سہل بن سعد ساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس شخص کے بارے میں بتائیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے ، کیا وہ اسے قتل کر دے ، اس صورت میں وہ (مقتول کے ورثاء) اس کو قتل کر دیں گے یا اسے کیا کرنا چاہیے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے ، تم اسے لے کر آؤ ۔‘‘ سہل بیان کرتے ہیں ، ان دونوں نے مسجد میں لعان کیا ، اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا ، جب وہ دونوں فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں اسے رکھ لوں تو اس کا مطلب ہو گا میں نے اس پر جھوٹ باندھا ، اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ انتظار کرو اور دیکھو اگر وہ سیاہ رنگ ، موٹی موٹی اور خوب سیاہ آنکھوں والے ، سرین بڑے بڑے اور موٹی موٹی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دے تو پھر میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس کے متعلق سچ کہا ہے ، اور اگر وہ سرخ رنگ کا ہوا ، گویا کہ وہ زہریلی چھپکلی ہے تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اس عورت پر جھوٹ باندھا ہے ۔‘‘ اس عورت نے اس طرح کے بچے کو جنم دیا جس طرح کی صفات رسول اللہ ﷺ نے عویمر کی تصدیق کے متعلق بیان فرمائی تھیں ، اس کے بعد اس بچے کو اس کی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا ۔ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا ، اس (آدمی) نے اس کے بچے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور بچے کو عورت کے حوالے کر دیا ۔
اور ابن عمر ؓ کی صحیحین کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے شوہر کو وعظ و نصیحت کی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے ، پھر آپ ﷺ نے اس عورت کو بلایا اور اسے بھی وعظ و نصیحت کی اور اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہلکا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا :’’ تمہارا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے ، اب تمہارا اس (عورت) پر کوئی حق نہیں ۔‘‘ اس (آدمی) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا مال (جو مہر میں دیا تھا) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہیں مال کا کوئی حق نہیں ، اگر تم نے اس کے متعلق سچی بات کی ہے تو وہ (مال) اس کا بدل ہے جو تم نے اس سے ہمبستری کی ہے ، اور اگر تم نے اس کے متعلق جھوٹی بات کی ہے تو پھر اس (مہر) کا لوٹنا تمہارے لیے بعید ہے اور تیرا اس سے مطالبہ کرنا بھی بعید ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہلال بن امیہ نے نبی ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ثبوت پیش کرو ، ورنہ تیری پشت پر حد قائم ہو گی ۔‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو حالت زنا میں دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے چلا جائے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پشت پر حد قائم کی جائے گی ۔‘‘ ہلال ؓ نے عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! میں یقیناً سچا ہوں اللہ ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو مجھے حد سے بچا لے گا ۔ پس جبریل ؑ تشریف لائے اور آپ ﷺ پر یہ آیات نازل فرمائیں :’’ جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں ......... اگر وہ سچوں میں سے ہے ۔‘‘ ہلال آئے تو انہوں نے گواہی دی (یعنی لعان کیا) جبکہ نبی ﷺ فرما رہے تھے :’’ یقیناً تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے کے لیے تیار ہے ؟‘‘ پھر عورت کھڑی ہوئی تو اس نے گواہی دی (لعان کیا) جب وہ پانچویں گواہی پر پہنچی تو انہوں نے اسے روکا اور انہوں نے کہا کہ یہ (پانچویں گواہی) واجب کرنے والی ہے ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی حتی کہ ہم نے سمجھا کہ وہ (اپنے مؤقف سے) رجوع کر لے گی ، پھر اس نے کہا : میں ہمیشہ کے لیے اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی ۔ چنانچہ اس نے پانچویں گواہی بھی دے دی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اسے دیکھو اگر یہ سرمئی آنکھوں والے ، بڑے سرین والے اور موٹی پنڈلیوں والے بچے کو جنم دے تو پھر وہ شریک بن سحماء کا ہے ۔‘‘ اس نے اسی طرح کے بچے کو جنم دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اگر اللہ کا حکم (کہ لعان کے بعد حد جاری نہیں کی جائے گی) پہلے سے نہ آیا ہوتا تو میں اسے ضرور سزا دیتا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا اگر میں کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پاؤں تو کیا میں اس (آدمی) کو ہاتھ نہ لگاؤں حتی کہ میں چار گواہ لاؤں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! اگر میرے ساتھ ایسا ہوا تو میں اس (گواہی) سے پہلے ہی تلوار کے ذریعے اس کا کام تمام کر دوں گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے سردار کی بات غور سے سنو ، کیونکہ وہ غیور شخص ہے ، اور میں اس سے زیادہ غیور ہوں جبکہ اللہ مجھ سے زیادہ غیور ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
مغیرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد بن عبادہ ؓ نے کہا : اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو (حالتِ زنا میں) دیکھ لوں تو میں تلوار کی دھار کے ساتھ اسے قتل کر دوں ۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے ، اور اللہ نے اپنی غیرت ہی کے باعث ظاہری اور باطنی بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے ، اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص عذر پسند نہیں کرتا اسی لیے تو اس نے آگاہ کرنے والے اور خوشخبری سنانے والے (انبیاء ؑ) مبعوث فرمائے ، اور اللہ سے بڑھ کر کوئی شخص مدح کو پسند نہیں کرتا ، اسی لیے تو اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ غیرت مند ہے اور بے شک مومن بھی غیرت مند ہے ، اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن اللہ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب نہ کرے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : میری بیوی نے ایک سیاہ بچے کو جنم دیا ہے ، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں ؟‘‘ اس نے عرض کیا : ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان کے رنگ کیسے ہیں ؟‘‘ اس نے عرض کیا : سرخ ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اِن میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے خیال میں یہ کہاں سے آ گیا ؟‘‘ اس نے عرض کیا : (پرانی) رگ اسے لے آئی ہو گی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ممکن ہے یہ بھی رگ ہو جو اسے لے آئی ہو ۔‘‘ اور آپ نے اسے اس بچے سے انکار کی اجازت نہیں دی ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے ۔ تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا ۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا سال ہوا تو سعد ؓ نے اسے لے لیا اور کہا : یہ میرا بھتیجا ہے ۔ اور عبد بن زمعہ نے کہا : یہ میرا بھائی ہے ، وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ سعد ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے بھائی نے اس (بچے) کے بارے میں مجھے وصیت کی تھی ، اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا ، یہ میرا بھائی ہے اور میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عبد بن زمعہ بچہ تمہیں ملے گا کیونکہ بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو ، جبکہ زانی کے لیے پتھر (یعنی رجم) ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے سودہ بنت زمعہ ؓ سے فرمایا :’’ اس سے پردہ کیا کرو ۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ تب فرمایا جب آپ نے اس لڑکے کی عتبہ سے مشابہت دیکھی ۔ اس کے بعد اس نے سودہ ؓ کو تا دم زیست نہیں دیکھا ۔ اور ایک روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبد بن زمعہ ! وہ تمہارا بھائی ہے ، اس لیے کہ وہ اس کے والد کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ بڑے خوش خوش میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا :’’ عائشہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجز زمدلجی آیا ہوا ہے جب اس نے اسامہ اور زید ؓ کو اس حال میں دیکھا کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی اور انہوں نے اپنے سروں کو اس سے ڈھانپ رکھا تھا اور ان کے پاؤں ننگے تھے ، اس نے کہا : یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ اور ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے جانتے بوجھتے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے اباء سے بے رغبتی و اعراض نہ کرو ، کیونکہ جس شخص نے اپنے باپ سے اعراض کیا (اور اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب کیا) اس نے کفر کیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَقَدْ ذُکِرَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ ؓ ((مَا مِنْ اَحَدِِ اَغْیَرُ مِنَ اللہِ)) فِیْ بَابِ صَلْوۃِ الْخُسُوْفِ ۔
عائشہ ؓ سے مروی حدیث :’’ اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ۔‘‘ صلاۃ الخسوف کے باب میں ذکر کی گئی ہے
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب لعان کے متعلق آیت نازل ہوئی تو انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو عورت بچے کو ایسی قوم میں داخل کر دے جس سے ان کا ناطہ نہیں اللہ کے نزدیک اس عورت کی کوئی عزت نہیں اور وہ اسے جنت میں داخل نہیں فرمائے گا ، اور جو شخص اپنے بچے کا انکار کر دے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ بچہ اسی کا ہے ، اللہ اس سے حجاب فرما لے گا اور اس کو تمام اول و آخر پوری مخلوق کے سامنے رسوا کر دے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی و الدارمی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : میری بیوی ہے جو کسی چھونے والے کا ہاتھ نہیں روکتی ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اسے طلاق دے دو ۔‘‘ اس نے عرض کیا : میں اس سے محبت کرتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر اسے اپنے نکاح میں رکھ ۔‘‘
اور امام نسائی ؒ نے فرمایا : کسی راوی نے اسے ابن عباس ؓ سے مرفوع نقل کیا ہے اور کسی نے مرفوعاً ذکر نہیں کیا ۔ چنانچہ امام نسائی کہتے ہیں یہ حدیث ثابت نہیں ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے اس بچے کی بابت فیصلہ صادر فرمایا جسے اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں میں شامل کیا گیا ہو ۔ اگر وہ بچہ ایسی لونڈی کا ہے کہ مرنے والے شخص نے اس لونڈی سے اس وقت ہمبستری کی تھی جب وہ اس لونڈی کا مالک تھا تو وہ بچہ اس کے ورثا میں شامل ہے اس کے پیدا ہونے سے پہلے جو وراثت تقسیم ہو چکی اس سے وہ محروم رہے گا البتہ پیدا ہونے کے وقت جو ترکہ موجود تھا اس میں سے اسے حصہ ملے گا (جس بچے کو شامل کیا جا رہا ہے) اگر اس کے والد نے مرنے سے قبل اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تو پھر اس بچے کو ورثا میں شامل نہیں کیا جائے گا ، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہے جس کا وہ متوفی مالک نہیں تھا یا وہ ایسی آزاد عورت سے جو اس کے نکاح میں نہ تھی تو اس بچے کو متوفی کے نسب میں شامل نہیں کیا جائے گا لہذا وہ بچہ متوفی کا وارث نہیں بنے گا ، اگرچہ اس بچے کو خود متوفی نے اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قرار دیا ہو کیونکہ وہ زنا کی پیداوار ہے خواہ لونڈی سے ہو یا آزاد عورت سے ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
جابر بن عتیک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ غیرت کی ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا ، رہی وہ جسے اللہ پسند فرماتا ہے ، وہ ہے جو مقام شک میں ہو ، اور رہی وہ جسے اللہ ناپسند فرماتا ہے وہ غیرت ہے جو غیر شک (گمان) میں ہو ۔ اور فخر کی ایک ایسی قسم ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے ، اور ایک ایسی قسم ہے جسے اللہ پسند فرماتا ہے رہا وہ فخر جسے اللہ پسند فرماتا ہے وہ آدمی کا قتال (جہاد) اور صدقہ کے وقت فخر کرنا ہے ، اور رہا وہ جسے اللہ ناپسند فرماتا ہے تو وہ نسب میں فخر کرنا ہے ۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے :’’ ظلم میں فخر کرنا ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے دور جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام میں (بچے کا) دعوی نہیں ، جاہلیت کا معاملہ ختم ہو گیا ، بچہ صاحبِ بستر کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر (رجم یا محرومی) ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ چار قسم کی عورتوں کے درمیان کوئی لعان نہیں ، نصرانی عورت مسلمان کے نکاح میں ہو ، یہودی عورت مسلمان کے نکاح میں ہو ، آزاد عورت مملوک کے نکاح میں ہو ، اور مملوک عورت آزاد کے نکاح میں ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو اس وقت حکم فرمایا ، جب آپ نے دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ (آدمی) پانچویں شہادت کے وقت اس (لعان کرنے والے) کے منہ پر ہاتھ رکھ دے ، اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیونکہ وہ (پانچویں گواہی) واجب کرنے والی ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ النسائی ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات میرے پاس سے تشریف لے گئے آپ کے تشریف لے جانے پر میں جذباتی ہوئی ، چنانچہ آپ تھوڑی دیر بعد تشریف لائے اور آپ ﷺ نے میری حالت دیکھی تو فرمایا :’’ عائشہ ! کیا ہوا ، کیا تم جذباتی ہو گئی ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا : مجھے کیا ہے کہ مجھ جیسی کو آپ جیسے کی عدم موجودگی جذباتی نہ کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے پاس تمہارا شیطان آیا ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری اعانت فرمائی حتی کہ میں اس سے محفوظ رہتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