Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ۔ جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ ( آیت بایمانھم ) میں با سببیت کی ہو ۔ اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بد صورت ، بد بو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کرکے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف سبحانک اللھم کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہوگا ۔ وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ۔ درو دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آکر سلام کریں گے ۔ آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا Ǻ۝ڸ ) 18- الكهف:1 ) وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے ۔ یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لا محالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، بعض کے نزدیک یہ مدد مانگنے کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورة حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] البتہ جن لوگوں نے اپنی خداداد عقل کو ٹھیک طرح استعمال کیا اس کی آیات میں غورو فکر کرکے اس کی معرفت حاصل کی۔ خالق کائنات اس کے بےپناہ اقتدار اور روز آخرت کا یقین کیا اور آخرت میں جوابدہی سے ڈرتے اور اللہ کے احکام کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا جس کی نعمتیں لاتعداد، بےحساب اور لازوال ہوں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ : یعنی ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت، یعنی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہوگی، حتیٰ کہ وہ (پل) صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ان دونوں معنوں میں باء سببیت کے لیے ہے، یہ باء استعانت کے لیے بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ سورة حدید ( ١٢، ١٣) میں فرمایا کہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا، جب کہ منافق مرد اور عورتیں ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے نور سے فائدہ اٹھا کر ساتھ چلنے کا موقع دو ۔ گویا مومن اپنے نور ایمان کی مدد سے چلتے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں گے، جب کہ منافق اندھیرے میں رہ جائیں گے۔- تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ : جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة محمد (١٥) ۔- فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : ان نعمتوں کی تفصیل بیان میں نہیں آسکتی، فرمایا : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) [ السجدۃ : ١٧ ] ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب صفۃ الجنۃ : ٤؍٢٨٢٤، عن أبی ہریرہ (رض) ]” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں ان خوش نصیب انسانوں کا ذکر ہے جنہوں نے اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں غور کیا اور اس کو پہچانا، اس پر ایمان لائے اور ایمان کے مقتضی پر عمل کرکے اعمال صالحہ کے پابند ہوگئے۔- قرآن کریم نے ان حضرات کے لئے دنیا و آخرت میں جو اچھا صلہ اور جزاء مقرر فرمائی ہے اس کا ذکر اس طرح فرمایا ہے : (آیت) اُولٰۗىِٕكَ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ، یعنی ان کا رب ان کو ایمان کی وجہ سے منزل مقصود یعنی جنت دکھلائے گا، جس میں چین و آرام کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔- اس میں لفظ ہدایت آیا ہے جس کے مشہور معنٰی راستہ بتلانے اور دکھلانے کے ہیں، اور کبھی منزل مقصود تک پہنچا دینے کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس مقام پر یہی معنٰی مراد ہیں اور منزل مقصود سے مراد جنت ہے جس کی وضاحت بعد کے الفاظ میں ہوگئی ہے، جس طرح پہلے طبقہ کی سزا ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ تھی اسی طرح اس دوسرے مومن طبقہ کی جزاء کے بارے میں فرمایا کہ یہ بہترین جزاء ان کو ان کے ایمان کی وجہ سے ملی ہے اور چونکہ اوپر ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی ہوں، ایمان اور عمل صالح کا بدلہ بےنظیر راحتوں اور نعمتوں کا مقام جنت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَہْدِيْہِمْ رَبُّھُمْ بِـاِيْمَانِہِمْ۝ ٠ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝ ٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- جَرْي - : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے - تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) اور یقیناً جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انھوں نے اطاعت خداوندی کی تو بوجہ ان کے مومن ہونے کے ان کا پروردگار ان کو جنت میں بھیجے گا جس کے محلات اور درختوں کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :13 اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے ۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے: ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے ۔ ہر کام میں ، ہر شعبہ زندگی میں ، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا ۔ یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دو راہے پر ، ان کو صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی طرف سے ، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے ۔ ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ایمان کی وجہ سے ۔ یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے ۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات ، تندرستی ، قوت کار ، اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے ۔ لیکن یہ نتائج اس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے ۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی ، راست بینی ، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقو ف ہے ، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بےکار پڑے ہوئے ہوں ، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر انداز فکر اور مذاق طبع اور افتاد مزاج بن جائیں ، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں ۔ خدا کے قانون طبیعی میں وہ شخص جا کے کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے ، ان انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں ۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اس کے قانون اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے ان انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani