ہے عمل صالح سے، بجا لاؤ سو بعض نے ایسا کیا، بعض نے نہ کیا) اور اگر آپ ( لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یقینا تم لوگ مرنے کے بعد ( قیامت کے روز دوبارہ) زندہ کئے جاؤ گے تو ( ان میں) جو لوگ کافر ہیں وہ ( قرآن کی نسبت) کہتے ہیں کہ یہ تو نرا صاف جادو ہے (جادو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ باطل ہوتا ہے مگر مؤ ثر، اسی طرح قرآن کو نعوذ باللہ باطل سمجھتے تھے لیکن اس کے مضامین کا مؤ ثر ہونا بھی مشاہدہ کرتے تھے، اس مجموعہ پر یہ حکم کیا، نعوذ باللہ منہ۔ مقصود اس سے آخرت کا انکار تھا، آگے ان کے منشاء انکار کا جواب ارشاد ہے) اور اگر تھوڑے دنوں تک ( مراد دنیوی زندگی ہے) ہم ان سے عذاب ( موعود) کو ملتوی رکھتے ہیں ( کہ اس میں حکمتیں ہیں) تو ( بطور انکار و استہزاء کے) کہنے لگتے ہیں کہ ( جب ہم تمہارے نزدیک مستحق عذاب ہیں تو) اس عذاب کو کون چیز روک رہی ہے ( یعنی اگر عذاب کوئی چیز ہوتی تو اب تک ہوچکتا جب نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نہیں، حق تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) یاد رکھو جس دن ( وقت موعود پر) وہ ( عذاب) ان پر آپڑے گا تو پھر کسی کے ٹالے نہ ٹلے گا اور جس ( عذاب) کے ساتھ یہ استہزاء کر رہے تھے وہ ان کو آگھیرے گا ( مطلب یہ کہ باوجود استحقاق کے یہ تاخیر اس لئے ہے کہ بعض حکمتوں سے اس کا وقت معین ہے پھر اس وقت ساری کسر نکل جاوے گی ) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں حق تعالیٰ کے علم محیط کا ذکر تھا جس سے کائنات کا کوئی ذرہ اور دلوں کے چھپے ہوئے راز بھی مخفی نہیں، آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اس مناسبت سے انسان پر ایک عظیم الشان احسان کا ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اس کے رزق کی کفالت حق تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے لی اور نہ صرف انسان کی بلکہ زمین پر چلنے والے ہر جاندار کی، وہ جہاں کہیں رہتا ہے یا چلا جاتا ہے اس کی روزی اس کے پاس پہنچتی ہے، تو کفار کے یہ ارادے کہ اپنے کسی کام کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیں جہالت اور بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں، پھر اس کے عموم میں جنگل کے تمام درندے، پرندے اور حشرات الارض، دریا اور خشکی کے تمام جانور داخل ہیں اس عموم کی تاکید کے لئے لفظ من کا اضافہ کرکے وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فرمایا ہے دابہ ہر اس جانور کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے، پرندے جانور بھی اس میں داخل ہیں کیونکہ ان کا آشیانہ بھی کہیں زمین ہی پر ہوتا ہے، دریائی جانوروں کا بھی تعلق زمین سے ہونا کچھ مخفی نہیں، ان سب جانداروں کے رزق کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے کر ایسے الفاظ سے اس کو بیان کیا ہے جیسے کوئی فریضہ کسی کے ذمہ ہو، ارشاد فرمایا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا یعنی اللہ کے ذمہ ہے اس کا رزق، یہ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری حق تعالیٰ پر ڈالنے والی کوئی اور طاقت نہیں بجز اس کے کہ اسی نے اپنے فضل سے یہ وعدہ فرما لیا، مگر وعدہ ایک صادق کریم کا ہے جس میں خلاف ورزی کا کوئی امکان نہیں، اسی یقین کو ظاہر کرنے کے لئے اس جگہ لفظ علی لایا گیا ہے جو فرائض کے بیان کے لئے استعمال ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ کسی حکم کا پا بند ہے نہ اس کے ذمہ کوئی چیز فرض یا واجب ہے، رزق لغت میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے جاندار اپنی غذا حاصل کرے اور جس کے ذریعہ اس کی روح کی بقاء اور جسم میں نما یعنی فربہی اور بڑھوتری ہوتی ہے۔- رزق کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس کا رزق ہے وہ اس کا مالک بھی ہو، کیونکہ تمام جانوروں کو رزق دیا جاتا ہے مگر وہ اس کے مالک نہیں ہوتے ان میں مالکیت کی صلاحیت ہی نہیں، اسی طرح چھوٹے بچے اپنے رزق کے مالک نہیں ہوتے مگر رزق ان کو ملتا ہے۔- رزق کے اس عام معنی کے اعتبار سے علماء نے فرمایا کہ رزق حلال بھی ہوسکتا ہے حرام بھی کیونکہ جو شخص کسی دوسرے کا مال ناجائز طور پر لے کر کھالے تو یہ مال غذا تو اس شخص کی بن گیا مگر حرام طور پر بنا، اگر یہ اپنی حرص میں اندھا ہو کر ناجائز طریقے استعمال نہ کرتا تو جو رزق اس کے لئے مقرر تھا وہ جائز طور پر اس کو ملتا۔- رزق کی خدائی ذمہ داری پر ایک سوال اور جواب :- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر جاندار کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں کہ بہت سے جانور اور انسان غذا نہ ملنے کے سبب بھوکے پیاسے مرجاتے ہیں، اس کے جواب علماء نے متعدد لکھے ہیں۔- ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رزق کی ذمہ داری اسی وقت تک ہے جب تک اس کی اجل مقدر یعنی عمر پوری نہیں ہوجاتی، جب یہ عمر پوری ہوگئی تو اس کو بہرحال مرنا ہے اور اس جہان سے گزرنا ہے جس کا عام سبب امراض ہوتے ہیں کبھی جلنا یا غرق ہونا یا چوٹ اور زخم بھی سبب ہوتا ہے، اسی طرح ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا رزق بند کردیا گیا، اس سے موت واقع ہوئی۔- امام قرطبی نے اس آیت کے تحت ابو موسیٰ اور ابو مالک وغیرہ قبیلہ اشعریین کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تو جو کچھ توشہ اور کھانے پینے کا سامان ان کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا، انہوں نے اپنا ایک آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس غرض کے لئے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کچھ انتظام فرما دیں، یہ شخص جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر پہنچا تو اندر سے آواز آئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آیت پڑھ رہے ہیں وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا اس شخص کو یہ آیت سن کر خیال آیا کہ جب اللہ نے سب جانداروں کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ہم اشعری بھی اللہ کے نزدیک دوسرے جانوروں سے گئے گزرے نہیں وہ ضرور ہمیں بھی رزق دیں گے، یہ خیال کرکے وہیں سے واپس ہوگیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا کچھ حال نہیں بتلایا، واپس جاکر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہوجاؤ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد آرہی ہے، اس کے اشعری ساتھیوں نے اس کا یہ مطلب سمجھا کہ ان کے قاصد نے حسب قرارداد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے اور آپ نے انتظام کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے وہ یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھ گئے، اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا کہ دو آدمی ایک ( قصعہ) گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا اٹھائے لا رہے ہیں، قصعہ ایک بڑا برتن ہوتا ہے جیسے تشلہ یا سینی، لانے والوں نے یہ کھانا اشعریین کو دے دیا، انہوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی بچ رہا تو ان لوگوں نے یہ مناسب سمجھا کہ باقی کھانا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیج دیں تاکہ اس کو آپ اپنی ضرورت میں صرف فرمادیں، اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیج دیا۔- اس کے بعد یہ سب حضرات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا۔- تب انہوں نے پورا واقعہ عرض کیا کہ ہم نے اپنے فلاں آدمی کو آپ کے پاس بھیجا تھا، اس نے یہ جواب دیا، جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ نے کھانا بھیجا ہے، یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ اس ذات قدوس نے بھیجا ہے جس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے۔- بعض روایات میں ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچے اور وہاں آگ کے بجائے تجلیات الہٰی سامنے آئیں اور ان کو نبوت و رسالت عطا ہو کر فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لئے مصر جانے کا حکم ملا تو خیال آیا کہ میں اپنی زوجہ کو جنگل میں تنہا چھوڑ کر آیا ہوں اس کا کون متکفل ہوگا، اس خیال کی اصلاح کے لئے حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ سامنے پڑی ہوئی پتھر کی چٹان پر لکڑی ماریں، انہوں نے تعمیل حکم کی تو یہ چٹان پھٹ کر اس کے اندر سے ایک دوسرا پتھر برآمد ہوا، حکم ہوا اس پر بھی لکڑی ماریں، ایسا کیا تو وہ پتھر پھٹا اور اندر سے تیسرا پتھر برآمد ہوا، اس پر بھی لکڑی مارنے کا حکم ہوا تو یہ شق ہوا اور اندر سے ایک جانور برآمد ہوا جس کے منہ میں ہرا پتہ تھا۔- حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا یقین تو موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے بھی تھا مگر مشاہدہ کا اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے، یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہیں سے سیدھے مصر کو روانہ ہوگئے، زوجہ محترمہ کو یہ بتلانے بھی نہ گئے کہ مجھے مصر جانے کا حکم ہوا ہے، وہاں جارہا ہوں۔- ساری مخلوق کو رزق رسانی کا عجیب و غریب نظام قدرت :- اس آیت میں حق تعالیٰ نے صرف اس پر اکتفا نہیں فرمایا کہ ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے لیا بلکہ انسان کے مزید اطمینان کے لئے فرمایا (آیت) وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا، اس آیت میں مُسْتَــقَرَّ اور مُسْـتَوْدَعَ کی مختلف تفسیریں منقول ہیں مگر لغت کے اعتبار سے وہ اقرب ہے جس کو کشاف نے اختیار کیا ہے کہ مستقر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی شخص مستقل طور پر جائے قیام یا وطن بنالے اور مستودع اس جگہ کو جہاں عارضی طور پر کسی ضرورت کے لئے ٹھہرے۔- مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری کو دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کی ذمہ داری پر قیاس نہ کرو، دنیا میں اگر کوئی شخص یا کوئی ادارہ آپ کے رزق کی ذمہ داری لے لے تو اتنا کام بہرحال آپ کو کرنا پڑے گا کہ اگر اپنی مقررہ جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا ہو تو اس فرد یا ادارہ کو اطلاع دیں کہ میں فلاں تاریخ سے فلاں تک فلاں شہر یا گاؤں میں رہوں گا، رزق کے وہاں پہنچنے پہنچانے کا انتظام کیا جائے، مگر حق تعالیٰ کی ذمہ داری میں آپ پر اس کا بھی کوئی بار نہیں کیونکہ وہ آپ کی ہر نقل و حرکت سے باخبر ہے، آپ کے مستقل جائے قیام کو بھی جانتا ہے اور عارضی اقامت کی جگہ سے بھی واقف، بغیر کسی درخواست اور نشان دہی کے آپ کا راشن وہاں منتقل کردیا جاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت مطلقہ کے پیش نظر صرف اس کا ارادہ فرما لینا تمام کاموں کے سرانجام ہونے کے لئے کافی تھا کسی کتاب یا رجسٹر میں لکھنے لکھانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگر مسکین انسان جس نظام کا خوگر ہوتا ہے اس کو اس نظام پر قیاس کرکے بھول چوک کا کھٹکا ہوسکتا ہے اس لئے اس کے مزید اطمینان کے لئے فرمایا (آیت) كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ، یعنی یہ سب کچھ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے، اس واضح کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں تمام کائنات کی روزی، عمر، عمل وغیرہ کی پوری تفصیلات لکھی ہوئی ہیں جو حسب موقع و ضرورت متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردی جاتی ہیں۔- صحیح مسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمان اور زمین کی پیدائش سے بھی پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں۔- اور بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طویل حدیث میں فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے انسان اپنی پیدائش سے پہلے مختلف دور سے گزرتا ہے، جب اس کے اعضاء کی تکمیل ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو حکم کرتے ہیں جو اس کے متعلق چار چیزیں لکھ لیتا ہے اول اس کا عمل جو کچھ وہ کرے گا، دوسرے اس کی عمر کے سال، مہینہ، دن اور منٹ اور سانس تک لکھ لئے جاتے ہیں، تیسرے اس کو کہاں مرنا اور کہاں دفن ہونا ہے، چوتھے اس کا رزق کتنا اور کس کس طریقے سے پہنچنا ہے، ( اور لوح محفوظ میں آسمان زمین کی پیدائش سے بھی پہلے لکھا ہونا اس کے منافی نہیں ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۝ ٠ ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۝ ٦- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - مستقر - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے ۔- كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦) سب کے رزق کا ذمہ دار اور کفیل اللہ تعالیٰ ہے وہ ہر ایک کی رات کو آرام کرنے کی جگہ اور مرنے کے بعد دفن ہونے کی جگہ سب جانتا ہے ہر ایک جاندار کا رزق اور اس کی موت وزندگی سب لوح محفوظ میں معینہ مدت تک محفوظ ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ الاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا) - اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر تقسیم رزق کا جو نظام وضع کیا ہے اس میں اس نے ہر جاندار کے لیے اس کی ضروریات زندگی فراہم کردی ہیں۔ بچے کی پیدائش بعد میں ہوتی ہے مگر اس کے لیے ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ اللہ کے اس نظام اور اس کے قوانین کو پس پشت ڈال کر کوئی ایسا نظام یا ایسے قوانین وضع کرے جن کے تحت ایک فرد کے حصے کا رزق کسی دوسرے کی جھولی میں چلا جائے ‘ تو رزق یا دولت کی تقسیم کا خدائی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لوٹ کھسوٹ کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کہیں دولت کے بےجا انبار لگیں گے اور کہیں بیشمار انسان فاقوں پر مجبور ہوجائیں گے۔ لہٰذا جہاں کہیں بھی رزق کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نظر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا ذمہ دار خودانسان ہے۔ - (وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا)- مُستَقَر اور مستودَع دونوں الفاظ کی تشریح سورة الانعام کی آیت ٩٨ میں تفصیل کے ساتھ ہوچکی ہے۔ وہاں ان الفاظ کے بارے میں تین مختلف اقوال بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔- (کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ )- وہی روشن اور واضح کتاب جو علم الٰہی کی کتاب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :6 یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامان زیست پہنچا رہا ہے ، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیتا ہے ، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو ۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امر حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani