براء بن عازب ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب مسلمان سے قبر میں (اس کے رب ، نبی اور دین کے بارے میں) سوال کیا جائے وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ کہنا اللہ کے اس فرمان کے مطابق ہے :’’ اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں سچی بات پر دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے ۔‘‘ اور ایک روایت میں نبی ﷺ سے مروی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (یُثَبّتُ اللہُ الَّذِیْنَ امَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّبِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ) عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ، پوچھا جائے گا : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہے گا : میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد (ﷺ) ہیں ۔‘‘
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے ، اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں ، تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ۔ (اسی اثنا میں) دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تم اس شخص محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟ جو مومن ہے ، تو وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اسے کہا جاتا ہے : جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو ، اللہ نے اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے ۔ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھتا ہے ، رہا منافق و کافر شخص ، تو اسے بھی کہا جاتا ہے ۔ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ، میں وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے ، اسے کہا جائے گا : تم نے (حق بات) سمجھنے کی کوشش کی نہ پڑھنے کی ، اسے لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ ایک ساتھ مارا جائے گا تو وہ چیختا چلاتا ہے جسے جن و انس کے سوا اس کے قریب ہر چیز سنتی ہے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری ۱۳۷۴) و مسلم ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے ۔ تو صبح و شام اس کا ٹھکانہ اسے دکھایا جاتا ہے ۔ اگر تو وہ جنتی ہے تو وہ اہل جنت سے ہے ، اور اگر وہ جہنمی ہے تو پھر وہ اہل جہنم میں سے ہے ، پس اسے کہا جائے گا : یہ تمہارا ٹھکانہ ہے حتیٰ کہ اللہ قیامت کے دن تمہیں اس کے لیے دوبارہ زندہ کرے گا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۳۷۹) و مسلم ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی تو اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور ان سے کہا : اللہ آپ کو عذاب قبر سے بچائے ، عائشہ ؓ نے عذاب قبر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :’’ ہاں ، عذاب قبر ہے ۔‘‘ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے دیکھا کہ آپ اس کے بعد جب بھی نماز پڑھتے تو عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۳۷۲) و مسلم ۔
زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، اس اثنا میں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار بنونجار کے باغ میں تھے جبکہ ہم بھی آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک خچر بدکا ، قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دیتا ، وہاں پانچ ، چھ قبریں تھیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان قبروں والوں کو کون جانتا ہے ؟‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا ، میں : آپ نے فرمایا :’’ وہ کب فوت ہوئے تھے ؟‘‘ اس نے کہا : حالت شرک میں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اس امت کے لوگوں کا ان کی قبروں میں امتحان لیا جائے گا ، اگر ایسے نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ عذاب قبر تمہیں سنا دے جو میں سن رہا ہوں ، پھر آپ ﷺ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا :’’ جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : ہم عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ انہوں نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ انہوں نے کہا : ہم ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ انہوں نے کہا : ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے ۔ تو سیاہ فام نیلی آنکھوں والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ۔ پس وہ کہتے ہیں ؟ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے ، پھر اس کی قبر کو طول و عرض میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے ، پھر اس کے لیے اس میں روشنی کر دی جاتی ہے ، پھر اسے کہا جاتا ہے : سو جاؤ ، وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں بتا آؤں ، لیکن وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سو جا ، جسے اس کے گھر کا عزیز ترین فرد ہی بیدار کرتا ہے ، حتیٰ کہ اللہ اسے اس کی خواب گاہ سے بیدار کرے گا ، اور اگر وہ منافق ہوا تو وہ کہے گا : میں نے لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنا ، تو میں نے بھی ویسے ہی کہہ دیا ، میں کچھ نہیں جانتا ، وہ فرشتے کہتے ہیں : ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے، پس زمین سے کہا جاتا ہے : اس پر تنگ ہو جا ، وہ اس پر تنگ ہو جاتی ہے ۔ اس سے اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر آ جائیں گی ، پس اسے اس میں مسلسل عذاب ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ اس کی اس خواب گاہ سے اسے دوبارہ زندہ کرے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی (۱۰۷۱) و ابن حبان (لاحسان : ۳۱۰۷) ۔
