ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوہ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے واپس کر دیا ، پھر غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں مجھے پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے (جہاد کرنے کی) اجازت مرحمت فرما دی ۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمایا : یہی عمر (پندرہ سال) لڑنے والے جوانوں اور لڑکوں (نابالغ) میں فرق کرنے والی ہے ۔ متفق علیہ ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر تین اشیاء پر صلح فرمائی ، کہ مشرکین میں سے جو شخص ان کی طرف آئے گا اسے ان (مشرکین) کی طرف واپس کیا جائے گا ۔ اور جو مسلمانوں کی طرف سے ان کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا ، اور آپ ﷺ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوں گے ۔ اور وہاں تین روز قیام کریں گے ، جب آپ اس (مکہ) میں داخل ہوئے اور مدت پوری ہو گئی اور آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو حمزہ ؓ کی بیٹی آپ ﷺ کے پیچھے چچا جان ! چچا جان ! کہہ کر آوازیں دینے لگی تو علی ؓ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کر لیا اس کے ساتھ ہی حضرت علی ؓ ، حضرت جعفر ؓ ، اور حضرت زید ؓ کے درمیان حمزہ کی بیٹی کے بارے میں تنازع شروع ہو گیا : علی ؓ نے فرمایا : میں نے اسے پکڑا ہے اور وہ میرے چچا کی بیٹی ہے ، جعفر ؓ نے فرمایا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے ، اور زید ؓ نے فرمایا : میرے بھائی کی بیٹی ہے ، نبی ﷺ نے اس کے متعلق اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا :’’ خالہ ماں کی جگہ پر ہے ۔‘‘ اور علی ؓ سے فرمایا :’’ تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘ جعفر ؓ سے فرمایا :’’ تم خَلق و خُلق (سیرت و صورت) میں مجھ سے مشابہ ہو ۔‘‘ اور زید ؓ سے فرمایا :’’ تم ہمارے بھائی اور ہمارے چہیتے ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا یہ بیٹا (کہ دوران حمل) میرا پیٹ اس کے لیے ظرف تھا ، (دورانِ رضاعت) میری چھاتی اس کے لیے مشکیزہ (دودھ پینے کی جگہ) تھی ۔ اور میری گود اس کے لیے ٹھکانا تھی ، اور (اب) اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تک تو (نئے خاوند سے) نکاح نہ کرے ، اس وقت تک تم اس کی زیادہ حق دار ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا ، میرا خاوند میرے اس بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے ، جبکہ وہ میرے لیے پانی لاتا ہے اور مجھے فائدہ پہنچاتا ہے ، تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تمہارا والد ہے اور یہ تمہاری والدہ ہے ، تم ان دونوں میں سے جس کا چاہو ہاتھ تھام لو ۔‘‘ اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ تھام لیا تو وہ اسے لے کر چلی گئی ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و الدارمی ۔
ہلال بن اسامہ اہل مدینہ کے آزاد کردہ غلام ابومیمونہ سلیمان سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : اس دوران کہ میں ابوہریرہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک فارسی (عجمی) عورت ، جس کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی تھی ، اپنے بیٹے کو لے کر ابوہریرہ ؓ کے پاس آئی اور وہ دونوں (والد اور والدہ) اس کا دعویٰ کرتے تھے ، اس عورت نے ابوہریرہ ؓ سے فارسی میں بات کرتے ہوئے کہا : ابوہریرہ ! میرا خاوند میرے اس بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے ۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : تم دونوں اس کے متعلق قرعہ اندازی کرو ۔ ابوہریرہ ؓ نے بھی اس کے متعلق اسے فارسی میں بتایا ، جب اس کا خاوند آیا تو اس نے کہا : میرے بیٹے کے متعلق کون مجھ سے جھگڑتا ہے ؟ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : اے اللہ ! میں یہ فیصلہ اس لیے دے رہا ہوں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرا خاوند میرے اس بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے ، جبکہ وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے اور ابوعنبہ کے کنویں سے پانی لا کر مجھے پلاتا ہے ، اور نسائی کی روایت میں ہے : میٹھا پانی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کے متعلق قرعہ اندازی کرو ۔