ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا : لوگوں میں سے زیادہ معزز شخص کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز شخص وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب معزز شخص یوسف ؑ اللہ کے نبی ، اللہ کے نبی کے بیٹے ، اللہ کے نبی کے پوتے ، اللہ کے خلیل (ابراہیم ؑ) کے پڑپوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ہم اس کے بارے میں آپ سے دریافت نہیں کر رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم عرب قبائل کے متعلق مجھ سے دریافت کر رہے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہی تمہارے اسلام میں بہتر ہیں بشرطیکہ وہ (آداب شریعت کے متعلق) سمجھ بوجھ حاصل کریں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں غزوۂ حنین کے روز ابوسفیان بن حارث ؓ آپ یعنی رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ، جب مشرکین نے آپ کو ہر طرف سے گھیر لیا تو آپ (سواری سے) نیچے اترے اور فرمانے لگے :’’ میں نبی ہوں کوئی جھوٹ نہیں ، اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : اس دن تمام لوگوں میں سے آپ ﷺ سے زیادہ شجاع کوئی نہیں دیکھا گیا ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ سے پوچھا : مخلوق میں سے بہترین شخصیت ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ ابراہیم ؑ ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری مدح میں ایسے مبالغہ نہ کرنا جیسے نصاریٰ نے ابن مریم کی مدح میں مبالغہ سے کام لیا ، میں تو اس کا بندہ ہوں ، تم کہوں ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عیاض بن حمار مجاشعی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگ اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آ جائیں ، وہ تو دوزخ کے کوئلے ہیں ، یا وہ اللہ کے ہاں کرم نجاست سے بھی زیادہ حقیر ہیں جو کہ اپنی ناک سے غلاظت دھکیلتا ہے ، بے شک اللہ نے آباؤ اجداد پر تمہارے جاہلی فخر و غرور کو ختم کر دیا ہے ، بس وہ (فخر کرنے والا) مؤمن متقی ہے یا فاجر بدبخت ، تمام لوگ آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے (پیدا ہوئے) ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
مطرف بن عبداللہ بن شخیر ؒ سے روایت ہے ، وہ (اپنے والد سے) بیان کرتے ہیں ، میں بنو عامر کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے عرض کیا : آپ ﷺ ہمارے سید ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ سید تو اللہ ہے ۔‘‘ پھر ہم نے عرض کیا : آپ فضیلت میں ہم سے افضل ہیں اور ہم سے عظیم تر ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو کہہ رہے ہو وہ کہو یا اپنی بات کا کچھ حصہ کہو اور شیطان تمہیں (باتیں بنانے پر) دلیر نہ بنا دے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
حسن بصری ؒ سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا میں باعث اعزاز مال ہے جبکہ اللہ کے ہاں (آخرت میں) باعث اعزاز تقویٰ ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص جاہلی نسب کی طرف نسبت کرے (اور اس پر فخر کرے) تو اس سے کہو اپنے باپ کا آلہ تناسل کاٹ کر منہ میں لے لو اور یہ بات کنایہ سے مت کہو ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ و احمد و البخاری فی الادب المفرد ۔
عبدالرحمن بن ابی عقبہ ؒ ، ابو عقبہ ؓ سے روایت کرتے ہیں اور وہ اہل فارس کے آزاد کردہ غلام تھے ، انہوں نے کہا : میں غزوۂ احد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھا ، میں نے ایک مشرک پر وار کیا تو میں نے کہا : اسے میری طرف سے وصول (برداشت) کرو ، میں فارسی النسل ہوں ، آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :’’ تم نے ایسے کیوں نہ کہا ، اسے میری طرف سے وصول (برداشت) کرو اور میں انصاری ، جوان ہوں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن مسعود ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے اپنی قوم کی ناحق حمایت و نصرت کی تو وہ اس اونٹ کی طرح ہے جو کنویں میں گر جائے اور اسے اس کی دم سے پکڑ کر کھینچا جائے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! عصبیت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کہ تم ناحق اپنی قوم کی معاونت کرو ۔‘‘ ضعیف جذا ، رواہ ابوداؤد ۔
سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ تم میں سے بہترین دفاع کرنے والا وہ ہے جو اپنے خاندان کا دفاع کرتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی طرف بلایا ، وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر قتال کرے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر فوت ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
اہل فلسطین سے عبادہ بن کثیر شامی اپنی (فلسطینی) فسیلہ نامی عورت سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا ، میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ بھی عصبیت کے زمرے میں آتا ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ عصبیت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کی ناحق حمایت و نصرت کرے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ احمد و ابن ماجہ ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے یہ انساب (ذات ، قبیلے) کسی کے لیے باعث عار نہیں ، تم سب آدم کی اولاد ہو اور تم سب باہم اس طرح برابر ہو جس طرح ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے ، دین اور تقویٰ کے علاوہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ، آدمی کے لیے عار کے لحاظ سے یہی کافی ہے کہ وہ زبان دراز ، فحش گو اور بخیل ہو ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