براء بن عازب ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، تو اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں ، تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ، پھر وہ پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ، پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے ، وہ کون تھے ؟ وہ جواب دے گا وہ اللہ کے رسول ہیں ، وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : تمہیں کس نے بتایا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، تو میں اس پر ایمان لے آیا اور تصدیق کی ، اس کا یہ جواب دینا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے :’’ اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں ، سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے ۔‘‘ فرمایا : آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا ، اسے جنتی بچھونا بچھا دو ، جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ، وہ کھول دیا جاتا ہے ، وہاں سے معطر بادنسیم اس کے پاس آتی ہے ، اور اس کی حد نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ، پھر آپ ﷺ نے کافر کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے ، دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہائے ! ہائے ! میں نہیں جانتا ، پھر وہ پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے : ہائے ! ہائے ! میں نہیں جانتا ، پھر وہ پوچھتے ہیں : وہ شخص جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے ، کون تھے ؟ پھر وہی جواب دیتا ہے : ہائے ! ہائے ! میں نہیں جانتا ، آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے : اس نے جھوٹ بولا ، لہذا اسے جہنم سے بستر بچھا دو ۔ جہنم سے لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو ، فرمایا : جہنم کی حرارت اور وہاں کی گرم لو اس تک پہنچے گی ، فرمایا : اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر نکل جاتی ہیں ۔ پھر ایک اندھا اور بہرا داروغہ اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے ۔ جس کے پاس لوہے کا بڑا ہتھوڑا ہوتا ہے ، اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے ، وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے تو جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے مابین موجود ہر چیز اس مار کو سنتی ہے ، وہ مٹی ہو جاتا ہے ، تو پھر روح کو دوبارہ اس میں لوٹا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘ حسن ، رواہ احمد (۴/ ۲۸۷ ح ۱۸۷۳۳) و ابوداؤد (۳۲۱۲ ، ۴۷۵۳) و الحاکم (۱/ ۳۷ ، ۳۸ ح ۱۰۷) و الطبرانی (المعجم الکبیر ۲۵/ ۲۳۸ ، ۲۴۰ ح ۲۵) و البیھقی فی شعب الایمان (۳۹۵) ۔
عثمان ؓ سے روایت ہے جب آپ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو ہاں اس قدر روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی ، آپ سے پوچھا گیا ، آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں روتے مگر قبر کا ذکر کر کے روتے ہو ؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک قبر منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے ، پس اگر اس سے بچ گیا تو اس کے بعد جو منازل ہیں وہ اس سے آسان تر ہیں ، اور اگر اس سے نجات نہ ہوئی تو اس کے بعد جو منازل ہیں وہ اس سے زیادہ سخت ہیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے قبر سے زیادہ سخت اور برا منظر کبھی نہیں دیکھا ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی (۲۳۰۸) و ابن ماجہ (۴۲۶۷) و الحاکم (۱/ ۳۷۱ ، ۴/ ۳۳۰ ، ۳۳۱) ۔
