Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ثبوت صداقت مانگنے والے کہتے ہیں کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو جیسے آل ثمود کو اونٹنی ملی تھی انہیں ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں ملی؟ چاہیے تھا کہ یہ صفا پہاڑ کو سونا بنا دیتا یا مکے کے پہاڑوں کو ہٹا کر یہاں کھیتیاں باغ اور نہریں بنا دیتا ۔ گو اللہ کی قدرت اس سے عاجز نہیں لیکن اس کی حکمت کا تقاضا وہی جانتا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باغات اور نہریں بنا دے لیکن یہ پھر بھی قیامت کے منکر ہی رہیں گے اور آخر جہنم میں جائیں گے ۔ اگلوں نے بھی ایسے معجزے طلب کئے دکھائے گئے پھر بھی جھٹلایا تو عذاب اللہ آگئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا گیا تھا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کے منہ مانگے معجزے دکھا دوں لیکن پھر بھی یہ کافر رہے تو غارت کر دیئے جائیں گے اور اگر چاہو تو مہلت دوں ۔ آپ نے اپنے حلم و کرم سے دوسری بات ہی اختیار کی ۔ یہاں حکم ہوتا ہے کہ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے تمام کاموں کا انجام وہی جانتا ہے ۔ تم ایمان نہیں لاتے تو نتیجے کے منتظر رہو ۔ دیکھو میرا کیا ہوتا ہے اور تمہارا کیا ہوتا ہے؟ آہ کیسے بدنصیب تھے جو مانگتے تھے اس سے بدرجہا بڑھ کر دیکھ چکے تھے اور سب معجزوں کو جانے دو چاند کو ایک اشارے سے دو ٹکڑے کر دینا ایک ٹکڑے کا پہاڑ کے اس طرف اور دوسرے کا اس طرف چلے آنا کیا یہ معجزہ کس طرح اور کس معجزے سے کم تھا ؟ لیکن چونکہ ان کا یہ سوال محض کفر کی بنا پر تھا ورنہ یہ بھی اللہ دکھا دیتا جن پر عذاب عملاً آجاتا ہے وہ چاہے دنیا بھر کے معجزے دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا ۔ اگر ان پر فرشتے اترتے اگر ان سے مردے باتیں کرتے اگر ہر ایک چیز ان کے سامنے کر دی جاتی پھر بھی انہیں تو ایمان نصیب نہ ہوتا اسی کا بیان ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ ) 15- الحجر:14 ) اور آیت وان ترو کسفا من السلامء الخ ، اور آیت ( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ Ċ۝ ) 6- الانعام:7 ) میں بھی ہوا ہے ۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے منہ مانگے معجزے دکھانے بھی بےسود ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے تو کفر پر گرہ لگا لی ہے ۔ اس لیے فرما دیا کہ آگے چل کر دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 اس سے مراد کوئی بڑا اور واضح معجزہ، جیسے قوم ثمود کے لئے اونٹنی کا ظہور ہوا ان کے لئے صفا پہاڑی سونے کا یا مکہ کے پہاڑوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نہریں اور باغات بنانے کا یا اور اس قسم کا کوئی معجزہ صادر کرکے دکھلایا جائے۔ 20۔ 2 یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کی خواہشات کے مطابق وہ معجزے تو ظاہر کرکے دکھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائے تو پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم کو فوراً وہ ہلاک کردیتا ہے۔ اس لئے اس بات کا علم صرف اسی کو ہے کہ کسی قوم کے لئے اس کی خواہشات کے مطابق معجزے ظاہر کردیتا اس کے حق میں بہتر ہے یا نہیں ؟ اور اس طرح اس بات کا علم بھی صرف اسی کو ہے کہ ان کے مطلوبہ معجزے اگر ان کو دکھائے گئے تو انہیں، کتنی مہلت دی جائے گی، اسی لئے آگے فرمایا، تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] کفار مکہ کا حسی معجزہ کا مطالبہ :۔ معجزہ سے مراد ایسا حسی معجزہ ہے جس کا کفار مطالبہ کر رہے تھے۔ مثلاً یہ کہ فلاں پہاڑ سونے کا بن جائے یا اس سرزمین سے کوئی چشمہ پھوٹ نکلے یا ہمارے گزرے ہوئے آباؤ اجداد زندہ ہو کر ہمارے سامنے آکر ہمیں حقیقت حال سے مطلع کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا مطالبہ کچھ اس لیے نہ تھا کہ جونہی وہ معجزہ دیکھ لیں گے تو فوراً ایمان لے آئیں گے بلکہ یہ محض ایمان نہ لانے کا بہانہ تھا ورنہ وہ کئی معجزات ایسے دیکھ چکے تھے جو ایمان لانے کے لیے بہت کافی تھے مثلاً ان میں سرفہرست قرآن بذات خود ایک ایسا معجزہ تھا۔ ان کافروں کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہیے کہ جو نشانیاں آچکیں وہ تم نے بھی دیکھ لی ہیں اور میں نے بھی۔ اور جو ابھی آنے والی ہیں ان کا مجھے بھی کچھ علم نہیں۔ کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا لہذا تم بھی ایسی آنے والی نشانی کا انتظار کرو اور میں بھی کرتا ہوں۔- چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی کئی نشانیاں دکھلا دیں۔ مثلاً ان کی خواہشات اور پیہم رکاوٹوں کے علی الرغم اسلام کا بول بالا ہوا، مسلمانوں کو اکثر جنگوں میں تائید الٰہی میسر آتی رہی اور کافر ہر میدان میں پٹتے اور ذلیل و خوار ہوتے رہے تاآں کہ آپ کی وفات تک جزیرہ عرب سے کفر و شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ : مثلاً یہ مکہ کے سب پہاڑ سونے کے کردیتا، ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا، یا کوئی فرشتہ اتار دیتا جو ہمارے ساتھ بازاروں اور گلی کوچوں میں چل پھر کر اعلان کرتا کہ واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ ہی نے اپنا پیغمبر بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں ان کی معجزوں کی کئی فرمائشیں ذکر ہوئی ہیں۔ - فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا، لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس قسم کی کوئی نشانی اتارے گا کہ نہیں اور اگر اتارے گا تو کب اتارے گا۔ نشانی اتارنا یا نہ اتارنا اس کی مرضی پر موقوف ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ نشانی اتارے گا تب تم ایمان لاؤ گے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو، میں بھی دیکھوں گا تمہارا یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ (مگر تمہارے جیسے لوگوں کے متعلق تجربہ یہی ہے کہ وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے، بلکہ ایمان نہ لانے کا بہانہ بنانے کے لیے معجزے کو بھی جھٹلا دیتے ہیں۔ دیکھیے انعام : ٧، ١١١۔ بنی اسرائیل : ٥٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلہِ فَانْتَظِرُوْا۝ ٠ ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ۝ ٢٠ ۧ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) اور یہ کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں ہوا جیسا کہ یہ نبوت کا دعوی کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجیے نزول معجزہ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے تم بھی میرے ہلاک ہونے کا انتظار کرو، میں بھی تمہاری ہلاکت کا انتظار کرتا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلاآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ج) ” اور وہ کہتے ہیں کیوں نہ اتاری گئی کوئی نشانی (معجزہ) اس (رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر اس کے رب کی طرف سے ؟ “ - (فَقُلْ اِنَّمَاالْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْاج اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ غیب کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے ‘ پس انتظار کرو ‘ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ “- اپنی اس ضد اور ہٹ دھرمی کے بعد انتظار کرو کہ مشیت ایزدی سے کب ‘ کیا شے ظہور میں آتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :27 یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی برحق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوت حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو ، عادت کو ، نظام معاشرت و تمدن کو ، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے ۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش کیا جاتا تھا ۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی ۔ اس لیے کہ وہ ایمان لاناچاہتے نہ تھے ۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں ، اس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں ( توحید و آخرت ) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظام حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :28 یعنی جو کچھ اللہ نے اتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا ، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے”غیب“ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں ، وہ چاہے تو اتارے اور نہ چاہے تو نہ اتارے ۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اتارا ہے وہ اترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو ، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اس آیت میں نشانی سے مراد معجزہ ہے۔ یوں تو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت سے معجزات عطا فرمائے تھے، اور آپ کے اُمّی ہونے کے باوجود قرآنِ کریم کا آپ کی زبان مبارک پر جاری ہونا بذات خود بہت بڑا معجزہ تھا، لیکن کفارِ مکہ آپ سے نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جن کا کچھ بیان سورۂ بنی اسرائیل (93:17) میں آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے پیغمبروں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کے اس قسم کے ہر مطالبے کو پورا کریں، اور ہر کس و ناکس کی فرمائش پر ہر روز نئے معجزات دِکھایا کریں، بالخصوص جب یہ بات معلوم ہو کہ مطالبہ کرنے والے محض وقت گذاری اور بہانہ بازی کے لئے ایسی فرمائشیں کر رہے ہوں۔ اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسی فرمائشوں کا یہ مختصر جواب دینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ غیب کی ساری باتیں، جن میں معجزات کا ظاہر کرنا بھی داخل ہے، میرے قبضے اور اختیار میں نہیں، صرف اﷲ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ وہ تمہاری کونسی فرمائش پوری کرتا ہے، اور کونسی پوری نہیں کرتا، اس کا تم بھی انتظار کرو۔ میں بھی انتظار کرتا ہوں۔