قوم ہود کی تاریخ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ، انہوں نے قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی ۔ اور اس کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ سے روکا ۔ اور بتلایا کہ جن کو تم پوجتے ہو ان کی پوجا خود تم نے گھڑ لی ہے ۔ بلکہ ان کے نام اور وجود تمہارے خیالی ڈھکوسلے ہیں ۔ ان سے کہا کہ میں اپنی نصیحت کا کوئی بدلہ اور معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ثواب میرا رب مجھے دے گا ۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ کیا تم یہ موٹی سی بات بھی عقل میں نہیں لاتے کہ یہ دنیا آخرت کی بھلائی کی تمہیں راہ دکھانے والا ہے اور تم سے کوئی اجرت طلب کرنے والا نہیں ۔ تم استغفار میں لگ جاؤ ، گذشہ گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے طلب کرو ۔ اور توبہ کرو ، آئندہ کے لیے گناہوں سے رک جاؤ ۔ یہ دونوں باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اس کی روزی اس پر آسان کرتا ہے ۔ اس کا کام اس پر سہل کرتا ہے ۔ اس کی نشانی کی حفاظت کرتا ہے ۔ سنو ایسا کرنے سے تم پر بارشیں برابر عمدہ اور زیادہ برسیں گی اور تمہاری قوت وطاقت میں دن دونی رات چوگنی برکتیں ہوں گے ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص استغفار کو لازم پکڑ لے اللہ تعالیٰ اسے ہر مشکل سے نجات دیتا ہے ، ہر تنگی سے کشادگی عطا فرماتا ہے اور روزی تو اسی جگہ سے پہنچاتا ہے جو خود اس کے خواب و خیال میں بھی ہو ۔
50۔ 1 بھائی سے مراد انہی کی قوم کا ایک فرد۔ 50۔ 2 یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا کر تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔
[٥٦] قوم عاد کا بیان پہلے سورة اعراف کی آیت نمبر ٦٥ تا ٧٢ میں گذر چکا ہے لہذا وہ حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔- [٥٧] یعنی اپنے معبودوں کے متعلق جو عقائد تم نے خود ہی گھڑ رکھے ہیں ان کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں عقائد کے علاوہ ان معبودوں کے مجسمے بھی تمہارے خود ساختہ ہیں۔
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭ قَالَ يٰقَوْمِ ۔۔ : ” هُوْدًا “ عطف بیان ہے ” اَخَاهُمْ “ سے۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٦٥) اے مشرکو اے کافرو کے بجائے ” يٰقَوْمِ “ (اے میری قوم ) سے مخاطب کرنے سے ان کے ساتھ اپنا تعلق اور خیر خواہی ظاہر کرنا مقصود ہے۔ - اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ : ” مُفْتَرُوْنَ “ ” فَرَیْ “ سے باب افتعال (اِفْتِرَاءٌ) کا اسم فاعل جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ افترا یعنی جان بوجھ کر ایسا جھوٹ بولنا جس کے متعلق بولنے والے کو بھی معلوم ہو کہ یہ صاف جھوٹ ہے، یعنی اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی ہے ہی نہیں، تمہارا کسی غیر کو معبود بنانا محض افترا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے ( قوم) عاد کی طرف ان کے (برادری یا وطن کے) بھائی (حضرت) ہود (علیہ السلام) کو ( پیغمبر بنا کر) بھیجا، انہوں نے (اپنی قوم سے) فرمایا اے میری قوم تم ( صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں تم (اس بت پرستی کے اعتقاد میں) محض مفتری ہو ( کیونکہ اس کا باطل ہونا دلیل سے ثابت ہے) اے میری قوم (میری نبوت جو دلائل سے ثابت ہے اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ) میں تم سے ( تبلیغ) پر کچھ معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اس ( اللہ) کے ذمہ ہے جس نے مجھ کو (عدم محض سے) پیدا کیا پھر کیا تم ( اس کو) نہیں سمجھتے ( کہ دلیل نبوت موجود ہے اور اس کے خلاف کوئی وجہ شبہ کی نہیں پھر نیوت میں شبہ کی کیا وجہ) اور اے میری قوم تم اپنے گناہ ( کفر و شرک وغیرہ) اپنے رب سے معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ اور) پھر ( ایمان لاکر) اس کی طرف ( عبادت سے) متوجہ ہو ( یعنی عمل صالح کرو پس ایمان و عمل صالح کی برکت سے) وہ تم پر خوب بارش برسا دے گا ( درمنثور میں ہے کہ قوم عاد پر تین سال متواتر قحط پڑا تھا اور ویسے بارش خود بھی مطلوب ہے) اور ( ایمان و عمل کی برکت سے) تم کو قوت دے کر تمہاری قوت ( موجودہ) میں ترقی کردے گا (پس ایمان لے آؤ اور مجرم رہ کر) ( ایمان سے) اعراض مت کرو، ان لوگوں نے جواب دیا کہ اے ہود آپ نے ہمارے سامنے ( اپنے رسول من اللہ ہونے کی) کوئی دلیل تو پیش نہیں کی ( یہ قول ان کا عناد تھا) اور ہم آپ کے ( صرف) کہنے سے تو اپنے معبودوں) ( کی عبادت) کو چھوڑنے والے ہیں نہیں اور ہم کسی طرح آپ کا یقین کرنے والے نہیں ( اور) ہمارا قول تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے آپ کو کسی خرابی میں ( مثل جنون وغیرہ کے) مبتلا کردیا ہے ( چونکہ آپ نے ان کی شان میں گستاخی کی انہوں نے باولا کردیا اس لئے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو کہ خدا ایک ہے میں نبی ہوں) ہود ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ ( تم جو کہتے ہو کہ کسی بت نے مجھ کو باولا کردیا ہے تو) میں (علی الاعلان) اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی ( سن لو اور) گواہ رہو کہ میں ان چیزوں سے ( بالکل) بیزار ہوں جن کو تم خدا کے سوا شریک (عبادت) قرار دیتے ہو، سو ( میری عداوت اول تو پہلے سے ظاہر ہے اور اب اس اعلان براءت سے اور زیادہ مؤ کد ہوگئی تو اگر ان بتوں میں کچھ قوت ہے تو تم ( اور وہ) سب مل کر میرے ساتھ ( ہر طرح کا) داؤ گھات کرلو ( اور) پھر مجھ کو ذرا مہلت نہ دو ( اور کوئی کسر نہ چھوڑو) دیکھوں تو سہی میرا کیا کرلیں گے اور جب وہ مع تمہارے کچھ نہیں کرسکتے تو اکیلے تو کیا خاک کرسکتے ہیں اور میں یہ دعوی اس لئے دل کھول کر کر رہا ہوں کہ بت تو محض عاجز ہیں ان سے تو اس لئے نہیں ڈرتا، رہ گئے تم، سو گو تم کو کچھ قدرت طاقت حاصل ہے لیکن میں تم سے اس لئے نہیں ڈرتا کہ) میں نے اللہ پر توکل کرلیا ہے جو میرا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی مالک ہے جتنے روئے زمین پر چلنے والے ہیں سب کی چوٹی اس نے پکڑ رکھی ہے ( یعنی سب اس کے قبضے میں ہیں، بے اس کے حکم کے کوئی کان نہیں ہلا سکتا اس لئے میں تم سے بھی نہیں ڈرتا اور اس تقریر سے ایک نیا معجزہ بھی ظاہر ہوگیا کہ ایک شخص تن تنہا ایسے بڑے بڑے زور آور لوگوں سے ایسی مخالفانہ باتیں کرے اور وہ اس کا کچھ نہ کرسکیں پس وہ جو کہتے تھے (آیت) مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ، اس سے اس کا بھی ایک جواب ہوگیا کہ اگر معجزہ سابقہ سے قطع نظر کی جاوے تو لو یہ دوسرا معجزہ ہے پس نبوت پر دلیل قائم ہوگئی اور اس میں جو منشا اشتباہ تھا (آیت) اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ ، اس کا بھی جواب ہوگیا، پس نبوت ثابت ہوگئی، اس سے توحید کا وجوب بھی ثابت ہوگیا جس کی طرف میں دعوی کرتا ہوں اور تمہارا کہنا (آیت) مَا نَحْنُ بِتَارِكِيْٓ اٰلِهَتِنَا الخ باطل ہوگیا اور صراط مستقیم یہی ہے اور) یقینا میرا رب صراط مستقیم پر ( چلنے سے ملتا) ہے ( پس تم بھی اس صراط مستقیم کو اختیار کرو تاکہ مقبول و مقرب ہوجاؤ پھر اگر ( اس بیان بلیغ کے بعد بھی) تم ( راہ حق سے) پھرے رہو گے تو میں تو ( معذور سمجھا جاؤں گا کیونکہ) جو پیغام دے کر مجھ کو بھیجا گیا تھا وہ تم کو پہنچا چکا ہوں ( لیکن تمہاری کمبختی آوے گی کہ تم کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا) اور تمہاری جگہ میرا رب دوسرے لوگوں کو اس زمین میں آباد کردے گا ( سو تم اس اعراض و کفر میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہو) اور اس کا تم کچھ نقصان نہیں کر رہے ( اور اگر اس ہلاک میں کسی کو یہ شبہ ہو کہ خدا کو کیا خبر کہ کون کیا کر رہا ہے تو خوب سمجھ لو کہ) بالیقین میرا رب ہر شے کی نگہداشت کرتا ہے ( اس کو سب خبر رہتی ہے، غرض ان تمام حجتوں پر بھی ان لوگوں نے نہ مانا) اور ( سامان عذاب شروع ہوا سو) جب ہمارا حکم (عذاب کے لئے) پہنچا ( اور ہوا کے طوفان کا عذاب نازل ہوا تو) ہم نے ہود ( علیہ السلام) کو اور جو ان کے ہمراہ اہل ایمان تھے ان کو اپنی عنایت سے ( اس عذاب سے بچا لیا) اور ان کو ہم نے ایک بہت ہی سخت عذاب سے بچا لیا ( آگے اوروں کو عبرت دلانے کے لئے فرماتے ہیں) اور یہ ( جن کا ذکر ہوا) قوم عاد تھی جنہوں نے اپنے رب کی آیات (یعنی دلائل اور احکام) کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کا کہنا نہ مانا اور تمام تر ایسے لوگوں کے کہنے پر چلتے رہے جو ظالم (اور) ضدی تھے اور ( ان افعال کا یہ نتیجہ ہوا کہ) اس دنیا میں بھی لعنت ان کے ساتھ ساتھ رہی اور قیامت کے دن بھی (ان کے ساتھ ساتھ رہے گی چناچہ دنیا میں اس کا اثر عذاب طوفان سے ہلاک ہونا تھا اور آخرت میں دائمی عذاب ہوگا) خوب سن لو، قوم عاد نے رب کے ساتھ کفر کیا، خوب سن لو ( اس کفر کا یہ خمیازہ ہوا کہ) رحمت سے دوری ہوئی ( دونوں جہاں میں) عاد کو جو کہ ہود ( علیہ السلام) کی قوم تھی، اور ہم نے ( قوم) ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا انہوں نے ( اپنی قوم سے) فرمایا اے میری قوم ( صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ( ہونے کے قابل) نہیں ( اس کا تم پر یہ انعام ہے کہ) اس نے تم کو زمین ( کے مادہ سے) پیدا کیا اور تم کو اس ( زمین) میں آباد کیا ( یعنی ایجاد و ابقاء دونوں نعمتیں عطا فرمائیں جس میں سب نعمتیں آگئیں، جب وہ ایسا منعم ہے) تو تم اپنے گناہ ( شرک کفر وغیرہ) اس سے معاف کراؤ یعنی ایمان لاؤ اور) پھر ( ایمان لا کر) اس کی طرف ( عبادت سے) متوجہ رہو ( یعنی عمل صالح کرو) بیشک میرا رب ( اس شخص سے) قریب ہے ( جو اس کی طرف متوجہ ہو اور اس شخص کی عرض) قبول کرنے والا ہے ( جو اس سے گناہ معاف کراتا ہے) وہ لوگ کہنے لگے اے صالح تم تو اس کے قبل ہم میں ہونہار ( معلوم ہوتے) تھے ( یعنی ہم کو تم سے امید تھی کہ اپنی لیاقت و وجاہت سے فخر قوم اور ہمارے لئے مایہ ناز اور ہماے لئے سرپرست بنو گے، افسوس اس وقت جو باتیں کر رہے ہو ( اس سے تو ساری امیدیں خاک میں ملتی نظر آتی ہیں) کیا تم ہم کو ان چیزوں کی عبادت سے منع کرتے ہو جن کی عبادت ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں ( یعنی تم ان سے منع مت کرو) اور جس دین کی طرف تم ہم