عثمان ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی ﷺ میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے :’’ اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو ، اس کے لیے (سوال و جواب کے موقع پر) ثابت قدمی کی درخواست کرو ، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداود (۳۲۲۱) و الحاکم (۱/ ۳۷) ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کافر پر ، اس کی قبر میں ، ننانوے اژدھا مسلط کر دیے جاتے ہیں ، وہ قیام قیامت تک اسے ڈستے رہیں گے ، اگر ان میں سے ایک اژدھا زمین پر پھونک مار دے تو زمین کسی قسم کا سبزہ نہ اگائے ۔‘‘ دارمی ۔ امام ترمذی نے اس طرح روایت کیا ہے ، انہوں نے ننانوے کے بجائے ستر (اژدھا) کا ذکر کیا ہے ۔ حسن ، رواہ دارمی (۱/ ۳۳۱ ح ۲۸۱۸) و الترمذی (۲۴۶۰) و انوار الصحیفۃ (ص ۲۵۸) ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب سعد بن معاذ ؓ نے وفات پائی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے جنازے کے لیے گئے ، جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور انہیں قبر میں رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے تسبیح بیان کی اور ہم نے بھی طویل تسبیح بیان کی ، پھر آپ نے اللہ اکبر پڑھا تو ہم نے بھی اللہ اکبر پڑھا ، عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے تسبیح کیوں بیان کی ، پھر آپ نے تکبیر بیان کی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس سالح بندے پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی ، حتیٰ کہ اللہ نے اسے کشادہ کر دیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۳/ ۳۶۰ ح ۱۴۹۳۴) (کتاب الجرح و التعدیل ۷/ ۳۱۶) و ابن حبان (۵/ ۳۷۳) ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ (سعد بن معاذ ؓ)وہ شخص ہے جس کی خاطر عرش لرز گیا ، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور اس کی نماز جنازہ میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی ، لیکن اسے بھی (قبر میں) دبایا گیا پھر ان کی قبر کو کشادہ کر دیا گیا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ النسائی (۴/ ۱۰۰ ، ۱۰۱ ح ۲۰۵۷) ۔
اسماء بنت ابی بکر ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے فتنہ قبر کا ذکر فرمایا جس میں آدمی کو آزمایا جائے گا ، پس جب آپ ﷺ نے اس کا ذکر فرمایا تو مسلمان زور سے رونے لگے ۔‘‘
امام نسائی نے اضافہ نقل کیا ہے : یہ رونا میرے اور رسول اللہ ﷺ کا کلام سمجھنے کے مابین حائل ہو گیا ، جب ان کا یہ رونا اور شور تھما تو میں نے اپنے پاس والے ایک آدمی سے کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے کلام کے آخر پر کیا فرمایا ؟ اس نے بتایا : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تم قبروں میں فتنہ دجال کے قریب قریب آزمائے جاؤ گے ۔‘‘ رواہ البخاری (۱۳۷۳) و النسائی (۴/ ۱۰۳ ، ۱۰۴ ح ۲۰۶۴) ۔
جابر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا :’’ جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اسے سورج ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے وہ قریب الغروب ہو ، پس وہ بیٹھ جاتا ہے اور اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہتا ہے : مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ (۴۲۷۲) و ابن حبان (۷۷۹) و البیھقی (۶۴) و ابن حبان (۷۸۱) و الحاکم (۱/ ۳۷۹ ، ۳۸۰) و فی مجمع الزوائد (۳/ ۵۲) ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میت قبر کی طرف جاتی ہے تو (صالح) آدمی کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے ، پھر کہا جاتا ہے ، تم کس دین پر تھے ؟ وہ کہے گا اسلام پر ، اس سے پوچھا جائے گا : یہ آدمی کون تھے ؟ وہ کہے گا : اللہ کے رسول محمد ﷺ ، وہ اللہ کی طرف سے معجزات لے کر ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے ان کی تصدیق کی ، اس سے پوچھا جائے گا : کیا تم نے اللہ کو دیکھا ؟ وہ جواب دے گا : کسی کے لیے (دنیا میں ) اللہ کو دیکھنا صحیح و لائق نہیں ، (اس کے بعد) اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کر دیا جاتا ہے ، تو وہ اس کی طرف دیکھتا ہے ، کہ جہنم کے بعض حصے بعض کو کھا رہے ہیں ، اسے کہا جاتا ہے ، اسے دیکھو جس سے اللہ نے تمہیں بچا لیا ، پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کر دیا جاتا ہے تو وہ اس کی اور اس کی نعمتوں کی رونق و خوبصورتی کو دیکھتا ہے ، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارا مسکن ہے ، تم یقین پر تھے ، اسی پر تم فوت ہوئے اور ان شاءاللہ تم اسی پر اٹھائے جاؤ گے ، پھر برے آدمی کو اس کی قبر میں بٹھایا جائے گا تو وہ بہت گھبرایا سا ہو گا ، اس سے پوچھا جائے گا : تم کس دین پر تھے ؟ تو وہ کہے گا : میں نہیں جانتا ، پھر اس سے پوچھا جائے گا : یہ شخص کون تھے ؟ وہ کہے گا : میں نے لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنا تو میں نے بھی ویسے ہی کہہ دیا ، (اس کے بعد) اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کر دیا جائے گا ، تو وہ اس کی اور اس کی نعمتوں کی رونق و خوبصورتی کو دیکھے گا ، تو اسے کہا جائے گا : اس کو دیکھو جسے اللہ نے تم سے دور کر دیا ، پھر اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کر دیا جائے گا تو وہ اسے دیکھے گا کہ اس کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے ، اسے کہا جائے گا یہ تیرا ٹھکانہ ہے ، تو شک پر تھا ، اسی پر فوت ہوا اور ان شاءاللہ اسی پر اٹھایا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابن ماجہ (۴۲۶۸) ۔