عامر بن سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے اپنے مرض وفات میں فرمایا : میرے لیے لحد تیار کرنا اور اس پر اینٹیں کھڑی کرنا جس طرح رسول اللہ ﷺ (کی قبر) کے ساتھ کیا گیا ۔ رواہ مسلم ۔
ابوالہیاج اسدی ؒ بیان کرتے ہیں ، علی ؓ نے مجھے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسے کام پر مامور نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے مامور و مبعوث فرمایا تھا ، کہ تم ہر مورتی کو مٹا دو اور ہر اونچی قبر کو برابر کر دو ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے ، وہ کپڑے کو جلا کر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں ، مدینہ میں دو گورکن تھے ، ان میں سے ایک لحد بناتا تھا جبکہ دوسرا لحد تیار نہیں کرتا تھا ، صحابہ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جو پہلے آئے گا وہ اپنا کام کرے گا ، پس لحد بنانے والا شخص پہلے آیا تو پھر رسول اللہ ﷺ کے لیے لحد تیار کی گئی ۔ حسن ، رواہ البغوی فی شرح السنہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہمارے (مسلمانوں کے) لیے لحد ہے اور شق (دہانے کی شکل والی قبر) ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
ہشام بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ احد کے روز فرمایا :’’ وسیع اور گہری قبریں تیار کرو اور اچھی طرح دفن کرو ، اور ایک قبر میں دو دو ، تین تین کو دفن کرو ، اور ان میں سے زیادہ قرآن جاننے والے کو پہلے دفن کرو ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے ((واحسنوا))‘‘ اور اچھی طرح دفن کرو ‘‘ تک روایت کیا ہے ۔ صحیح ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوہ احد کے روز میری پھوپھی میرے شہید والد کو لے آئیں تاکہ وہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں ، پس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا ، شہداء کو ان کی شہادت گاہ کی طرف واپس لے آؤ ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، دارمی ، الفاظ حدیث ترمذی کے ہیں ۔ صحیح ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کے وقت ایک قبر میں داخل ہوئے تو آپ کے لیے چراغ روشن کیا گیا ، آپ نے (میت کو) قبلہ کی طرف سے لیا ، اور فرمایا :’’ اللہ تم پر رحم فرمائے ، تم بہت زیادہ تضریع (گریہ زاری) کرنے والے اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں (امام بغوی) نے شرح السنہ میں فرمایا : اس کی سند ضعیف ہے ۔ ضعیف ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی ﷺ یوں فرماتے :’’ اللہ کے نام کے ساتھ ، اللہ کی توفیق کے ساتھ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کی ملت و دین پر ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، اور ابوداؤد نے دوسری روایت بیان کی ہے ۔ صحیح ۔
جعفر بن محمد ؒ اپنے والد سے مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دونوں ہاتھ ملا کر میت (یعنی قبر ) پر تین لپ مٹی ڈالی ، اور آپ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور اس پر کنکریاں رکھیں ۔ شرح السنہ ، اور امام شافعی نے ((رش))’’ پانی چھڑکنے ‘‘ کے الفاظ روایت کیے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کی قبر پر پانی چھڑکا گیا ، بلال بن رباح ؓ نے ایک مشکیزے کے ذریعے آپ کی قبر پر پانی چھڑکا ، انہوں نے آپ کے سر مبارک کی طرف سے چھڑکنا شروع کیا اور آپ کے پاؤں تک چھڑکتے گئے ۔ اسنادہ موضوع ۔
مطلب بن ابی وداعہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب عثمان بن مظعون ؓ نے وفات پائی ، ان کا جنازہ لایا گیا ، جب انہیں دفن کر دیا گیا تو نبی ﷺ نے ایک آدمی کو حکم فرمایا کہ وہ ایک پتھر آپ کے پاس لائے ، وہ آدمی اسے نہ اٹھا سکا تو رسول اللہ ﷺ خود اٹھ کر اس طرف گئے آپ نے آستینیں اوپر چڑھائیں ، مطلب ؓ بیان کرتے ہیں ، جس شخص نے مجھے واقعہ بیان کیا ، اس نے کہا ، گویا میں رسول اللہ ﷺ کے بازوؤں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں جب آپ نے آستینیں اٹھائی تھیں ، پھر آپ نے اس پتھر کو اٹھایا اور اسے ان (عثمان بن مظعون ؓ) کے سر کے پاس رکھ کر فرمایا :’’ میں اس کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر کے بارے میں بتاؤں گا اور اپنے خاندان میں فوت ہونے والے شخص کو اس کے قریب دفن کروں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں ، میں عائشہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے کہا : ماں جی ! مجھے نبی ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبریں تو دکھا دیں ، انہوں نے مجھے تینوں قبریں دکھا دیں ، وہ بلند تھیں نہ زمین کے برابر تھیں اور ان پر مقام عرصہ کے سرخ سنگریزے بچھائے ہوئے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ایک انصاری شخص کے جنازے میں شریک ہوئے ، ہم قبر پر پہنچ گئے ، لیکن ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ، نبی ﷺ قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، اور انہوں نے حدیث کے آخر میں یہ اضافہ نقل کیا ہے : گویا ہمارے سروں پر پرندے ہوں ۔ حسن ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کی تدفین کے وقت ہم موجود تھے ، رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فرما تھے ، میں نے آپ کی آنکھوں کو اشکبار دیکھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے آج رات اپنی اہلیہ سے صحبت نہ کی ہو ؟‘‘ ابوطلحہ ؓ نے عرض کیا ، میں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ اس کی قبر میں اتریں ۔‘‘ وہ ان کی قبر میں اترے ۔ رواہ البخاری ۔
عمرو بن عاص ؓ نے ، جب وہ نزع کے عالم میں تھے ، اپنے بیٹے سے کہا : جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی جائے نہ آگ ، جب تم مجھے دفن کر چکو اور مجھ پر مٹی ڈال لو تو پھر اتنی دیر تک میری قبر کے گرد کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے ، حتیٰ کہ میں تمہاری وجہ سے خوش اور پرسکون ہوں اور میں جان لوں کہ میں اپنے رب کے بھیجے ہوئے قاصدوں (فرشتوں) کو کیا جواب دیتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسے (دفن کرنے سے) نہ روک رکھو ، بلکہ اسے جلد دفن کرو ۔ اور (دفن کرنے کے بعد) سرہانے سورۂ بقرہ کا ابتدائی حصہ اور اس کے پاؤں کے پاس سورۂ بقرہ کا آخری حصہ پڑھا جائے ۔‘‘ بیہقی فی شعب الایمان ، اورانہوں نے فرمایا : درست بات یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ ضعیف ۔
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں ۔ جب عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے موضع حُبشی ٰ میں وفات پائی تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا ، جب عائشہ ؓ وہاں تشریف لائیں تو وہ عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر آئیں اور یہ اشعار کہے : ہم جزیمہ کے دونوں مصاحبوں کی طرح ایک مدت تک ملے جلے رہے ، حتیٰ کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے ، جب ہم جدا ہوئے تو گویا میں اور مالک طویل مدت تک اکٹھا رہنے کے بعد بھی ایسے تھے جیسے ہم ایک رات بھی اکٹھے نہ رہے تھے ۔ پھر انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر میں موجود ہوتی تو تمہیں جائے وفات پر ہی دفن کیا جاتا ، اور اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو میں تمہاری زیارت کرنے نہ آتی ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
عمرو بن حزم ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ اس قبر والے کو یا اس کو تکلیف نہ پہنچاؤ ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد ۔