کو بلا رہے ہو ( یعنی توحید) واقعی ہم تو اس کی طرف سے ( بھاری) شبہ میں ہیں جس نے ہم کو تردد میں ڈال رکھا ہے ( کہ مسئلہ توحید ہمارے خیال ہی میں نہیں آتا) آپ نے (جواب میں) فرمایا کہ میری قوم ( تم جو کہتے ہو کہ تم توحید کی دعوت اور بت پرستی سے ممانعت مت کرو تو) بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ( قائم) ہوں ( جس سے اس توحید کی دعوت کا میں مامور ہوں) سو ( اس حالت میں) اگر میں خدا کا کہنا نہ مانوں (اور دعوت توحید کو ترک کردوں جیسا تم کہتے ہو) تو ( یہ بتلاؤ کہ) پھر مجھ کو خدا ( کے عذاب) سے کون بچا لے گا تو تم تو ( ایسا برا مشورہ دے کر) سراسر میرا نقصان ہی کر رہے ہو ( یعنی اگر خدانخواستہ قبول کرلوں تو بجز نقصان کے اور کیا ہاتھ آوے گا اور چونکہ انہوں نے معجزہ کی بھی ثبوت رسالت کے لئے درخواست کی تھی اس لئے آپ نے فرمایا) اور اے میری قوم (تم جو معجزہ چاہتے ہو سو) یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ( بنا کر ظاہر کی گئی) ہے ( اور اسی لئے اللہ کی اونٹنی کہلائی کہ اللہ کی دلیل ہے) سو ( علاوہ اس کے یہ بوجہ معجزہ ہونے کے میری رسالت پر دلیل ہے خود اس کے بھی کچھ حقوق ہیں، منجملہ ان کے یہ ہے کہ اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں ( گھاس چارہ) کھاتی پھرا کرے ( اسی طرح اپنی باری کے دن پانی پیتی رہے جیسا دوسری آیت میں ہے) اور اس کو برائی ( اور تکلیف دہی) کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کبھی تم کو فوری عذاب آپکڑے ( یعنی دیر نہ لگے) سو انہوں نے ( باوجود اس اتمام حجت کے) اس ( اونٹنی) کو مار ڈالا تو صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا ( خیر) تم اپنے گھروں میں تین دن اور صبر کرلو ( تین دن کے بعد عذاب آتا ہے ( اور) یہ ایسا وعدہ ہے جس میں ذرا جھوٹ نہیں (کیونکہ من جانب اللہ ہے) سو ( تین دن گزرنے کے بعد) جب ہمارا حکم ( عذاب کے لئے) آپہنچا ہم نے صالح ( علیہ السلام) کو اور جو ان کے ہمراہ اہل ایمان تھے ان کو اپنی عنایت سے ( اس عذاب سے) بچا لیا اور (ان کو کیسی چیز سے بچا لیا) اس دن کی بڑی رسوائی سے بچا لیا (کیونکہ قہر الہٰی میں مبتلا ہونے سے بڑھ کر کیا رسوائی ہوگی) بیشک آپ کا رب ہی قوت والا غلبہ والا ہے (جس کو چاہے سزا دیدے جس کو چاہے بچا لے) اور ان ظالموں کو ایک لغرہ نے آ دبایا ( کہ وہ آواز تھی جبریل (علیہ السلام) کی) جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے (اور ان کی یہ حالت ہوگئی) جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، خوب سن لو (قوم) ثمود نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، خوب سن لو (اس کفر کا یہ خمیازہ ہوا کہ) رحمت سے ثمود کو دوری ہوئی۔- معارف و مسائل - سورة ہود کی مذکورہ پہلی گیارہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کا ذکر ہے جن کے نام سے یہ سورت موسوم ہے، اس صورت میں نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک قرآن کریم کے خاص طرز میں سات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے واقعات مذکور ہیں، جن میں عبرت و موعظت کے ایسے مظاہر موجود ہیں کہ جس دل میں ذرا بھی حیات اور شعور باقی ہو وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، عبرت کے علاوہ ایمان اور عمل صالح کے بہت سے اصول و فروع اور انسان کے لئے بہترین ہدایات موجود ہیں۔