ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو اس وقت آپ کی نو ازواج مطہرات تھیں ، اور آپ نے ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کی تھی ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب سودہ ؓ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کی طرف سے جو میری باری کا دن تھا وہ میں نے عائشہ ؓ کو ہبہ کر دیا ، لہذا رسول اللہ ﷺ ، عائشہ ؓ کے لیے دو دن تقسیم فرمایا کرتے تھے ، ایک ان کا اپنا اور دوسرا سودہ ؓ کا دن تھا ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں دریافت کیا کرتے تھے ، میں کل کہاں ہوں گا ؟ میں کل کہاں ہوں گا ؟ آپ (اس سوال سے) عائشہ ؓ کی باری کا دن پوچھنا چاہتے تھے ، آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں ، آپ ، عائشہ ؓ کے گھر تھے حتی کہ آپ نے ان کے ہاں ہی وفات پائی ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ سفر کا ارادہ فرمایا کرتے تھے تو آپ اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کیا کرتے تھے ، جس کے نام قرعہ نکلتا تو وہ آپ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتی تھیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوقلابہ ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا :’’ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی مطلقہ / بیوہ کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو وہ اس (کنواری) کے ہاں سات راتیں قیام کرے اور پھر باری تقسیم کرے ، اور جب بیوہ / مطلقہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین راتیں قیام کرے اور پھر باری تقسیم کرے ۔ ابوقلابہ نے کہا : اگر میں چاہوں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ انس ؓ نے اسے نبی ﷺ سے مرفوع روایت کیا ہے ۔ متفق علیہ ۔
ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ ؓ سے شادی کی اور وہ آپ کے ہاں اقامت گزیں ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ ایسی بات نہیں ہے کہ تیری میرے ہاں عزت نہیں ہے بلکہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات راتیں قیام کرتا ہوں اور پھر میں ان کے ہاں بھی سات راتیں قیام کروں گا ، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں تین راتیں قیام کرتا ہوں اور پھر باقیوں کے پاس جاتا ہوں ۔‘‘ انہوں (ام سلمہ ؓ) نے عرض کیا ، آپ تین راتیں قیام کریں ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ کنواری کے لیے سات راتیں ہیں اور بیوہ / مطلقہ کے لیے تین راتیں ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری تقسیم فرمایا کرتے تھے اور آپ عدل کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ فرماتے تھے :’’ اے اللہ ! میں نے اپنی بساط کے مطابق باری تقسیم کر رکھی ہیں ، آپ مجھے اس چیز (یعنی دلی محبت) کے بارے میں ملامت نہ کرنا جس کا تجھے اختیار ہے اور مجھے کوئی اختیار نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس آدمی کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے مابین عدل نہ کرے تو وہ روز قیامت اس حال میں ہو گا کہ اس کا ایک پہلو (نصف دھڑ) مفلوج ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
عطاء ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم مقام سرف پر ابن عباس ؓ کے ساتھ میمونہ ؓ کے جنازے میں شریک تھے ، تو انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں ، انہیں جھٹکے سے نہیں اٹھانا اور نہ چلتے وقت جھٹکے دینا اور بلکہ اسے آرام سے لے کر چلنا ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی نو بیویاں تھیں ، آپ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کرتے تھے اور ایک کے لیے باری مقرر نہیں فرماتے تھے ، عطاء بیان کرتے ہیں ، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس زوجہ محترمہ کے لیے باری مقرر نہیں فرمایا کرتے تھے وہ صفیہ ؓ تھیں ، اور انہوں نے ان میں سے سب سے آخر میں مدینہ میں وفات پائی ۔ متفق علیہ ۔
رزین نے فرمایا : عطاء کے علاوہ دیگر محدثین نے فرمایا : وہ (جن کی باری مقرر نہیں تھی) سودہ ؓ تھیں ، اور یہی بات زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے اپنی باری عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی تھی ، اور انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا : میں نے اپنی باری عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی ، تاکہ میں جنت میں آپ کی ازواج مطہرات میں سے ہوں ۔