‘‘ تو اس کے خاوند نے کہا : میرے بچے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تیرا والد ہے اور یہ تیری والدہ ہے ، لہذا تم ان میں سے جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو ،‘‘ اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ ابوداؤد ، نسائی ، لیکن انہوں نے اسے مسند روایت کیا ہے ۔ اور دارمی نے اسے ہلال بن اسامہ سے روایت کیا ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و الدارمی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرتا ہے ، اللہ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے میں اس (آزاد کرنے والے) کے ایک ایک عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتا ہے ، حتی کہ اس کی شرم گاہ کو اس کی شرم گاہ کے بدلے میں (آزاد کر دیتا ہے) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا ، کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ وہ (راوی) بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس کی قیمت زیادہ ہو اور وہ اپنے اہل کے ہاں بہت پسندیدہ ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر میں ایسا نہ کر سکوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی بھی کام کرنے والے کی مدد کر ، یا جو شخص کوئی چیز بنانا نہیں جانتا تو اس کے لیے وہ چیز بنا دے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھ ، یہ ایسا صدقہ ہے جس کے ذریعے تو اپنی جان پر صدقہ کرتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، مجھے کوئی ایسا عمل سکھائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگرچہ تم نے بات مختصر کی ہے لیکن بات بہت اہم دریافت کی ہے ۔ ذی روح کو آزاد کر ، اور گردن کو غلامی سے آزاد کر ۔‘‘ اس نے عرض کیا : کیا ان دونوں کا ایک ہی معنی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، عتق سے مراد ہے کہ تو اکیلا اسے آزاد کرے ، جبکہ ’’ فک رقبہ ‘‘ یہ ہے کہ تو اس کی قیمت ادا کرنے میں معاونت کر ، زیادہ دودھ والا جانور بطورِ عطیہ دے اور ظالم رشتہ دار پر مہربانی و احسان کر ، اگر تم اس کی طاقت نہ رکھو تو پھر بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، پیاسے کو پانی پلاؤ ، نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو ۔ اگر تم اس کی طاقت نہ رکھو تو پھر خیر و بھلائی کی بات کے علاوہ اپنی زبان کو روکو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
عمرو بن عبسہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص مسجد بناتا ہے تاکہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے ، جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرتا ہے تو یہ اس کا جہنم سے فدیہ بن جاتا ہے ، اور جو شخص اللہ کی راہ میں (تحصیل علم یا جہاد کرتے ہوئے) بوڑھا ہو گیا تو روز قیامت (جب اندھیرے ہوں گے) اس کے لیے نور ہو گا ۔‘‘ صحیح ، فی شرح السنہ ۔
غریف بن عیاش دیلمی بیان کرتے ہیں ، ہم واثلہ بن اسقع ؓ کے پاس آئے تو ہم نے کہا : ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیں جس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو ، وہ (اس بات سے) ناراض ہو گئے اور کہا : تم قرآن کی تلاوت کرتے ہو ، جبکہ اس کا مصحف اس کے گھر میں موجود ہوتا ہے اس کے باوجود وہ کمی بیشی کر لیتا ہے ، ہم نے کہا : ہم نے تو صرف ایسی حدیث کا ارادہ کیا تھا جو آپ نے نبی ﷺ سے سنی ہو ، انہوں نے کہا : ہم اپنے ایک ساتھی کے بارے میں ، جس نے قتل کی وجہ سے جہنم کو واجب کر لیا تھا ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کی طرف سے غلام آزاد کرو ، اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ افضل صدقہ کسی کے لیے ایسی سفارش کرنا ہے جس کی وجہ سے کسی کی گردن آزاد کر دی جائے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