- قصص و واقعات تو اس میں سات پیغمبروں کے درج ہیں مگر سورت کا نام حضرت ہود (علیہ السلام) کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ہود (علیہ السلام) کے قصہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔- ہود (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے قوم عاد میں مبعوث فرمایا، یہ قوم اپنے ڈیل ڈول اور قوت و شجاعت کے اعتبار سے پورے عالم میں ممتاز سمجھی جاتی تھی، حضرت ہود (علیہ السلام) بھی اسی قوم کے فرد تھے لفظ اَخَاهُمْ هُوْدًا میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، مگر یہ اتنی قوی اور بہادر قوم افسوس کہ اپنے عقل و فکر کو کھو بیٹھی تھی اور اپنے ہاتھوں سے تراشی ہوئی پتھروں کی مورتیوں کو اپنا خدا اور معبود بنا رکھا تھا۔- حضرت ہود (علیہ السلام) نے جو دعوت دین اپنی قوم کے سامنے پیش کی اس کی تین اصولی باتیں ابتدائی تین آیتوں میں مذکور ہیں : اول دعوت توحید اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو لائق عبادت سمجھنا جھوٹ اور افتراء ہے، دوسرے یہ کہ میں جو یہ دعوت توحید لے کر آیا ہوں اور اس کیلئے اپنی زندگی کو وقف کر رکھا ہے تم یہ سوچو سمجھو کہ میں نے یہ مشقت و محنت کیوں اختیار کر رکھی ہے، نہ میں تم سے اس خدمت کا کوئی معاوضہ مانگتا ہوں نہ مجھے تمہاری طرف سے کوئی مادی فائدہ پہنچتا ہے اگر میں اس کو اللہ تعالیٰ کا فرمان اور حق نہ سمجھتا تو آخر ضرورت کیا تھی کہ تمہیں دعوت دینے اور تمہاری اصلاح کرنے میں اتنی محنت برداشت کرتا۔
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا ٠ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ ٠ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ ٥٠- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هود - الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة .- قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- ( ھ و د ) الھود - کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٥٠) اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بنی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجاؤ اس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں جس پر تمہیں ایمان لانے کا حکم دیا جائے تم بتوں کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتے ہو کیوں کہ تمہیں ان کی عبادت کا حکم نہیں دیا گیا۔
آیت ٥٠ (وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا)- قوم عاد حضرت سام کی نسل سے تھی۔ یہ قوم اپنے زمانے میں جزیرہ نمائے عرب کے جنوب میں آباد تھی۔ آج کل یہ علاقہ لق ودق صحرا ہے۔- (قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ )- یہ جو تم نے مختلف ناموں سے معبود گھڑ رکھے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ تم محض افترا کر رہے ہو۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :54 سورہ اعراف رکوع ۵ کے حواشی پیش نظر رہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :55 یعنی وہ تمام دوسرے معبود جن کی تم بندگی و پرستش کر رہے ہو حقیقت میں کسی قسم کی بھی خدائی صفات اور طاقتیں نہیں رکھتے ۔ بندگی و پرستش کا کوئی استحقاق ان کو حاصل نہیں ہے ۔ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے اور بلاوجہ ان سے حاجت روائی کی آس لگائے بیٹھے ہو ۔
29: قوم عاد کا مختصر تعارف سورۃ اعراف (65:7) میں گذر چکا ہے۔